سب یونہی چلتا رہے گا
(Ahmed Raza Mian, Lahore)
عوام کا بھروسہ دن بدن حکومت،
قانون اور عدالتوں سے اُٹھتا جا رہا ہے۔جب عوام کے ووٹوں سے آئی ہوئی حکومت
اُس کی امیدوں پر پورا نہ اُتر سکے ، عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے قانون کے
رکھوالے کسی کو تحفظ نہ دے سکیں اور مظلوم لوگوں کی آخری امید عدالت سے
انصاف نہ مل سکے تو پھر اعتماد ، اعتبار اور کسی بھروسے کا قائم رہنے کا
کوئی جواز نہیں رہتا۔ شک کی بنیاد پر تو کسی ملزم کو فوراً گرفتار کر لیا
جاتا ہے لیکن یقین کی بنیاد پر کسی یقینی مجرم کو بھی گرفتار کرنے کی پولیس
ہمت نہیں کرتی۔ کیونکہ وہ "یقینی" یعنی اصلی مجرم کوئی عام آدمی نہیں ہوتا۔
وہ ضرور کسی نہ کسی سیاسی یا حکومتی شخصیات کا کارندہ ہوتا ہے۔ عوامی دباؤ
میں آ کر اگر کسی مجرم کو گرفتار کر بھی لیا جائے تو ثبوت کی عدم دستیابی
کی بنا پر عدالت اُسے با عزت بری کر دیتی ہے۔اگر کوئی عادی مجرم عدالت سے
باعزت بری ہو جائے تو پھر اُس کاجرم کرنے کا حوصلہ پہلے سے بھی زیادہ بڑھ
جاتا ہے۔ اس ملک میں سائیکل چور کو تو مار مار کر بندر بنا دیا جاتا ہے
جبکہ کروڑوں اور اربوں کا ڈاکہ ڈالنے والے کو اس ملک کا صدر بنا دیا جاتا
ہے۔جب کوئی ڈاکو ملک کا سربراہ بن جائے تو پھر ڈاکوؤں کو کون پکڑے گا؟ کسی
ڈاکو کا اس ملک کا سربراہ بن جانا کوئی نئی بات نہیں۔ یہاں کوئی ڈاکو بن کر
اقتدار پر قابض ہوتا ہے تو کوئی اقتدار پر قبضہ کر نے کے بعد ڈاکو بن جاتا
ہے۔دونوں ہی صورتوں میں ملک اور قوم کی دولت لٹتی رہتی ہے۔
امن امان قائم رکھنا، عوام کو اُن کے بنیادی حق دینا، انصاف دلانا جیسے اہم
کام حکومت کا فرض ہوتاہے ۔ جب حکومت خود ملک میں بد امنی پیدا کرے اور عوام
کو بنیادی حکومت سے محروم رکھے تو پھر وہ انصاف دینے سے بھی قاصر رہے
گی۔ریاست کا ہر فرد حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتا ہے وہ چاہے حکومت کا حامی
ہو یا حکومت مخالف۔کسی بھی قسم کی انتقامی کاروائی کرنا حکومت کو زیب نہیں
دیتا۔ہماری بد قسمتی ہے کہ جو بھی حکومت آتی ہے وہ سب سے پہلے اپنے دشمنوں
کو سبق سکھانے کے بارے میں سوچتی ہے۔ اپنا حق مانگنے کے لیے احتجاج کرنا
جمہوریت میں کسی بھی قانون کے تحت جرم نہیں ہے۔وہ احتجاج چاہے حکومت کے ہی
خلاف کیوں نہ ہو۔یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ اُس احتجاج پر کاروائی کرے اور
احتجاج کرنے والوں کو اُن کا حق دلائے۔ لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں
اپنا حق مانگنے والے کو لاشوں کا تحفہ دے کر اُن پر لاشوں کی سیاست کرنے کا
الزام لگا دیا جاتا ہے۔مذاکرات کی بجائے معاملات کو مزید الجھا دیا جاتا
ہے۔
"پولیس کا کام ہے خدمت عوام کی" یہ ہماری پولیس کا بہت خوبصورت نعرہ ہے۔
اور وہ اس نعرے پورا پورا عمل کرتی ہے۔بے گناہ عوام کی خدمت ثواب سمجھ کر
کرتے ہیں۔اور اپنے اسی جذبہِ خدمت کے بل بوتے پر ایک شریف اور بے گناہ آدمی
کو مجبور کرتی ہے کہ اپنے اُس جرم کا اعتراف کرے جو اُس نے خواب میں بھی نہ
کیا ہو ۔ اس کام میں ہماری پولیس کچھ زیادہ ہی پھرتیلی ثابت ہوئی ہے۔ وہ تو
چھ سات سال کے بچے کو بھی قتل کا مجرم بنا کر عدالت میں پیش کر دیتی
ہے۔الزام اُس پر ایسا لگایا جاتا ہے کہ بڑے بڑے مجرم بھی شرمندہ ہو جاتے
ہیں۔ابھی چند ہی دن پہلے کی بات ہے کہ ٹی وی پر ایک خبرچل رہی تھی کہ ایک
نابالغ بچہ جس کی عمر تقریباً آٹھ یا دس سال ہو گی اُس پر خواتین کے ساتھ
چھیڑ خانی کا الزام تھا۔ اس طرح کے کئی لطیفے منظر عام پر آتے رہتے ہیں جو
ہماری بہادر ، فرض شناس اور جذبہِ خدمت سے شرشار پولیس کارناموں کا منہ
بولتا ثبوت ہیں۔ پولیس کی کارکردگی اُس وقت بھی دیکھنے کے قابل ہوتی ہے جب
وہ کسی کٹھ پتلی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ایسا ہی مظاہرہ ماڈل ٹاؤن میں منہاج
القرآن پر دھاوے کی شکل میں دیکھا جا چکا ہے۔ ان کٹھ پتلیوں کی ڈوریاں جن
کے ہاتھوں میں تھیں اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔وہاں پولیس نے جس
مہارت سے اپنے فرائض ادا کیے تھے وہ پوری دنیا نے دیکھے تھے۔اس خون ریزی کی
ایف آئی آر بھی کٹی تو ایک دھرنے کے دباؤ پر۔ لیکن اُس کا فیصلہ کب آئے گا
اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ہاں ایک بات کا فیصلہ ہونے میں زیادہ
دیر نہیں لگی۔ یعنی گلو بٹ کی گرفتاری اور اُس کو سنائی جانے والی سزا
ہمارے قانون اور عدالتوں کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
پاکستان کی پولیس غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن اُسے اس کی صلاحیت
دکھانے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔اگر اس محکمے کے اندر سیاسی عمل دخل نہ ہو
تو کوئی ایسا کیس نہیں جو ہماری پولیس حل نہ کر سکے۔اس محکمے میں ایماندار
، جفا کش، فرض شناس اور مخلص لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ
ہے کہ اس تالاب میں گندی مچھلیوں کی بھی کمی نہیں ہے۔اور یہی گندی مچھلیاں
اپنے ذاتی مفاد اور سیاسی دباؤ کے تحت اپنے فرض سے غداری کرتے ہوئے بالکل
بھی نہیں شرماتیں۔پولیس اگر چاہے تو چوبیس گھنٹے کے اندر اندر مجرم پکڑ
کرحوالات میں بند کر دے۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے اُسے ہر قسم کے سیاسی دباؤ
کو نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی دبنگ افسر ایساکر بھی دکھائے تو کسی
بڑی سیاسی قوت کا فون آ جا تا ہے۔ جس پر وہی دبنگ افسر بڑی عزت سے اُس مجرم
کو چھوڑ دیتا ہے۔البتہ اگرکوئی سیاسی یا حکومتی پشت پناہی نہ رکھنے والا
مجرم پکڑا جائے تو اُسے خوب مزہ چکھایا جاتا ہے۔ پولیس اپنی ساری ناکامیوں
کا غصہ ایسے ہی لا وارث مجرموں پر نکالتی ہے۔ |
|