آئینِ ہند اور اقلیتوں کا تحفظ؟

اترپردیش میں لو جہاد کا مدعہ ناکام ہونے کے بعد آر ایس ایس ایس اور اسکی منسلکہ جماعتیں اپنے اُس ہدف کے تعاقب میں ناکام ہوگئیں جس کے لئے وہ برسوں سے خواہاں تھے۔ در اصل یہ لوگ لو جہاد جیسے غیر موضوع کو موضوع بناکر اس پر پارلیمنٹ میں بحث کرانا چاہتے تھے، اور آرٹیکل ,25,26,27,28,29,30،یعنی آزادئی ضمیر، تبدیلئی مذہب کی آزادی،26 مذہبی امور کے انتظام کی آزادی، 27کسی خاص مذہب کے فروغ کے لئے ٹیکس ادا کرنے کے بارے میں آزادی، 28بعض تعلیمی اداروں میں تعلیم پانے یا مذہبی عبادت میں حاضر رہنے کے بارے میں آزادی،29 اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ ، 30اقلیتوں کو تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ، مذکورہ دفعات پر نظر ثانی کرانے کی فراق میں یہ جماعتیں مستحکم انداز میںقائم تھیں اور قائم ہیں۔آرٹیکل 25اس میں خاص اہمیت کی حامل ہے جس کے لئے انہوں نے کبھی کیرلہ کاراگ الاپہ کبھی کھرکھودہ ،میرٹھ کا لیکن دونوں جگہوں سے انکو اپنی منھ کی کھانی پڑی ، نتیجتاً ناکامی ہاتھ آئی۔ بہر حال ان کا ہدف مذکورہ دفعات ہیں جس پر کام کرتے ہوئے فی الوقت نشانہ آرٹیکل 25ہے، ناکامیوں کے بعد فرقہ پرستوں کا خاموش رہنا غیر فطری تھا ، مضبوط اور ٹھوس پلاننگ کے ساتھ انہوں نے 8 دسمبر کو 360افرادپر مشتمل 27 کنبوںکو لالچ کے بل بوتے پر تبدیلی مذہب کروایا ، ہندوستان کی پر امن فضا کچھ دنوں کے لئے خام کردی۔ الیکٹرانک میڈیا کو چند دنوں کا مصالحہ مل گیا۔ معاملہ واقعی اتنا سنگین تھا کہ اس کی گونج پارلیمنٹ میں دیکھنے کو ملنا یقینی تھا۔ پارلیمنٹ میں مذکورہ معاملہ کی گونج سے تبدیلی مذہب پر بحث کے لئے پارلیمنٹ نے خصوصی سیشن کی اجازت دے دی ۔اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آرٹیکل 25,تا30، جو ہندوستانی عوام کو ہر سطح پر آزادی بخشنے والی ہیں ۔ ان آرٹیکل پر بحث کے لئے حمایتیں چہار جانب کیوں ہورہی ہیں۔ خصوصا حذب مخالف کی رضا مندی اورحمایت قابل دید ہے۔ حذب مخالف بی جے پی کے سربراہ امت شاہ کی حمایت کہیں نہ کہیں خاص اشارہ کرتی نظر آرہی ہے، ایسا محسوس ہورہاہے کہ گویا بی جے پی اور اس کے منسلکہ فرقہ پرست جماعتیں بذات خود ان آریٹکلس پر پہلے سے ذہنی طور پر تیار بیٹھے ہیں، چونکہ تبدیلی مذہب کا ریشو اب تک ان کے خلاف رہاہے، اوریہ ہندتوا وادی اس بڑھتے ہوئے پیمانوں کو برداشت کسی حال نہیں کرسکتے ہیں۔ کیونکہ لو جہاد کے ذریعہ وہ تبدیلی مذہب کے موضوع کو پارلیمنٹ تک نہیں لے جاسکے، یہ قلق اور بے چینی ان کو سکون سے جینا نہیں دے رہی ہیں۔ آگرہ سانحہ، چھتیس گڑھ سانحہ جہاں48عیسائی فیملیوں کو تبدیلی مذہب اور اب 25دسمبر کو علی گڑھ میں ممکنہ پروگرام کے زیر اہتمام 4000لوگوں کو تبدیلی مذہب کرانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں جب یوگی آدتیہ ناتھ سے پوچھا گیا کہ آپنے علی گڑھ کو ہی کیوں چنا، یوگی آدتیہ ناتھ نے کا جواب تھا ’’اتر پردیش میں آزادی کے بعد بڑی تعداد میں تبدیلی مذہب ہواہے، جسکی شروعات، ایٹا ، علی گڑھ، اور آگرہ سے ہوئی ہے، اور یہ جتنے واقعات ہورہے ہیں یہ تبدیلی مذہب نہیں ہے یہ لوگو ں کی گھر واپسی ہے، جو لوگ بھٹک گئے تھے وہ لوگ سیدھے راستے پر آرہے ہیں ، یہ سلسلہ شروع ہواہے ، آگے بھی جاری رہے گا‘‘۔ جس سے صاف ہوجاتاہے کہ یہ فرقہ پرستوں کی سوچی سمجھی سازش ہے ،کیونکہ انکے ذہنوں میں یہ بات گھر کر چکی ہے کہ اب ہم پارلیمنٹ میں بھی اکثریت سے ہیں، قانونی ترمیمات کی طاقت اورقوت ہمارے پاس ہے، چونکہ خصوصی موضوع پر پارلیمنٹ پر بحث ہونا طئے پایا گیا ہے، مذکورہ آرٹیکل میں ترمیمات کی آوازیںبھی اٹھیں گی شوشہ زنی بھی ہوگی، اگر اس کوپارلیمنٹ کے ذریعہ تفصیلی بحث کے ذریعہ قبول کرلیا گیا تو اکثریت میں ہونے کی وجہ سے اسکا پورا پوافائدہ فرقہ پرستوں کے حق میں ہی ہوگا، جمہوریت جسکو کہتے ہیں پھر اسکو جمہوریت کہنا نا ممکن ہوگا۔ بہر کیف یہ ہندوستانی جمہوریت کے لئے بڑا خسارہ ہے ، اقلیتوں کے حقوق کی پامالی ہوگی، اور پر امن فضا کے لئے قدغن ثابت ہوگا۔

Abdul Aleem Rasheed
About the Author: Abdul Aleem Rasheed Read More Articles by Abdul Aleem Rasheed: 3 Articles with 1902 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.