ان معصوموں کا قصور کیا ہے؟

نا سر پر چادر نہ پیروں میں جوتی۔یہ وہی ماں ہے جس کا بچہ پشاورسانحہ میں ان سے الگ کردیا گیا۔موت کی آغوش نے جب اس کے بچے کے وجود کو اپنے اندر سمویا تو وہ مزاحمت بھی نا کرسکی۔وہ اس دنیا سے اس کی خوشیوں کے لڑتی رہی۔دن رات ایک کر کے اس کی تعلیم پر توجہ دی اور اب وہ چھٹی جماعت میں پہنچ چکا تھا۔ہاں اسے اپنے اس بیٹے سے بہت پیار تھا یہ بڑا جو تھا ۔پھر اس کے بعد بھی اس کے دو بیٹے
اور بھی تھے جس سے وہ پیار کے ساتھ ساتھ ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتی رہتی تھی۔اور سارا دن گھر میں انہیں کی شرارتوں کے ساتھ گزر جاتا ۔لیکن آج کوئی نہیں تھا۔کہیں نہیں تھا۔کل ہی تو تین جنازے اس کے گھر سے اٹھائے گئے تھے۔ہاں اس کے تینوں بیٹے مر چکے تھے۔لوگوں نے یہ کہہ کر بہت تسلی دی کے وہ شہید ہوئے ہیں تم غم نا کروں ۔لیکن صبر کیسے آتا۔کیسے آئے ؟کیسے وہ خود کو روکے۔وہ بار بار گھر سے باردوڑ نکلتی اور اسی جگہ پہنچ جاتی جہاں سے اس نے اپنے بچوں کے مردو وجود کی شناخت کی تھی۔پشاور کا وہ ہسپتال اب بھی زخمی بچوں سے بھرا ہوا تھا۔ایک کونے میں بیٹھی وہ آتے جاتے بچوں کو دیکھ رہی تھی۔کہ شاید اس کے بچے ابدی نیند نہ سوئے ہوں کوئی غلط فہمی ہوگئی ہو۔اور یہ سب فقط ایک ڈراونا خواب ہو جس میں کوئی حقیقت ہی نہ ہو۔۔۔۔

لیکن ایسانہ تھا۔ اب تک کتنے ہی بچے موت کے منہ میں جا چکے تھے اور کتنے ہی زخمی تھے ۔ہاں یہ وہی پشاور کا سانحہ ہے کہ جس نے پوری قوم کے خون کے آنسو رولا دیا۔

اور کتنے امتحان ہم سے ہمارے پاکستانی ہونے کی پاداش میں لیے جاتے رہے گے۔جن ماؤں کے کلیجے آج پھٹ گئے ہیں، وہ غم نہ کریں، ان کے بچوں نے قربانی دی ہے اور ان کی شہادت نے ایک نیا باب رقم کیا ہے۔ یہ مذہب کے نام پر تماشا لگانے والوں کی ہار ہے۔ وہ ہار چکے ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ ایک معصوم کا قتل اﷲ کے نزدیک پوری انسانیت کا قتل ہے تو میرے رب کی عدالت میں ایک بچے کا قتل کتنا بڑا جرم ہوگا۔ یہ سوال بھی ذہن میں ابھر رہا ہے کہ خاص طور پر بچوں کو نشانہ بنانے کے پیچھے ان بھیڑیوں کا کیا مقصد ہوسکتا ہے۔

میں برملا کہتی ہوں کہ پشاور سانحہ پر دہشت گرد اپنی فتح کی خوشی نہ منائیں، کیوں کہ ا ب وہ ہار گئے ہیں۔ اس ملک کے وہ معصوم عوام جو مذہب کے نام پران کے پیروکار بنے بیٹھے تھے اورانھیں حق پر سمجھتے تھے، آج اَنھیں دہشت گردوں کی حقیقت کا اندازہ ہوگیا ہے۔ یہ لوگ مذہب کے نام پر شیطانیت کا روپ دھارے ہمارے بچوں کو کسی بھیڑیے کی مانند دبوچ کر بیٹھے ہیں۔

دہشت گردو!خدا کے لیے درندے مت بنو ہمارے بچوں کو بخش دو۔ ان معصوموں کا کیا قصور ہے۔ کس اسلام اور کس مذہب کی بات کرتے ہو۔یہ اسلام نہیں ہے، یہ مسلمان نہیں ہیں۔ یہ میرا دین نہیں تم لوگ کس کی کٹ پتلی بن کر یہ سب کر رہے ہو۔ خدارا! ہمارے بچوں کو بخش دو۔ یہ وہی بچے ہیں جن سے نبیﷺ نے سب سے زیادہ محبت کی، یہ وہی بچے ہیں جو فرشتوں کی طرح معصوم ہوتے ہیں۔ اسلام کا نام لینے والو! کبھی سوچا ہے ایک لمحے کے لیے بھی کہ جس دین کی تم پیروی کرتے ہو جس کا ماننے والا ہونے کے تم دعوے دار ہو۔ کیا اس دین نے اس طرح سے فتح حاصل کی؟

یہ ہماری حکومت کی مکمل ناکامی ہے، جو وہ اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کر رہی کہ یہ دہشت گر د ہمارے ہر شہر ہر قصبے میں موجود ہیں۔ یہ خاموش قاتل اب ہماری نسلوں کو قتل کرنے کا منصوبہ لیے ہمارے گھروں تک آچکے ہیں۔ٹی وی اسکرین جو منظر دکھا رہی ہے اسے میں قیامت کہوں یا اس سے بڑھ کر کچھ کہا جائے۔

اسلام کا نام لینے والے یہ نام نہاد مسلمان کیا اتنا بھی نہیں جانتے کہ میرا مذہب تو وہ دین برحق ہے کے جس میں جنگ کہ دوران عورتوں اور بچوں کے اوپر ہتھیار اٹھانے کی ممانعت کی گئی ہے۔ جن لوگوں نے یہ کیا ہے ان کا کوئی دین نہیں، کوئی مذہب نہیں، یہ میرا دین نہیں ہوسکتا۔

یہ کام کرنے والے جانور ہیں، بل کہ جانور سے بھی بدتر کہ جنھیں بوکھلاہٹ میں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں۔

حکومت اب مرنے والے بچوں کے والدین کو معاوضہ دے کر اپنا ’’اولین فرض‘‘ پورا کرے گی۔ کیا کسی کی جان کی قیمت کاغذ کے کچھ ٹکڑے ہوسکتے ہیں۔ نجانے ایک گھر کے کتنے چراغ بجھ گئے۔ کتنی ماؤں کی گود اجڑگئی۔ انھوں نے کتنے ارمانوں سے اپنے بچوں کو صبح اسکول تیار کرکے بھیجا ہوگا۔ کتنے معصوم چہرے ہیں جو میرے نظروں کے سامنے سے گزر رہے ہیں، جیسے میں خود اپنے بچوں کو بڑے پیار پڑے ارمان کے ساتھ اسکول سے بھیجتی ہوں۔ کیا میں اس بات کا تصور بھی کرسکتی ہوں کہ اسکول سے واپسی پر جس مسکراتے چہرے کا میں انتظار کر رہی ہوں اس کی خون میں لت پت گولیوں سے چھلنی لاش میرے سامنے رکھ دی جائے یا میں بہت سارے بچوں کی لاشوں میں سے اپنے جگر کے ٹکڑے کو ڈھونڈوں کہ کہاں گئی وہ معصوم آواز جو مجھے ماں کہہ کر پکارتی تھی۔ یہ تحریر لکھتے ہوئے میری آنکھیں اشک بار ہیں۔

میری قوم کے بچوں کو شہید نہیں کیا گیا بلکہ میری پوری قوم کوختم کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ ہر شخص رو رہا ہے۔ اب کہاں ہیں حکومت کے دعوے، کہاں ہیں وہ لوگ جو غیرملکی دوروں پر زیادہ اور اپنے ملک کے مسائل پر کم توجہ دیتے ہیں۔ اب حکومت عوام کو نہ روک سکے گی۔ غم وغصہ ہر گھر میں ہے۔ ہر گھر شدید دباؤ میں ہے اور حکومت سے سوال ہے کہ کہاں ہیں اس کو چلانے والے یا کوئی حکومت ہے ہی نہیں یہاں۔۔۔۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311912 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.