سیاست ایک طریقہ کار ہے جس کے
ذریعے عوامی حلقوں کے مسائل پر بحث یا کارروائی ہوتی ہے اور ریاستی فیصلے
عوامی رائے عامہ کی روشنی میں کیے جاتے ہیں۔پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور
جمہوریت اس ملک کی شان ہے مگر افسوس اس بات کا ہے پاکستان میں جمہوریت سے
زیادہ آمریت کا دوردورہ رہا ہے۔پاکستان میں بہت سے سیاستدانوں کو آمریت کی
پیداوار کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کی یہ شان صرف زبانی
کلامی اور دکھاوے کی ہے۔ جمہوریت کے دعوے دار توہم سب ہیں مگرہمیں جمہوریت
کہیں بھی نظر نہیں آتی۔
پاکستان کی سیاست میں ماردھاڑ قائداعظم کی وفات کے بعدسے جاری ہے۔ سیاست
میں اپنے حریف کو نیچا دکھانے کے لیے قتل و غارت سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
قائدا عظم نے اس کا ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا تھا مگرقائد
اعظم کی وفات کے بعد سے آج تک اس جمہوری ملک میں کوئی بھی کام جمہوریت کے
مطابق نہیں ہورہا ۔ فاطمہ جناح کی سیاست سے لیکر آج تک تمام سیاستدان ایک
دوسرے کی ٹانگ کھینچتے نظر آئے۔ فاطمہ جناح کی شکست بھی اسی کھینچا تانی کا
پیش خیمہ تھی۔ لیاقت علی خان کے قتل سے لیکربے نظیر کی شہادت تک کتنے
پاکستانی لیڈر اس خونی سیاست کی بھینٹ چڑھے ہیں مگر افسوس ہمارے سیاستدان
اس کھیل میں ہمیشہ اپنا مفاد عزیز رکھتے ہیں۔
پاکستانی سیاست میں جہاں بڑے بڑے لیڈر وں نے اپنی جانوں کے نظرانے دیے وہاں
سیاسی کارکنوں کی شہادت پر لکھنے بیٹھیں تو کاغذ بھر جائیں گے اور سیاہی
ختم ہوجائے گی مگر انکی تفصیل مکمل نہیں ہوگی۔پاکستان میں 14اگست سے آج تک
دھرنوں ، احتجاج اور شہرشہر جلسے جلوسوں کی سیاست عروج پر ہے۔ یہ جلسے جلوس
کوئی ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے نہیں ہورہے بلکہ تقریباً ہر پارٹی نے اپنا
اپنا جوش دکھا یا اور پھر جو زبان ان جلسوں میں استعمال کی گئی وہ کسی سے
پوشیدہ نہیں۔کہیں پر خانصاحب حکمرانوں کو دھمکا رہے ہیں تو کہیں پر بلاول
صاحب اپنے جوانی کا جوش دکھا رہے ہیں۔ شیخ صاحب کے تو کیا کہنے وہ تو عامل
بابا بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے تو پہلے ہی فرمادیا تھا کہ مجھے اس سیاست میں
خون نظر آرہا ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خونی انقلاب دستک دے رہا ہے؟14اگست سے 7دسمبر
تک ہرطرف سے یہی کوشش رہی کہ کوئی جانی نقصان نہ ہو مگر فیصل آباد میں آخر
کار وہ ہوگیا جس کی امید نہ تھی۔ آخر ان دو پہلوانوں کی کشتی غریب انسان
اپنی جان سے ہار گیا۔ یہ اﷲ جانتا ہے کہ یہ لڑائی عوام کے لیے ہے یا پھر
اپنے مفاد کے لیے۔ آخر کب تک عوام ان سیاسی لیڈروں کے لیے اپنی جانوں کے
نظرانے پیش کرتے رہیں گے؟ کیا یہ سیاستدان بھی کبھی عوام کے لیے ایک ہوں گے؟
اگر یہ لوگ پاکستان اور عوام کے لیے مخلص ہیں تو پھر کرسی کی سیاست کو چھوڑ
کر اکٹھے کیوں نہیں ہوتے؟ اگر عمران خان عوام کے لیے سب کچھ کررہا ہے تو
پھر جوکچھ ان کے ذہن میں پلان ہے تو وہ عوامی فلاح وبہبود اور ملکی مفاد کے
لیے حکومت کوکیوں نہیں بتا دیتے اور اگر میاں برادران ملک سے مخلص ہیں
توپھر وہ اپنی اس کرسی کی سیاست کو چھوڑ کر عمران خان کا ساتھ دے دیں تاکہ
یہ ثابت ہوجائے کہ کونسا لیڈر عوام سے مخلص ہے؟
عوام بیچارے ہر دور میں خسارے میں رہے۔ حکمران بدل جاتے ہیں مگر عوام کے
تلخ حالات نہیں بدلتے۔ہم تو دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے
سیاستدانوں اور عوام کو ہدایت دے اور جس طرح کا واقعہ فیصل آباد میں پیش
آیا ایسا واقعہ دوبارہ پیش نہ آئے۔لیکن یہ بات سیاستدان بھی یاد رکھیں کہ
قوم جب سارے سیاست دانوں سے مایوس ہو جائے تو پھر ایک ہی راستہ باقی رہ
جاتا ہے اور وہ ہے خونی انقلاب۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے خصوصی فضل و کرم کی بدولت خونی انقلاب
سے محفوظ رکھے اور ہمارے دلوں میں ایک دوسرے لیے اور پاکستان کے لیے محبت
بھر دے۔
|