16دسمبر دنیا کے نقشہ پر بنگلہ
دیش کی بنیاد رکھی گئی ۔ اس روزسقوطِ ڈھاکہ کا دلخراش واقع رونماہوااور
تاریخ نے ایک عظیم اسلامی مملکت کو دو لخت ہو تے دیکھا ۔ اگرچہ 1971,مارچ
23 کو یوم ِ پاکستان کے موقع پر علیحدگی پسندوں نے بنگال میں ہر جگہ بنگلہ
دیش کا پرچم لہرایا اور اس کے بعد غیر بنگالیوں پر تشدد میں بے پناہ اضافہ
کر دیا گیا ۔
تاریخ گواہ ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ کیبے پناہ وجوہات میں ایک بہت بڑی وجہ بھارت
کی منظم در اندازیاں بھی تھیں ۔بھارت نے پاکستان کی بنیاروں کی کھدائی کا
کام آزادی کے پہلے دن سے شروع کر دیا تھا ۔ بھارت پہلے دن سے ہی پاکستان کو
دولخت کرنے کے در پے رہا ۔ اندرا گاندھی جو اس وقت بھارت کی وزیر اعظم تھیں
انھوں نے اس سارے منصوبے کو دو قومی نظریہ کے ڈبو دینے کا نام دیا ۔ تاریخ
بتاتی ہے کہ اندرا گاندھی نے اپنی خفیہ اجنسیوں کے ذریعے بنگلہ دیش بنانے
اور پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی
۔سبرامینعم (دانشور) کو سپین بھیجا ۔ جہاں اس نے اندلس میں مسلمانوں کی
ہزار سالہ حکومت کے بعد جلا وطنی کے اسباب پر غور کیا اور ان تجربات کی
روشنی مین اس نے ایک مقالہ لکھا ۔ اس تمام تحقیق کو مدِنظر رکھتے ہوئے
بھارت نے باقاعدہ سازش کے تحت پاک فوج کے خلاف زہریلا پروپگنڈا کیا
اورمغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کو مظالم کا نشانہ بنایا گیا ۔ یہاں
تک کہ مکملبغاوت کے لیے مکتی باہنی کو سامانِ حرب اور باقاعدہ فوجی تربیت
دی اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ مکتی باہنی کی
مدد کی آڑ میں مشرقی پاکستان میں بھیجے جنہوں نے پاک فوج اور مغربی پاکستان
کے خلاف نہ صرف زہریلا پراپگیڈا کیابلکہ پاک فوج کو بدنام کرنے کے لیے پاک
فوج کی وردی استعمال کرکے لوگوں پر مظالم ڈھائے تاکہ مشرقی پاکستان کے لوگ
اپنے ہی بھائیوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگیں ۔
سقوطِ ڈھاکہ کی دوسری بڑی وجہ مغربی پاکستان کے حکمران بھی تھے ۔ جنھوں نے
ہمیشہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو حقیر نظر سے دیکھا اور ان کے حقوق کو
پامال کیا ۔ان کا جائز حق بھی انھیں نہیں دیا گیا ۔ جس کی وجہسے اس علاقے
کے لوگوں میں احساسِ محرومی بڑھتا گیا اور جب مضیب الرحمٰن نے علم ِ بغاوت
بلند کیا تو وہاں کے لوگ باخوشی اس کا ساتھ دینے پر رضا مند ہو گئے ۔قدرت
اﷲشہاب اپنی کتاب شہاب نامہ (صفحہ نمبر309 ) میں لکھتے ہیں ۔
اعلیٰ سطح کی ایک میٹنگ میں سینٹری کے سامان کی درآمد کا مسئلہ زیر ِ بحث
تھا تو مولوی فضل الرحمٰن نے تجویز دی کہ درآمد شدہ سامان کا کچچھ حصہ
ڈھاکہ کے لیے بھی مخصوص کیا جائے ۔ اس تجویز پر ہنسی اڑائی گئی پھبتی کسنے
والوں نے یہاں تک کہا کہ بنگالی لوگ تو کیلے کے گاچھ کی اوٹ میں بیٹھ کر
رفع حاجت کر نے کے عادی ہیں وہ ابھی سے کموڈاور واش بیسن کا کیا کریں گے ۔
بھر کچھ طنز و مزاح اور بحث و مباحثہ کے بعد مولوی فضل الرحمٰن کی بات مان
لی گئی ۔ لیکن ایسی بدمزگی کے ساتھ جس طرح دودھ میں مینگنیاں ڈال کر پیش
کیا جاتا ہے ۔ بقول شہاب صاحب لاشعوری طور پر بنگلہ دیش کی بنیادوں کی
کھدائی کا کام اسی روز شروع ہو گیا تھا ۔
متحدہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمد پٹ سن تھی جبکہ مشرقی پاکستان کو گندم
مغربی پاکستان فراہم کرتا تھا ۔ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان میں بھی
بے انتہا ترقیاتی کام کرائے گئے اس کے باوجود جب مجیب الرحمٰن نے مغربی
پاکستان کا دورہ کیا تو اس نے یہاں کی مٹی اٹھائی اور کہا کہ مجھے اس مٹی
سے پٹ سن کی بو آتی ہے -
تمام افواج میں شمولیت کو بنگال کے رہنے والوں کے لیے تقریبا ممنوع کر دیا
گیا ۔ چونکہ بنگال کے رہنے والے کوتاہ قد ہیں اور فوج کی نوکری کے لیے
قداوروزن کے جو معیار بنائے گئے یہ لوگ کسی صورت اس پرپورا نہیں اتر سکتے
تھے ۔اس طرح ان نوجوانوں کے دلوں میں مغربی پاکستان کے خلاف جذبات پنپنے
لگے ۔مغربی پاکستان کیحکمرانوں نے اپنے رویے اور معاشرتی ناانصافی سے بنگال
کوبنگلہ دیش بنانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
اقتدار پر قابض یحیٰ خان کی چند انتظامی غلطیوں نے سونے پر سوہاگہ کا کام
کیا ۔ ان کا ون یونٹ کو توڑنا ، نئے سیٹ اپ میں الکشن کرانا اور اس کے بعد
بھی صدارت کی کرسی نہ چھوڑنا ان کی فاش ترین غلطی تھی ۔ اور اس نے تابوت
میں آخری کیل کا کام کیا ۔ اس کے بعد سیاسی غلطیوں کا ایسا نیا کھیل شروع
ہو ا جس نے مجیب الرحمٰن کو مظلوم بننے کا موقع دیا ۔ شیخ مجیب کا مظلوم
بننااور آرمی کا فوری ایکشن ، جس نے وہاں کے لوگوں میں مزید بے چینی
پھیلائی، مکتی باہنی اور بھارت کی طرف سے جنگ کا اعلان سقوطِ ڈھاکہ کا سبب
بنے ۔یہ تو صرف چند ایک واقعات ہیں ۔ایسے کئی واقعات نے مغربی اور مشرقی
پاکستان کے عوام کے دلوں میں ایک دوسرے کیے لیے نفرتیں ڈالی اور بہت سی غلط
فہمیوں نے بھی جنم لیا ۔ جن میں بھارت کا کردار اہم رہا۔جب مشرقی پاکستان
میں ایمرجنسی لگائی گئی اس کے تحت بھی بنگالیوں میں کچھ عناصر نے بہت بے
چینی پھیلائی ۔ جس کا فاعدہ اٹھاتے ہوئے آزادی کی آڑ میں بھارت نے اپنی فوج
مشرقی پاکستان میں داخل کردی ۔اسی وقت بھارت نے کئی ایک محاذوں پر جنگ چھیڑ
دی-
ان سیاسی غلطیوں کے ساتھ ساتھ کئی انتظامی غلطیوں کا ذکر کرنا بھی بے حد
ضروری ہے ۔مغربی پاکستان کے اقتدار پر قابض لوگوں نے کبھی مشرقی پاکستان
میں بڑھتی ہوئی بغاوت کو سنضیدگی سے نہیں لیا تھا اورنہ ہی کواس سلسلے میں
کوئی سنجیدہ اقدامات کئے گئے تھے ۔ مشرقی پاکستان میں پاکستان آرمی کی صرف
3 یونٹ تعینات کی گئی تھی ۔جبکہ ہندوستان نے جدید سامان ِ حرب سے لیس 7
ڈویژن تعینات کر رکھی تھی۔ اتنی کم فوج بھی اتنی زیادہ فوج سے اس طرح
مقابلہ کرنے کے قابل نہ تھی-
سقوط ِ ڈھاکہ مسلمان دنیا کے لیے ایک عظیم سانحہ تھا جس کے ذمہ دار
پولیٹیکل انتظامیہ اورفوج برابر کے شریک رہے تھے ۔یہ سانحہ ایک دم سے پیش
نہیں آیا تھا بلکہ اس کے اسباب کئی برس سے رونما ہونے والے واقعات اور
بھارت جیساعیار دشمن تھا ۔
المیہ در المیہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اورسیاست دانوں نے اس سانحہ سے کچھ
نہیں سیکھا ۔ آج بلوچستان کے حقوق کو بھی اسی طرح فراموش کر دیا گیا جس طرح
ماضی میں ڈھاکہ کو کیا گیا ۔ بلوچستان کے لوگوں کا بھی احساس ِ محرومی دن
بدن اسی طرح بڑھتا جارہا ہے جیسے ڈھاکہ کے لوگوں کا بڑھ چکا تھا ۔ بلوچستان
لبرل آرمی کا قیام بالکل مکتی باہنی کی طرز پر عمل میں آچکاہے ۔وقت کا
تقاضا ہے کہ ماضی میں کی گئی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور ہر صوبے کے لیے کا م
کیا جائے ۔حکمرانوں کو اپنی ذات سے بڑھ کر ملکی مفاد کے لیے کام کیا جائے ۔
سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے عہدوں کی نزاکت کو سمجھیں اورذمہ داری کا
مظاہرہ کریں ۔ملکی مفاد کو اہمیت دیں اور صوبوں میں بڑھتے ہوئے احساسِ
محرومی کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ضروری ہیں ۔
|