میرا گاؤں’’ گوہرآبادــــ‘‘
(Amir Jan Haqqani, Gilgit)
گوہرآباد کا نام سنتے ہیں آپ کے
دل و دماغ میں ایک خوبصورت وادی کا تصور ابھرتا ہے ، گوہرآباد کو مقامی
زبان میں ’’گور‘‘ کہا جاتا ہے مگر اس کا درست نام گوہرآباد ہے۔تاریخ کی
کتابوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ گوہرآباد بارہ سو سال سے اپنا مستقل
وجود رکھتا ہے۔
گوہرآباد وہ گاوں ہے جو گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ مگر اپنے
قدرتی حسن اور خوبصورتی اور بالخصوص تعلیم و تدریس کے حوالے سے انتہائی
معروف و مشہور ہے۔ بلامبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ تناسب آبادی کے اعتبار سے
گوہرآباد کے لوگ پورے گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔اس
گاوں کا رقبہ اراضی بہت طویل ہے۔ گیس پائن،گیس بالا، رائیکوٹ، تھلیچی پر
مشتمل ہے۔ اگر آپ راولپنڈی سے سفر کرتے ہیں تو کے کے ایچ میں ۵۰۰ کلومیٹر
کے فاصلے پر وادیِ گوہرآباد آ پ کو خوش آمدید کرے گی۔ اگر آپ گلگت شہر سے
سفر کرتے ہیں تو نوے کلومیٹر کی مسافت کے بعد گوہرآباد کا مرکزی باب آپ کی
باصرہ نواز ہوگا۔
پورے گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ جنگلات گوہرآباد میں پائے جاتے ہیں
جسمیں کائل، فر، چیڑھ، دیار،بنئی،کاؤ اور قسم ہائے قسم درخت وافر مقدارمیں
موجود ہیں۔ ٹمبر مافیا کو مکمل آزادی ملنے کے باوجود گوہرآباد کے جنگلات اب
تک محفوظ ہیں۔ محکمہ جنگلات کو چاہیے کہ ان کو محفوظ بنانے کی فوری احتیاطی
تدابیر کریں۔جنگلی حیات کے حوالے سے بھی گوہرآباد کافی معروف ہے۔ جہاں
لومڑی، گیدڑ، برفانی اور میدانی ریچھ، مارخور،ہرن، بٹیر، شاہین ، باز، اور
ہر قسم کی چہچہاتے پرندے کافی تعدا د میں پائے جاتے ہیں۔
گوہرآباد کی زمین زرخیز اور درخت پھلدار ہیں۔ گندم ، مکئی، آلو، پیاس،
بھنڈی، گوبھی، جُو اور لوبیاکی کاشت بڑی مقدار میں کی جاتی ہے۔ گوہرآباد کا
سونچل (ایک سبزی کا نام) بہت لذیذ ہے۔ گلگت بلتستان کی دیگر شہروں میں
ایکسپوٹ کیا جاتا ہے۔ پھلوں میں آخروٹ،انگور، شہتوت،انارکثرت سے ہوتے
ہیں۔جلغوزے کے درخت پورے گلگت بلتستان میں سب زیادہ یہی پائے جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سب سے لذیذ جلغوزے بھی گوہرآباد کے ہی ہوتے ہیں۔جلغوزے کا
کاروبار لوگو ں کی معیشت کا بہترین وسیلہ ہے۔گوہرآباد کے لوگ مال مویشاں
کثرت سے پالتے ہیں۔ مارتل، کھلیمئی ، سگھر،بھری، چھلو ، ہومل، سلومن بھوری
، مطیرا، دساہ ، چانگھا، دروگاہ،ملپٹ گوہرآباد کی مشہور چراگاہیں ہیں جہاں
لاکھوں مال مویشاں چرتے ہیں۔موسم گرما میں ہزاروں لوگ اپنی مال مویشاں لے
کر ان چراگاہوں میں چلے جاتے ہیں۔یہ چراگاہیں ایک وسیع و عریض علاقے میں
پھیلی ہوئی ہیں۔ تمام چراگاہوں تک کا سفر پیادہ ہے۔یہ تمام چراگاہیں اتنی
خوبصورت، صحت افزا اور دلفریب جگہیں ہیں کہ اگر سیاحوں کا رخ ان کی طرف موڑ
دیا جائے تو ہزاروں خوبصورت مناظر کیمرے کی آنکھ سے محفوظ ہوکر دنیا کے
سامنے آسکتے ہیں۔
گوہرآباد میں آبشاروں، چشموں اور گلیشیٔرز کا شفاف پانی وافر مقدار میں
پایا جاتا ہے مگر نہری نظام نہ ہونے کی وجہ سے وسیع اراضی بنجر پڑی ہوئی ہے
اور فصلیں قلت آب کا شکار ہیں۔
کے کے ایچ روڈ ڈرنگ سے وسط گوہرآباد تک چودہ کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔بذریعہ
جیپ، ہایس، اور رٹوڈی سے سفرکیا جا سکتا ہے۔ ایک ہائی اسکول ہے۔جبکہ کئی
مڈل اور پرائمری اسکولز ہیں۔ پچیس بیڈ پر مشتمل ایک ہسپتال تعمیرات کے آخری
مراحل میں ہے۔گوہرآباد میں ایس کام کی موبائل فون سروس بھی موجود ہے اور
زونگ بھی چلتا ہے۔
گوہرآبا د کے لوگوں کی علم دوستی کا ثبوت اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ
کیڈٹ کالج کے لیے مفت میں ایک ہزار کنال زمین مرحمت کی۔ اب گوہرآباد میں
برلب کے کے ایچ پر کیڈٹ کالج کا تعمیراتی کام ہورہا ہے۔گوہرآباد کے لوگ
انتہائی مہمان نواز ہیں۔ مہمانوں کی ضیافت اپنے فرائض میں خیال کرتے ہیں۔جب
بھی کوئی سیاح گوہرآباد کا رخ کرتا ہے تو گوہرآباد والوں کی مہمان نوازی
دیکھ کر ورطہ حیرت میں رہ جاتا ہے۔گوہراباد میں شین یشکن، ڈوم کمن، سید
وغیرہ قومیں پائی جاتیں ہیں مگر یکجہتی اور بھائی چارگی کی فضاء قائم ہے۔
لسنئے، گوچئے ڈوبئے اور کھرتالے پوشیلے کے نام سے تین بڑی ہیٹی( گروپس)ہیں۔
ا ور ان کے اندر تقسیمات ہیں۔
گلگت گوہرآباد کے جنگلات کی عجیب روگ کہانی ہے۔ چند وڈیروں کی کارستانیوں
کی وجہ سے اب تک غریبوں کا پانچ ارب سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے مزید اربوں
کے نقصانات کا قوی امکان ہے۔ دو دہائیوں سے یہ جنگلات اٹکے ہوئے ہیں۔گلگت
بلتستان میں سب سے گھنے اور قیمتی لکڑی کے درخت گوہرآباد کے جنگلات میں
پائے جاتے ہیں۔ یہ جنگلات مقامی لوگوں کی ملکیت ہے۔
گوہرآباد میں پرانے طرز کے قلعے بھی ہیں۔ ان کو مقامی زبان میں ’’شکارے‘‘
کہا جاتا ہے۔ یہ تین منزلہ ہیں۔ ان قلعوں کی تعمیر میں لکڑی کا استعمال
زیادہ ہوا ہے ، لکڑی کی عمارت کھڑی کرکے درمیان میں چھوٹے چھوٹے پتھر لگا
دیے گے ہیں۔ یہ قلعے صرف دو جگہوں میں ہیں جو گوہرآباد کی سب سے پرانی
آبادیاں ہیں۔ یعنی لسنوٹ کوٹ اور ڈبوٹ کوٹ میں۔
گوہرآباد میں ایک عجوبہ بھی ہے جو ـ’’ ہپرنگ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس کے
بارے بہت سی اساطیر اور من گھٹرت کہانیاں بیان کی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے
دور کا بھی تعلق نہیں ہے ۔یہ ایک بہت بڑی کھُو ہے۔ جنات اور پریوں کا مسکن
ہے۔گوہرآباد کے کئی نالوں کا پانی یہی سے ہوکر دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔
گورنمنٹ اگر ’’ ہپرنگ ‘‘ کو سیر گاہ بنائے اور مناسب انتظامات کریں تو
ہپرنگ بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن سکتی ہیں جس سے گلگت بلتستان کی معیشت
مضبوط اورکھربوں کی آمدن موصول ہوسکتی ہے۔جب بھی گوہرآباد کا نام لیا جاتا
ہے تو حاضرین محفل ’’ ہپرنگ ‘‘ کا نام بھڑبھڑاتے ہیں۔۔گوہرآباد مارتل
انتہائی بلندی پر ایک وسیع میدانی علاقہ ہے۔جہاں لاکھوں ٹن گھاس کاٹ کر خشک
کی جاتی ہے اور مویشوں کے کام آتی ہے۔ گوہرآباد جنگل کے دامن میں واقع یہ
علاقہ بے حد خوبصورت ہے۔شریں پانیوں کا مسکن مارتل انتہائی زرخیز ہے۔ جہاں
کے آلو اور سبزیاں انتہائی لذیذ اور صحت افزا ہیں۔ ماہرین لذت و صحت افزا
ہونے کی ایک وجہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ شفاف پانی کے ساتھ گوبر کا استعمال
کیا جاتا ہے۔یوریا اور نائٹریٹ کی کھاد وغیرہ سے پرہز کیا جا تا ہے۔آسانی
سے روڈ لے جایا جاسکتا ہے۔ اگر مارتل پولو فیسٹول کا انعقاد کیا گیا تو
دنیا بہت ساری جگہیں بھو ل جائے گی۔
شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے بعد یہاں دو پل بنائے گئے ۔ ایک گوہرآباد پل اور
دوسرا گیس پل کے نام سے معنون ہیں۔ ان دونوں پلوں کے ذریعے گوہرآباد کا وزٹ
کیا جاسکتا ہے۔یہاں کا رہن و سہن اور تہذیب و تمدن بھی دیگر علاقوں سے
مختلف ہے۔ کافی سال پہلے یہاں سارے گوہرآباد والوں کی سال میں ایک دفعہ
اجتماعی شادیاں ہوتی تھیں اور سب کا ولیمہ بھی ایک ساتھ ہوتا تھا تاہم اب
یہ سلسلہ ختم ہوچکا ہے مگر اب بھی پندرہ بیس شادیاں اکھٹی ہوتیں ہیں مگر
دعوت ولیمہ سب کی اپنی اپنی ہوتی ہے۔ یہاں نمبرداری اور جرگہ داری سسٹم آج
بھی موجود ہیں۔ گھاس کاٹنا، اخروٹ اور انگور ، جلغوزے توڑنا وغیرہ میں اتفا
ق ہوتا ہے، نمبردار جس دن اجازت دیں اس دن کاٹا جاتا ، خلاف ورزی کی صورت
میں بھاری جرمانہ عائد کیا جاتا ہے۔ یہی صورت حال چراگاہوں میں جانور لے
جانا، واپسی پر لے آنا، بنئی کے درخت کا کاٹنا وغیرہ کے لیے بھی تسلسل سے
جاری ہے۔
نوٹ: یہ تحریر، قومی نشریاتی رابطے کا پروگرام’’ میرا گاؤں‘‘ کے نام سے
ریڈیو پاکستان اسلام آباد سے یکم نومبر کو آن آئیرنشر ہوا ہے۔ |
|