سونار بنگلہ غلام گردش میں

بھارت کے محاصرے جکڑے بنگلہ دیش کی مثال بتیسی میں گھری زبان کی مانند ہے ۔یہ تین اطراف سے خشکی کے ذریعہ اورایک طرف سے خلیج بنگال کے راستے وسائل اور خاص قسم کا اعتماد و حوصلہ بھارتی ریاستی اداروں کو بخشا ہے اور علاقے میں عالمی کھلاڑیوں بلکہ یوں کہا جائے کہ غاصبوں کے گٹھ جوڑ کے بعد ابھرتے ہوئے بھارتی سامراج کو شہہ بھی ملی ہے تو غلط نہ ہوگا جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش و پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک میں بھارتی لابیز اور اثرات میں تیز رفتار اضافہ ہوا۔ بنگلہ دیش اس بھارتی سرمایہ کاری کے نتیجے میں کم از کم فی الحال پوری طرح سے بھارتی اثرورسوخ و ترجیحات کے تابع ہوچکا ہے اور معلوم نہیں کہ اس طرح کی تابعداری کتنے برسوں پر محیط ہے ۔

مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کے مقام تک پہنچانے میں مغربی پاکستان کے بعض وہ عناصر ہیں جنہیں اسلامی پاکستان سے کل بھی بغض تھا اور آج بھی ہے اور وہ اس خیال سے چڑتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ قلم و زبان سے زہر بھی اگلتے ہیں ۔ بنیادی طور پر یہ اسی نقطہ نظر سے تعلق رکھتے ہیں جو بھارتی سامراج کا موقف رہا ہے یعنی جو عوامی لیگ کے باغیوں کو مطلوب اور ان کیلئے مفید مطلب ہیں ۔ گویا پاکستان کے پہلے عام انتخابات جو 1970ء میں ہوئے ، ان میں شیخ مجیب الرحمان کی اکثریت تسلیم نہ کرکے ایک ملک میں دو دو وزرائے اعظم تجویز کرنے اور ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ لگانے والا یہ مکتبہ فکر اپنی تمام تر کم ظرفی ، بد باطنی اور ملک دشمنی کا داغ اپنے تئیں چھپانے کی کوشش کرتا تھا لیکن المیہ یہ ہے کہ کچھ با اختیار محبان پاکستان بھی تھے جو مغربی پاکستان کے نصف حصے میں الیکشن جیتنے والی پارٹی کے دباؤ میں اکثریتی پارٹی کو کچلنے کیلئے اس قدر آگے بڑھے کہ ملک ہی لہو لہان اور یتیم جان ہوگیا۔ ان محبان وطن نے مشرقی پاکستان کی سرزمین پر وافائے عہد کی را ہ میں بہنے والے لہو کو فراموش کردیا اور جو لوگ زندہ بچ گئے ان سے قطع تعلق کرلیا۔تاریخ پاکستان کا وہ باب جب ارض مشرق کے لوگوں کے رخساروں پر تھپڑ پڑ رہے تھے ملی تاریخ کا اہم لیکن تلخ حصہ ہے جو مغربی پاکستان میں قومی ہیروز کی حیثیت رکھتے ہیں ، جس سے کچھ ہونا یا نہ ہونا مقصود نہیں البتہ اگلی نسلوں کو ایک مثبت پیغام ضرور پہنچ رہا تھا کہ جو لوگ پاکستان سے عہد نبھارہے تھے وہ لاوارث نہیں ہیں ، ان کی جان اسلام کی خاطر اور پاکستان سے اظہار محبت کیلئے قربان ہوگی ، وہ ذات گمراہی کیلئے نہیں بلکہ ایک روشن ستارے کی مانند قابل تقلید ہے ۔

16 دسمبر 1971ء کو جو ہوا اس کے بارے میں اس وقت کے تمام نوجوانوں کے خیالات یکساں نہیں تھے ۔ اکثریت کا خیال تھاکہ ہم اس جنگ میں اپنی اصل آزادی سے محروم ہوگئے ہیں کیونکہ چاروں طرف بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں پاکستانی فوج کی جانب ہتھیار ڈالنے سے بھی بنگلہ دیش کو آزادی نہیں ملی جبکہ ہم نے اپنے قومی وجود کو غلامی کے گھڑے میں دھکیل دیا ہے ۔ نئے جنم لینے والے بنگلہ دیش کیلئے شیخ مجیب الرحمان بابائے قوم بن گئے ،جب انہیں راولپنڈی جیل سے 9 جنوری 1972ء کو رہا کیا گیا تو وہ اگلے ہی دن لندن سے ہوتے ہوئے ڈھاکا پہنچے ۔ رائل فورس کا طیارہ جب انہیں ڈاھاکا کے تیج گاؤں میں کے ائر پورٹ پر اترا تو ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا جبکہ ذرائع ابلاگ کاخیال تھا شاید ان کے استقبال کیلئے چند ہزار کؤلوگ ہوں گے لیکن رھنا کورس گراؤنڈ میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ انہیں سننے کیلئے بے تاب تھے، ان کی آوازیں ان کے جذبات کا پتہ دے رہی تھیں اور مشکل حالات کو شکست دے کر فتح پانے کی خوشی ہر شے سے جھلک رہی تھی۔ مجیب الرحمان کی تقریر سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ وہ مخالفین کو سبق سکھانے کیلئے کس قدر نے تاب تھے۔ انہوں ے مکتی باہنی کے چھاپہ ماروں سے ہتھیار پھیکنے کی اپیل تو کی لیکن اس یقین دھانی کے ساتھ کہ دشمنوں کا صفایا کرنے کی ذمہ داری اب باضابطہ طورپر فورسز کے حوالے کردی جائے گی، جس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ وہ جنہیں ملک و قوم کا دشمن سمجھتے ہیں انہیں کسی بھی صورت معافی نہیں دی جائے گی اور نہ ہی قومی سطح پر مصالحت اور مفاہمت کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جائے گا۔ تقریر میں شیخ مجیب نے پاکستان میں اپنے خلاف مقدمے کے حوالہ دے کر یہ اشارہ بھی دیدیا تھا کہ عوامی لیگ اور خود ان کیخلاف جانے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا ،کم ہی لوگ بچ پائیں گے اور بعد کے حالات نے ثابت کردیا کہ واقعی کم لوگ ہی بچ پائے ۔ ہزاروں افراد کو گرفتار کرکے ان پر جنگ آزادی کی راہ میں روڑے کے بے بنیاد الزامات عائد کئے گئے اور جنوری 1972ء میں نافذ کئے جانے والے لیبور یٹر آڈر کے تحت پولیس کو کسی کو بغیر الزام کے کرنے کا اختیار مل گیا۔ ان دنوں کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کیلئے بس اتنا ہی کافی تھا کہ اس کے بارے میں پروپیگنڈہ کردیا جائے کہ وہ آزادی کے مخالف اور پاک فوج کے حامی ہے ۔ سزائیں گوری دی جارہی تھیں جبکہ بہت سو ں کو گرفتاری کے فوری بعد کوئی مقدمہ چلائے بغیر ہی راتوں رات موت کی گھات چڑھایا گیا اور کئی ایسے بھی تھے کہ جنہیں مشتعل ہجوم نے مارڈالا ۔

شیخ مجیب الرحمان نے عوام کو ًسونار بنگلہ ً کی تعمیر و ترقی کے کاموں میں مصروف ہوجانے کی ہدایت کی ۔ یہ بطاہر انتباہ تھاکہ مزید خون خرابہ ملک کے مفاد میں نہیں لیکن جب بھی انہوں ے اپنے مقدمہ کا ذکر کیا تو واضح اور دو ٹوک الفاظ میں جتلا دیا گیا کہ جن لوگوں نے عوامی لیگ کی مخالفت کی وہ الگ طبقہ تصور کئے جائیں گے جبکہ بعد کی قانون سازی ، گرفتاریوں اور مخالفین کے قتل عام نے یہ ثابت کردیاکہ وہ کیا چاہتے تھے۔

1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران مشرق پاکستان میں یہ تاثر قائم کیا گیا تھاکہ پاکستان جن مقاصد کیلئے وجود میں آیا تھا وہ حاصل نہیں ہوسکے جبکہ استدلال یہ تھا کہ بنگالیوں کو قوم پرستی اور علیحٰدگیکی جانب مائل کیاجارہا ہے ۔ مغربی پاکستان کے قائدین بالخصوص ایوب خان اور ان کے رفقاء کار نے بنگالیوں کاپاکستانیوں کے ساتھ مل کر رہنا ناممکن بنادیا ہے لہٰذا ان کے پاس واحد راستہ یہ بچا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان سے علیٰحدگی کیلئے کام کریں اور ایک الگ ریاست تشکیل دیں ، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ برطانوی راج کے دوران 200برسوں میں متحدہ ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات اورتلخی کے علاج کیلئے پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

بنگلہ دیش کو بنے43برس گزر گئے ہیں ، اس نے کسی حد تک معاشی ترقی بھی کی ہے لیکن وہ بھارت کی مرہون منت ہے اس میں بنگلہ حکومت یا وہاں کی سیاسی جماعتوں کا کوئی کردار ہے بلکہ اس ترقی کے پیچھے درحقیقت وہ عوامل ہے جو بھارتی اجارہ داری کے ساتھ ساتھ پاکستان کو خطے میں کمزور کرنا ہے ۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد سے تاحال کئی بنگالی وطن عزیز میں پاکستان سے محبت اور روزگار کیلئے مقیم ہیں جنہیں بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے جس سے وہ مطمئن ہیں اس کے برعکس بھارت میں مقیم بنگالیوں کو وہاں موجود دیگر مسلمانوں کی طرح پرتشدد حالات سے نبزد آزما ہیں اور اپنی جان و مال سمیت مذہبی آزادی سے محروم ہیں جبکہ بنگلہ دیش میں پاکستان سے اظہار محبت کے نتیجے میں کئی لوگ اب بھی موت کی گھات اترے جارہے ہیں ۔بھارت میں مجموعی طور پر مسلمانوں کو عدم تحفظ خدشہ ہے ۔ قیام پاکستان سے اب تک مسلمان کسی نہ کسی طرح مشکلات سے ودچارہیں ۔ بابری مسجد کا سانحہ ہو یا گجرات سمیت مختلف مسلم علاقوں میں ہندوؤں کی انتہا پسندی عروج ہے ، یعنی بھارت میں کوئی بھی مسلمان اپنے عقیدے سمیت ہر معاملے میں مسائل کا شکار ہیں ۔ حال ہی میں بھارت کے شہر آگرہ میں کئی بنگالیوں کو بزور طاقت مذہب بدلنے کا واقعہ پیش آیا ہے جس میں انہیں راشن کارڈ ، بی پی ایل کارڈ و دیگر سہولیات دینے پر کچھ ہندوؤں نے انہیں تقریب میں بلاکر ہندو رسم کے مطابق ان کے ماتھے پر تلک لگائی اور آگ میں گھی ڈالواکر ہندو قرار دیدیا ، گوکہ ان بنگالیوں کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ وہ مسلمان ہی ہیں لیکن ہندو انتہا پسند انہیں ہندو ہی گرانتے ہیں ۔

اس تمام تر صورتحال میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت کو بنگلہ دیش یا اس کے عوام سے کوئی محبت نہیں بلکہ وہ خطے میں اپنی اجارہ داری کے قیام کی راہ ہموار کررہا ہے ۔ لہٰذا بنگالیوں کو یہ ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ وہ جس سونار بنگلہ کا خواب دیکھ رہے ہیں وہ خواب سے زیادہ کسی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ گویا بنگالیوں نے پاکستان سے علیحدگی اختیار کرکے نہ صرف اپنی آزادی کو داؤ پر لگادیا بلکہ اپنی آئندہ کی نسلوں کو غلام گرد ش میں مبتلا کردیا ہے ۔
Mujahid Shah
About the Author: Mujahid Shah Read More Articles by Mujahid Shah: 60 Articles with 49151 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.