سقوط ڈھاکہ اورپھانسیوں کی سزائیں

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

16دسمبریوم سقوط ڈھاکہ

سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے کہ جس پر43برس گزرنے کے بعد آج بھی ہر درد دل رکھنے والا مسلمان اپنے سینے میں درد محسوس کرتا ہے۔ بھارت سرکار نے کس طرح منظم سازشوں ومنصوبہ بندی کے تحت نفرتوں کے بیج بوئے‘ مشرقی پاکستان کی یونیورسٹیوں میں ہندو اساتذہ تعینات کر کے نظریہ پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کی گئیں اور پھر تسلیم شدہ بین الاقوامی بارڈرکراس کر کے باقاعدہ فوج کشی کر کے مشرقی پاکستان کو الگ کر دیا ‘ یہ سب حقائق دنیا کے سامنے ہیں اور یہ باتیں ایک ایسی زندہ حقیقت ہیں کہ جن کا کسی صورت انکار نہیں کیاجاسکتا۔ بھارت نے پاکستان کے وجود کو شروع دن سے تسلیم نہیں کیا اس لئے ہندو بنئے کو جب یہ یقین ہو چکا تھا کہ پاکستان کے قیام کو روکنااب ممکن نہیں ہے تو اس نے انگریز کے ساتھ مل کر اسی وقت سے سازشوں کے بیج بونے شروع کر دیے تھے۔ سب سے پہلے کلکتہ، حیدرآباد دکن، احمد آباد گجرات، مناوادرجونا گڑھ اور دیگر مسلم اکثریتی علاقے جنہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا تھا انہیں زبردستی ہندوستان میں شامل کیا گیا اورپھر کشمیر جسے قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا29اکتوبر 1947ء کو وہاں فوج داخل کر کے قبضہ کر لیا اور پھر 6نومبر 47ء میں ہی جموں کے چھ اضلاع جو مسلم اکثریتی علاقے تھے وہاں ڈیڑھ لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کیا اور بھارت سے ہندوؤں کو لاکر آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اصل سازش کا آغاز یہیں سے ہوا تھا اس کے بعد انہی سازشوں کو آگے بڑھاتے ہوئے16دسمبر 1971ء کومشرقی پاکستان میں فوج داخل کر دی گئی۔یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا تھا بھارت کئی برسوں سے یہ کھیل کھیل رہا تھا۔جماعۃالدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید بتاتے ہیں کہ 1969ء میں ہم سرگودھا کالج میں پڑھتے تھے‘ ہم نے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مرکزی قائد پروفیسر غلام اعظم جنہیں پھانسی کی سزا سنائی گئی اور وہ جیل میں ہی وفات پاچکے ہیں‘ انہیں پاکستان آنے کی دعوت دی جس پر وہ سرگودھا تشریف لائے‘ ہم نے ان کا پرتپاک استقبال کیا اورپھر جب انہوں نے خطاب کیا توواضح طور پرکہاکہ میں مشرقی پاکستان کو اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ وہاں بھارتی سازشیں عروج پر ہیں۔ اگرچہ ہم ان کا بھرپور مقابلہ کر رہے ہیں لیکن میں یہ نصیحت کرتاہوں کہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہو آپ نے پاکستان کو بچا کر رکھنا ہے۔اسی طرح مطیع الرحمن نظامی و دیگر لیڈروں کا بھی یہی کہنا تھا کہ بھارت مشرقی پاکستان کو الگ کرنا چاہتا ہے لیکن افسوس کہ اس وقت کے حکمرانوں نے غاصب بھارت کی ان سازشوں کے توڑ کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا اورپھر پاکستان دولخت ہو کر رہ گیا۔ یہ ہماری غلطیاں ہیں جن سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے۔حافظ محمد سعید کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ بھارت کے کشمیر پرفوجی قبضہ کے بعدہندو بنئے کو اس کی فطرت کے مطابق جواب دیا جاتا تو سقوط ڈھاکہ کا سانحہ نہ ہوتا۔ پاکستان کے وجود کا دشمن انڈیا اب بھی وطن عزیز کے خلاف گھناؤنی سازشیں کر رہا ہے اور بلوچستان میں مشرقی پاکستان والی کیفیت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ جلال آباد، لوگر، کنٹر اور دیگر علاقوں میں بھارت نے قونصل خانے کھول رکھے ہیں جہاں سے دہشت گردوں کو تربیت دیکر بلوچستان اور پاکستان کے دوسرے حصوں میں داخل کیا جارہا ہے۔ بلوچستان میں خاص طورپر علیحدگی کی تحریکیں منظم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔امریکہ افغانستان میں اپنی شکست کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتا ہے اور انتقام لینے کیلئے بھارت کو ساتھ ملا کرچترال، گلگت بلتستان، دیوسائی کے میدان اور واخان کی پٹی پر اپنے اڈے بنانے کی سازشیں کر رہا ہے ۔ اس کی خواہش ہے کہ شاہراہ ریشم کاٹ کر پاکستان اور چین کے راستے منقطع کئے جائیں اور پاکستان پر دباؤ ڈال کر انڈیا کو افغانستان کے راستہ وسط ایشیا ء تک رسائی دلوائی جائے۔نریندر مودی حکومت کشمیر میں بی جے پی کو نام نہاد انتخابی ڈرامہ میں کامیابی دلوا کر کشمیر اسمبلی او رپھر لوک سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے بھارت کا حصہ دلانے اور واخان کی پٹی کے متنازعہ ہونے کی قرارداد لانے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کوبھارت سرکار کی ان سازشوں سے باخبر رہتے ہوئے ان کا توڑ کرنے کیلئے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے اور پاکستان کے اصولی و دوٹوک موقف پر کاربند رہتے ہوئے مظلوم کشمیریوں کی کھل کر مددوحمایت کرنی چاہیے۔ہمارا سارا پانی کشمیر سے آتا ہے۔حکومت اس مسئلہ پر بھارت سے مذاکرات ضرور کرے مگر یہ یوا ین کی وہ قراردادیں جنہیں بھارت نے خود تسلیم کیا تھا‘ کے مطابق ہونے چاہئیں اور اگر بھارت اس کیلئے تیار نہیں ہوتا تو پھر حکومت کو چاہیے کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہو جائے۔ جہاں تک بھارتی خواہشات کا تعلق ہے تو اس کے حوالہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں حالات بہت تبدیل ہو چکے ہیں۔ واخان کی پٹی پر اڈے بنا کر پاکستان اور چین کے باہمی رشتے ختم کرنے کی سازشیں کسی صورت کامیاب نہیں ہوں گی۔ بھارت ، امریکہ اور ان کے اتحادی نظریہ پاکستان کو لوگوں کے دلوں سے محوکرنا چاہتے ہیں لیکن بھارت میں مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنانے، بابری مسجد کی جگہ رام مندرکی تعمیر ،مساجدومدارس پر حملوں اوربنگلہ دیش میں بھی چالیس سال بعد اسلام و پاکستان سے محبت رکھنے والے قائدین کو پھانسیوں کی سزائیں سنانے سے پورے خطہ میں نظریہ پاکستان ایک بار پھر زندہ و بیدار ہو رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی کٹھ پتلی حکومت تمامتر بین الاقوامی قوانین کو پاؤں تلے روندتے ہوئے محض پاکستان کی محبت کے جرم میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے قائدین کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال رہی ہے اور انہیں پھانسیوں کی سزائیں سنائی جارہی ہیں۔ جن قائدین کوپھانسیاں دی جارہی ہیں ان کا جرم صرف یہ تھا کہ جب بھارت نے اگر تلہ سازش کے تحت مجیب الرحمن جیسے غداروں کو کھڑ اکیااور مشرقی پاکستان پر باقاعدہ فوج کشی کی تو ان بزرگوں نے دفاع پاکستان کیلئے پاک فوج کے ساتھ مل کر بھارتی فوج کا مقابلہ کیاتھا۔ آج بنگلہ دیش پر اسی مجیب الرحمن کی بیٹی کی حکومت ہے جو اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھارت کی ہمنوا بن کر انہیں پھانسیاں دلوارہی ہے۔یہ صرف جماعت اسلامی کا مسئلہ نہیں ہے۔ تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کو مل کر اس سلسلہ میں بھرپور آواز بلند کرنی چاہیے۔جماعۃالدعوۃ کی جانب سے احیائے نظریہ پاکستان کی جو ملک گیر مہم شروع کی گئی ہے وہ قابل تحسین اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔ پاکستان بھر میں ہر طبقہ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی اس مہم میں بھرپور دلچسپی دیکھنے میں آئی ہے۔ پوری قوم کو ملک گیر سطح پر جاری اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔حکومت پاکستان کی جانب سے اسے بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دیکر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لینا بھی کسی طور درست نہیں ہے۔ قوم سوال کرتی ہے کہ کیا اپنے ملک کی حمایت کرنااور ایسا کرنے پر پھانسیوں کی سزائیں سنانا درست ہے؟ جو اس ظلم و بربریت کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دیا جارہا ہے۔ یہ انتہائی تکلیف دہ امر ہے‘ حکومت پاکستان کو سلامتی کونسل سمیت اس مسئلہ پر ہر فورم پر آواز بلند کرنی چاہیے وگرنہ اس سے مایوسیاں پھیلیں گی ۔ہمیں پاکستان کے محسنوں کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے یہ زندہ قوموں کا شیوہ نہیں ہے۔نظریہ پاکستان زندہ ہے اور زندہ رہے گا کوئی اسے ختم نہیں کر سکتا۔ بنگلہ دیش ایک بار پھر پاکستان کا حصہ بن کر رہے گا۔
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 141409 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.