جامد عقیدت سے تصادم نہ لیں
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
ایک گاؤں سے ایک نوجوان شہر گیا
وہاں وہ ایک ڈاکٹر کے پاس کمپوڈر کی حیثیت سے کام کرنے لگا دو سال کے بعد
جب وہ گاؤں واپس آیا تو یہاں وہ اپنا مطب کھول کر لوگوں کا علاج کرنے لگا
اس طرح وہ اس گاؤں کا ڈاکٹر بن گیا اس کی تشخیص اچھی تھی لوگوں کو فائدہ
ہونے لگا تو گاؤں کے تمام ہی لوگ چودھری سمیت اس کے گرویدہ ہو گئے ۔ایک
دفعہ ایک نوجوان کی بہت سخت طبعیت خراب ہوئی اس کے گھر والوں نے گاؤں کے
اسی ڈاکٹر کو بلایا بیمار نوجوان بالکل بے سدھ پڑا ہوا تھا ڈاکٹر نے اپنا
آلہ وغیرہ لگا کر اسے چیک کیا اور اس کے بعد کہا کہ جے تو مر گوا(یہ تو مر
گیا)گھر والوں نے تدفین کی تیاری شروع کردی جب اسے گہوارے میں قبرستان کی
طرف لے جایا جا رہا تھا کہ اسے ہوش آگیا،وہ بڑا گھبرایااب جو بھی اس کی طرف
آتا وہ اس سے کہتا کہ بھائی میں جندہ ہوں لیکن سب سنی ان سنی کرتے رہے
بالاخر جب اس کے چاچا آئے تو پہلی مرتبہ وہ بھی نظرانداز کر گئے دوسری دفعہ
جب اس کے چاچا اس کی طرف آئے تو بڑا لجلجا کر اس نے کہا کہ چاچا اﷲ پاک کسم
میں جندہ ہوں چاچا نے اس کو جواب دیا کہ دیکھ ہم کچھ نہ کر پاویں جب بڑے
تاؤ (گاؤں کے چودہری) ادھر آئیں تو ان سے بات کرنا وہی کچھ کر پاویں گے ۔جب
بڑے تاؤ اس کی طرف آئے تو اس نے ان سے بڑے گھگھیانے والے اندز میں میں کہا
کہ تاؤکھدا کے واسطے مجھے بچالو اﷲ پاک کسم میں جندہ ہوں (تاؤ خدا کے واسطے
مجھے بچالو اﷲ پاک کی قسم میں زندہ ہوں )پہلی دفعہ تو بڑے تاؤ بھی صرف نظر
کر گئے جب وہ دوسری بار اس کی طرف آئے تو اس نے بہت گڑگڑا کر ان سے وہی
جملہ دہرایا اب بڑے تاؤ کو غصہ آگیا انھوں نے اس سے کہا کہ سب لے مجھ سے آآ
کر یہی بتارہے ہیں اور تو سب لو سے یہی کہے ریا ہے کہ میں جندہ ہوں میں
جندہ ہوں ابا چپا پڑا رہ تائیں کیا ڈانکٹر سے جادا کابل ہو گیا ہے(سب مجھ
سے آآکر یہی کہہ رہے ہیں تو سب سے یہ کہہ رہا ہے کہ میں زندہ ہوں میں زندہ
ہوں ابے خاموش پڑا رہ تو کیا ڈاکٹر سے زیادہ قابل ہو گیا ہے )۔جامد مذہبیت
کی ایک نشانی یہ ہے کہ لوگ ہر حال میں اپنے عقیدے میں پکے ہوتے ہیں ،اسی سے
ملتی جلتی کچھ حقیقی اور کچھ تصوراتی کہانی اس طرح ہے کہ ایک نوجوان جو
پانچوں وقت کی نماز پڑھتا تھا ،کبھی کبھی ایسا ہوتا بعد عصر یا بعد مغرب وہ
جب نماز پڑھ کے اپنے گھر واپس جارہا ہوتا تو محلے کی ایک بزرگ خاتون اسے
بلاتیں اور کہتیں کہ للا جرا پھاتحہ دے دے آج مولبی صاب نہ آویں (بیٹا ذرا
فاتحہ دے دے آج مولوی صاحب نہیں آ ئیں گے)وہ نوجوان فاتحہ دے دیتا کچھ عرصے
بعد اس نوجوان نے کچھ دینی لٹریچر کا مطالعہ کیا اور دین کاصحیح فہم اسے
حاصل ہو گیا ۔اور اس کے ساتھ ہی کچھ جوشیلا بھی ہو گیا اپنے دوستوں اور
رشتہ داروں سے بحث و مباحثہ کرنے لگا ۔ایک دن نماز سے واپسی اس بوڑھی خاتون
نے اس نوجوان سے کہا بیٹا جرا پھاتحہ دے دے ،وہ نوجوان جس کا ذہن تبدیل ہو
چکا تھا کمرے میں جا کر اس نے اس خاتون کو ـ"سمجھانا "شروع کردیا کہ اماں
یہ آپ جو کچھ کرتی ہو سب غلط ہے یہ گناہ ہے وہ بڑی بی حیرت سے اس کا منہ تک
رہی تھیں اور سوچ رہی تھیں کل تک تو یہ آکر فاتحہ دے جاتا تھا اور کبھی
ایسی کوئی بات نہیں کی وہ کہنے لگیں بیٹا تو کیا کہہ رہا ہے اور وہ بھی اس
سے الجھ پڑیں آپس کی بحث چل رہی تھی کہ اندر سے اس کی بہو نے پوچھا کہ اماں
کیا بات ہے تو کس سے لڑرہی ہے انھوں نے کہا ارے اس کو فاتحہ کے لیے بلایا
تھا پہلے تو فاتحہ دے کر چلا جاتا تھا اب کہہ ریا ہے کے یہ تو گناہ ہے ۔اماں
کون ہے ،بہو نے بہ آواز بلند پوچھا بزرگ خاتون نے کہا ارے وہی ہے کنیج
والا(کنیز کا بیٹا)بہو نے کہا کہ ارے اماں تو نے اس کو کہاں بلالیا کل خالہ
شدو بتا رہی تھیں کنیج کا لمڈا تو وہابی ہوگیا ہے ۔بڑی بی نے اس کے آگے سے
پلیٹ ہٹاتے ہوئے کہا جا بیٹا تو جا ہم مہجد کے مولبی صاب کو بلالیں گے ،بڑی
بی پھر بولیں بیٹا تو نے ایسا کا پڑھ لیا اور بیٹا تو یہ بتادے کہ تے کیا
مہجد کے مولبی سے جادا کابل ہو گیا ہے (تو کیا مسجد کے مولوی سے زیادہ قابل
ہو گیا ہے)۔ایک دفعہ ایک تبلیغی گروپ ایک ایسے گاؤں میں پہنچا جہاں لوگ صرف
نام کے مسلمان تھے ،باقی سارے کام ان کے ہندوآنہ طرز کے ہوتے تھے ۔تبلیغی
وفد کے سربراہ نے مولانا اشرف علی تھانوی کو خط لکھا اور ان گاؤں والوں کی
پوری کیفیت لکھ کر بھیجی اور لکھا کہ یہ لوگ نماز تو دور کی بات ہے کلمہ
بھی ٹھیک سے نہیں پڑھ سکتے ،باقی یہ تعذیے نکالتے ہیں اور سارے مشرکانہ کام
کرتے ہیں ۔مولانا نے انھیں جواب دیا کہ یو لوگ جو کچھ کررہے ہیں انھیں کرنے
دو اور کسی کام سے نہ روکو بس ان کو دین کی بنیادی باتیں سکھاؤ کلمہ سکھاؤ
جیسے جیسے ان کو دین کا فہم آتا جائے گا دیگر چیزیں ازخود ختم ہوتی جائیں
گی ۔مولانا مودودی نے بھی جب ایک مسجد میں جمعہ کی نماز میں تقریر شروع کی
جو بعد میں خطبات اور دینیات کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوئیں تو ان
کے سامنے عام دیہاتی لوگ ہوتے تھے سادہ الفاظ میں دین کی بنیادی باتیں ہی
بتائی گئیں ہیں مولانا نے اپنی تقریر میں کبھی کوئی اختلافی بات نہیں کی ۔جس
طرح ہمارے لوگ اکثر مذہبی معاملات میں شدت سے عقیدت رکھتے ہیں اسی طرح
سیاسی عقیدت میں بھی شدید ہوتے ہیں بالخصوص قیادت کے حوالے لوگ زیادہ شدید
ہوتے ہیں ۔
اجتماع عام کے آخری سیشن میں امیر جماعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق نے
جو کلیدی خطاب میں کارکنوں کو جو ہدایات دی ہیں اس میں سب سے اہم بات یہ ہے
کہ سو لوگوں کو جماعت کا ووٹر بنانا ہے ،اس کا مطلب یہ ہوا ایک کارکن کم از
کم پانچ سو ملاقاتیں کرے تب کہیں جاکر بیس فی صد لوگوں کے ووٹر بننے کے
امکانات ہو سکتے ہیں ۔کراچی کے کارکنوں کو اس کا حدف بھی مل گیا کہ 25دسمبر
کو کراچی میں امیر جماعت نے آئندہ کے لائحہ عمل دینے کا اعلان کیا ہے ۔اب
اس میں ہر کارکن کو سو افراد سے ذاتی رابطہ کرنا ہے ،عام لوگ چاہے وہ کسی
بھی جماعت سے وابستہ ہوں ہمیں سب تک اپنا پیغام پہنچانا ہے اور اس میں ہمیں
دین کی بنیادی دعوت میں متفقہ نکات پر بات کرنا ہو گا اس کے علاوہ اسلامی
پاکستان اور خوشحال پاکستان سے بھی کسی کوئی اعتراض نہیں ہو گا ۔ایک اجتماع
میں امیر جماعت اسلامی کراچی جناب حافظ نعیم الرحمن صاحب بتارہے تھے کراچی
سے بیس ہزار سے زائد افراد اجتماع عام میں شریک ہوئے تھے اور کم وبیش اتنے
ہی شریک نہ ہو سکے جو بیس ہزار شریک ہوئے تھے انھیں تو براہ راست امیر
جماعت سے حدف مل گیا اب وہ کم از کم دس افراد کو اپنے ساتھ لے کر اس جلسے
میں لے کر آئیں اور جو لوگ اجتماع عام میں نہیں جاسکے ان پر تو یہ ذمہ داری
دوگنی ہو جاتی ہے انھیں بھی کم از کم بیس لوگوں سے رابطہ کرنا ہے بس دعوتی
رابطے میں اس حکمت کا ضرو خیال رکھیں جو خود اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں
فرمایا ہے کہ تم ان کے بتوں کو برا نہ کہو ورنہ وہ تمہارے خدا کو برا کہیں
گے ۔ |
|