میکنزم
(Dr Fauzia Chohdury, Gujrat)
کسی بھی ملک کی سیاسی، معاشی،
معاشرتی اور انفرادی طاقت کا انحصار اِس کے اداروں کی مضبوطی اور اُس کردار
سے ہوتا ہے جو یہ ادارے اپنی ترقی اور خوشحالی کے لیے اداکرتے ہیں۔ یہ ایک
بنیادی اصول ہے کہ ادارے مضبوط ہوں گے تو ملک مضبوط ہو گا۔ ہمیں اپنی ساری
توجہ اداروں کی مضبوطی پر ہی مرتکز رکھنا چاہیے اداروں کی مضبوطی کا انحصار
اُس میکنزم پر ہوتا ہے جو اِن کے اپنے اندر موجود ہو جہاں تمام اکائیاں
اپنی اپنی جگہ پر مل کر کام کریں اور ادارے کو نہ صرف مضبوط کریں بلکہ
ادارہ ارتقائی منازل طے کرتا ہوا آگے بڑھے اور اُس میکنزم میں شامل ہو جائے
جو کہ ملک کو مضبوط کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ادارے فعال کردار
اداکریں گے ہی تو ملک مضبوط ہوگا۔
خارجہ پالیسی، اندرونی اور بیرونی سیکورٹی اور مضبوط معاشی نظام وہ اہم
ستون ہیں جس پر کسی بھی ملک کی مضبوط بنیادیں استوار ہو سکتی ہیں ۔ حکومتِ
وقت اپنے ایجنڈے کے مطابق خارجہ پالیسی، اندرونی اور بیرونی سیکورٹی اور
اپنی ترجیحات کے مطابق معاشی نظام کا جو ڈھانچہ تشکیل دیتی ہے ۔ادارے اس کے
مطابق فعال کردار ادا کرکے اُس میکنزم کو تقویت بخشنے کا باعث بنتے ہیں جس
پر ملکی ترقی منحصر ہے۔ وطنِ عزیز میں دیگر اداروں کی طرح افواجِ پاکستان
بھی ایک ادارہ ہے اور اِسی میکنزم کا حصہ لیکن سب سے فعال ،موئثر اور
مؤقر۔۔۔جس کی وجہ غالباََ یہ ہے کہ آرمی کے پاس بہترین تربیت یافتہ انٹیلی
جنس اور سیکورٹی کے ماہرین موجود ہوتے ہیں ۔ جو اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں
کے باعث ہر ہنگامی صورتِ حال پر قابو پانے اور اصلاحِ احوال کی صلاحیت
رکھتے ہیں۔ وطنِ عزیز میں ہم نے بارہا اپنے اِس ادارے کو آزمایا ہے۔ ملک
میں کوئی بھی مصیبت اور ابتلاء آتی ہے تو نظریں فوج کی طرف ہی اُٹھتی ہیں۔
کہیں زلزلہ آجائے، سیلاب آجائے، قحط پڑ جائے، بجلی چوری کا مسئلہ ہو یا
گھوسٹ سکولوں کو پکڑنے کا یا اندرونی و بیرونی سیکورٹی کا ہر جگہ فوج اپنا
غیر جانبدار انہ اور فعال کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ اِس کی وجہ
غالباََ یہ ہے کہ آرمی ہی وہ ادارہ ہے جو کہ وقت ماحول کے مطابق پروان چڑھ
رہا ہے اور صیحیح معنوں میں ذمہ دارانہ اور فعال کردار ادا کر رہاہے۔
ملکی تعمیر وترقی میں چونکہ آرمی کا براہِ راست عمل دخل ہے اِس لیے یہ
تائثر عام ہو گیا ہے کہ ہمارے ہاں صر ف آرمی ہی کی بات سُنی جاتی ہے اِس
لیے سب سے زیادہ کیچڑ بھی اِسی پر اُچھالا جاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے
ملکی معاملات باقاعدہ ایک نظام کے تحت چلتے ہیں۔ سینٹ اور قومی اسمبلی بھی
باقاعدہ بڑے ادارے ہیں جن کو منتخب پارلیمنٹ چلاتی ہے۔ بدلتے ہوئے حالات کا
ساتھ دینے اور دنیا کے ساتھ روابط رکھنے کے لیے خارجہ امور کی وزارت موجود
ہے۔ جس طرح دنیا کے دوسرے ملکوں کے ساتھ سیاسی روابط ہوتے ہیں اِسی طرح فوج
کے فوج کے ساتھ بھی روابط ہوتے ہیں لیکن یہ روابط فوج اپنی مرضی سے قائم
نہیں کرتی بلکہ یہ بھی وزارت خارجہ کے ماتحت ہی ہوتے ہیں اور وزارتِ خارجہ
ہی اِس کی منظوری دیتی ہے۔ وزارتِ دفاع پرپوزل بنا کر بھجواتی ہے اور پھر
باہمی دلچسپی کے امور پر یہ روابط قائم کیے جاتے ہیں۔یہ تعلقات باقاعدہ ایک
نظام کے تحت قائم ہوتے ہیں۔ مگر عوام میں یہ تائثر پایا جاتا ہے کہ شاید
فوج یہ سب کچھ اپنی مرضی سے اپنے مفاد کے لیے کرتی ہے۔
حال ہی میں طالبان کے خلاف ہونے والے سوات آپریشن’’ ضربِ عضب‘‘ ہی کی مثال
لے لیجئے۔ امریکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ پاکستانی فوج جنوبی
وزیرستان میں فوجی آپریشن کرے۔ مگر چونکہ یہ آپریشن اُس وقت ممکن نہ تھا جب
امریکہ دباؤ ڈال رہا تھا پاکستانی فوج اتنے سارے محاذ ایک ساتھ کھولنا نہیں
چاہتی تھی لہذا امریکی دباؤ کو قبول نہ کرتے ہوئے یہ آپریشن نہیں کیا گیا۔
طالبان کے خلاف جب یہ آپریشن ناگزیر ہو گیا تو پارلیمنٹ نے باقاعدہ اِس کی
اجازت دی تو یہ آپریشن کیا گیا۔ جِس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے اور
سیکورٹی کی صورتِ حال میں نوے فیصد تک بہتری آئی ہے۔ فوج نے یہ کام وسیع تر
ملکی مفاد کے پیشِ نظر پارلیمنٹ کی باقاعدہ منظوری کے بعد کیا ہے۔ جس سے یہ
بات واضح ہوجاتی ہے کہ فوج بھی باقی اداروں کی طرح حکومت کا ماتحت ادارہ ہے
اور اُس کی پالیسیوں کے مطابق ہی کام کرتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ملک میں
پھیلی بدامنی اور سیاسی ابتری سے دوسرے لوگوں کی طرح فوج بھی اثر پذیر ہوتی
ہے۔ اور فوج کو اِس بات کا ادراک ہے کہ سیاسی عدم استحکام سے ملک کمزور
ہوتے ہیں ۔ جنرل پرویزمشرف کے بعد سے جو بھی عسکری قیادت آئی ہے خواہ وہ
جنرل کیانی ہوں یا جنرل راحیل بارہا اِس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ سیاسی
مسائل کو سیاسی طریقے سے ہی حل کیا جائے۔ فوج اِس میں کسی طرح کی کوئی
مداخلت نہیں کرے گی۔ عمران خان کی دھرنا سیاست کے حوالے سے ملک بھر میں بڑی
چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں کہ اِن دھرنوں کو فوج کی آشیر باد حاصل ہے اور
ایجنسیاں اِن دھرنوں کو شہہ دے رہی ہیں۔ مگر حقیقت حال اِس کے برعکس ہے فوج
نے کورکمانڈر کانفرنس میں اِس بات کا برملا اعلان کیا ہے کہ یہ سیاسی مسئلہ
ہے اسے پارلیمنٹ ہی میں حل ہونا چاہیے اور مسئلے کے حل کے لیے کیے گئے کسی
بھی غیر پارلیمانی فیصلے کی فوج کبھی حمایت نہیں کرے گی اور فوج نے حمایت
نہیں کی۔
ہم سب نے دیکھا کہ طاہرالقادری اور عمران خان خود اپنی ہی اُڑائی ہوئی خاک
سے اٹ کر بے نیل وحرام دھرنے سے باز آگئے ہیں۔ اِس ساری صورتِ حال میں فوج
نے انتہائی دانشمندی، عقل اور دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے معاملے سے اپنا
دامن بچائے رکھا اور سیاسی معاملے کو سیاسی طور پر حل ہونے دیا۔ ورنہ کون
نہیں جانتا کہ سیاستدانوں کی آپس میں لڑائیاں ماضی کی طرح فوج کو سیاست میں
گھسیٹنے کی کتنی متمنی ہیں۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری سول سوسائٹی میں ابھی بھی ایسے عناصر موجود
ہیں جو ہر معاملے میں فوج کو گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب بس نہیں چلتا
تو اُلٹا فوج پر الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں کہ فوج کیا کر رہی ہے۔۔۔؟
حالات اتنے خراب ہیں۔ ۔فوج تماشا دیکھ رہی ہے۔ یہ صورتِ حال اب ختم ہونا
چاہیے جو جس کام کے لیے ہے اُسے وہی کام کرنا چاہیے۔ یقین مانئیے اپنے اپنے
حصے کا کام کرکے ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ادارے اِسی صورت مضبوط ہو سکتے
ہیں جب کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں۔ اب بہت ہو چکا ہے اب تو
ہمیں مثبت سوچ کی طرف واپس آنا چاہیے۔ یہ مثبت سوچ ہی ہے جو آگے کے راستے
متعین کرتی ہے ہمیں اپنی فوج پر مکمل بھروسہ کرنا ہے اور یہی بھروسہ اُن کی
طاقت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ دشمن تو طاق میں بیٹھا ہوا کسی کمزور لمحے
کا منتظر ہے۔ کیا ہم اپنے ہی ہاتھوں دشمن کو وہ موقع فراہم کر دیں گے۔۔۔؟
12دسمبر 2014ٗء |
|