بنگلہ دیش ،قیام پاکستان سے پہلے بن گیا تھا ؟

مسلم دنیا کی تاریخ کے حوالے سے تین بڑے سانحات بڑے المیے کے طور پر یاد کئے جاتے ہیں ، جن میں سقوط بغداد، سقوط ِ دلی اور سقوط ِ ڈھاکہ ۔سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے بڑی وجوہات لکھی جا چکی ہیں جن میں کچھ یہ وجوہ بھی بتائی جاتی ہیں جس میں سقوط بغداد اور سقوط دلی داخلی کمزوری کا نتیجہ نہیں تھے لیکن سقوط ڈھاکہ میں مقامی آبادی دشمن کیساتھ کھڑی ہوگئی یا ایسے ایسا کرنے پر مجبور کردیا گیا ۔دوسری بڑی وجہ ، سقوط ڈھاکہ میں مسلم فوجوں نے سرحدی مجبوریوں کے سبب کمک نہ ملنے کے باعث تقریبا لڑے بغیرہتھیار ڈال دئیے کیونکہ ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ تھا اور یہ تصور عام کیا گیا تھا کہ مغربی پاکستان ، مشرقی پاکستان کا دفاع کرے گا۔ تیسری وجہ میں ہمارے نوے ہزار فوجی گرفتار ہوئے اور انہوں نے دشمن کی قید میں طویل مدت گذارے ، ا س کے باوجود پاکستان کا مغربی بازو پاکستان کے نام دنیا کے نقشے پر موجود رہا۔یہ بھی بڑی اہم وجہ ہے کہ مملکتوں کے توڑنے کا سبب عموما اقلیتیں بنتی ہیں اور اکثریت کی نا انصافی کی شکایایات کرتی نظر آتی ہیں لیکن یہاں مشرقی پاکستان اقلیت میں تھا اور مغربی پاکستان اکثریت میں ۔پاکستان بنانے والی بنگالی نسل مسلم قوم نے 1906ء میں ڈھاکہ کی سرزمین پر مسلم لیگ لاہور کی بنیاد ڈالی اور اس کے بانیوں میں اکثریت بنگالی قائدین کی تھی۔مشرقی پاکستان کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 54فیصد تھی ۔ حسین شہید سہرودی کی عزیزہ شائستہ اکرام اﷲ نے اپنی کتاب ـ’ پرے سے پارلیمنٹ تک‘ میں شکایت کی کہ حسین شہید سہرودی نے مساوات کے اصول کے حق میں مہم چلا کر اپنے سیاسی کیر ئیر کو داؤ پر لگا یا لیکن مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے کبھی ان کی اس خدمت کا اعتراف کرنا تک پسند نہیں کیا۔"

11 اپریل 1947ء رئیر ایڈ مرل و سکاونٹ ماؤنٹ بیٹن کے نام گورنر بنگال سر ، ایف بروز نے ایک مراسلہ لکھا جس میں انھوں نے لکھا کہ ہندو سبھا نے جو کانفرنس تارا کیسوار (ضلع ہگلی) میں ایسٹر کی چھٹیوں کے دوران منعقد کی تھی اس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔اس میں ایک قرار داد کے ذریعے ڈاکٹر سیاما پرشاد مکر جی کو اختیار دیا گیا کہ وہ ایک ایکشن کونسل تشکیل دیں جو بنگال کے ہندؤں کیلئے الگ مملکت قائم کرنے کی کوشش کرے۔ جون کے آخر تک ایک لاکھ رضا کار بھرتی کئے جائیں".یہ قیام پاکستان سے پہلے کا ذکر ہے جب پاکستان کے قیام کیلئے مسلم لیگ اور مسلمان کوشش کر رہے تھے تو دوسری جانب کانگریس کے عزائم بڑے بھیانک سامنے آ رہے تھے۔یہاں ایک اور تاریخی سازش کا ذکر ضروری ہو جاتا ہے "

15اپریل1947ء صبح ساڑھے دس بجے ایک میٹنگ وائسرے ہند کی سربراہی میں ہوئی جس میں رئیر ایڈمرل و سکاؤنٹ بیٹن آف برما، سر جے ۔ کول ویل ، لیفٹنٹ جنرل سراے ۔ نائے ۔ سراے ۔ ویلی،’ سر ای ۔ جنیکر ، سر ایچ ۔ڈو، ’ سر ایف کلو ’ ،سر یسف ۔موڈی ’ سر او ۔ کیرو ’، سر سی۔ تریونڈی ، سر اے حیدری ، مسڑٹائی سن (سر۔ایس بورو نمائندے ) ،لارڈ اسمے، ’ سر ای۔ میویل ، سر۔سی۔کرو فیلڈ ، مسٹر ایبل ، مسٹر کرسنائی ، کیپٹن بروک مین ’ مسٹر کیمبل جانسن ، لیفٹنٹ کرنل ایرسکن کروم موجود تھے۔مسٹر ٹائی کے مطابق جب کابینہ مشن پہلی بار منظر عام پر آیا تھا تو یہ درست تھا کہ اس وقت بنگال کی تمام جماعتوں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ بنگال تقیسم نہیں کیا جائے گا "

20 فروری کو حکومت برطانیہ کا فرمان چیف منسٹر کو دکھایا گیا تھا کہ حکموت کو بنگال ورثے میں مل جائے گا اور آزاد بنگال کیلئے منصوبہ بندی کی جائے گی۔ہندوؤں نے اس بیس فروری کے اعلان سے یہ خطرہ محسوس کرلیا تھا کہ بنگال مسلم لیگ کی حکومت کو دے دیا جائے گا۔پنجاب کے برعکس بنگال میں دو فرقے تھے 33ملین مسلمان اور 25ملین ہندو جس میں 9ملین شیڈول کاسٹ ہندو تھے جو مسلم لیگ کے ساتھ تھے۔مغربی بنگال کو ایک آزاد مملکت بنانے کی تجویز ٹائی سن کی جانب سے دی جا ری تھی کہ بشرطیکہ اس میں کلکتہ کو شامل کرلیا جائے ، کیونکہ تمام کلیدی صنعتیں مغربی بنگال میں واقع ہیں ، مشرقی پاکستان میں جیوٹ کاشت کی جاتی ہے اس کی گانٹھیں باندھی جاتی ہیں لیکن اس سے مصنوعات اس علاقہ میں تیار نہیں کیں جاتیں ، شمالی بنگال میں چائے کی کاشت ہوتی ہے اور اس کو تیار کیا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں چائے بہت ہی کم پائی جاتی ہے ، مشرقی بنگال تنہا کبھی نہیں چلا اور نہ ہی چل سکتا ہے وہ اپنی خوراک کی ضرورت بھی پوری نہیں کرسکتا اور اس قابل کبھی نہیں ہوگا خواہ خوردنی اجناس کاشت کرنے کیلئے پٹ سن کی کاشت روک دی جائے گی"سر فیڈرک بروز کے الفاظ میں "یہ زرعی گندگاہ"ہوگا مسلمان اور ہند سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں ، پس پردہ محسوس کرتے ہیں کہ بنگال کو تقسیم کرنیکا واویلا کا مقصد پاکستان کو "تارپیڈو"کرنا ہے ان کی سمجھ میں یہ کسی طرح بھی نہیں آتا کہ وہ کس طرح مشرقی بنگال کو قابل عمل فارمولا اور نفع بخش سودا ہے۔"15اپریل1947ء میں گورنروں کی کانفرنس میں ماونٹ بیٹن آف برما کو بتایا گیاکہ کلکتہ میں بارہ سو پولیس کے سپاہی ہیں جن میں زیادہ تر کورگھے ہیں۔میدانی علاقوں میں بھرتی نہیں کی جاتی آئی جی نے پولیس کی نفری میں اضافے کیلئے کہا تو اُس وقت کے چیف منسٹر مسٹر سہروردی نے اصرار کیا کہ یہ سب مسلمان ہونے چاہے ان کی تربیت کے پیش نظر سابقا فوجی ہوں۔لیکن اس کیلئے ان کو موزوں نظر نہیں آیا تو انھوں نے پنجاب سے چھ سو سابقا فوجیوں کو پولیس میں بھرتی کیا اور ان سے اچھا سلوک کیا جس کے سبب گورکھوں نے انہیں سہروردی کی پرائیوٹ فوج کہنا شروع کردیا تھا۔ان ہی برطانوی گورنرز کی میٹنگ میں یہ بھی کوشش کی گئی کہ آزاد بنگال کو بنانے کی کوشش کی جائے ، شمالی مغربی صوبہ سرحد قطع نظر لوگوں کے جذبات کو کے برعکس بھی مسلم لیگ نے صوبے کے بہت زیادہ اخراجات کے باوجود یسے قبول کیا۔صوبہ سرحد کی آبادی ساڑھے تین ملین تھی جس میں ڈھائی ملیں قبائلی باشندے بھی شامل تھے۔سندھ کی کل آبادی چار ملیں ن اور پنجاب کے تقسیم شدہ حصے کی آبادی کو پندرہ ملین ظاہر کیا جاتا تھا اس طرح پاکستان کی کل آبادی 24ملین شمار کی جا رہی تھی لیکن اس آبادی میں بنگال اور آسام کی آبادی کو شامل نہیں کیا جارہا تھا پاکستان مربوط تشخص کے ساتھ قائم کیا جاتا تو اقتصادی طور پر خوکفیل ہوتا اور ہندوستان کبھی پاکستان کے ساتھ چھیڑ خانی کا تصور بھی نہیں کرتا۔لارڈ اسمے کا ماننا تھا کہ" مسٹر جناح کا مقصد ایسا پاکستان حاصل کرنا ہے جس میں سندھ ، پورا پاکستان ، صوبہ سرحد ،آسام اور پورا بنگال شامل ہو"۔

اس کالم میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ہونے والی چپقلشوں کا ذکر اس لئے نہیں کیا کیونکہ تاریخ کے اُس پہلو کو سامنے لانا مقصود تھا کہ بنگال کو شروع دن سے ہی پاکستان سے الگ کرنے کی سازش تیار کرلی تھی ۔ بنگلہ دیش بننے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ انگریز اور کانگریس کی مکارانہ چال تھی جو انھوں نے مل کر رچی اور پاکستان کو ایک ایسا خطہ دیا جو اقتصادی لحاظ سے کمزور تھا تاکہ نئی ریاست جلد از جلد معاشی مشکلات کا شکار ہوجائے اور ان میں احساس محرومی کو اتنا وثق کیا جائے کہ بظاہر یہی نظر آئے کہ مغربی پاکستان ، مشرقی پاکستان کے ساتھ نا انصافی کر رہا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل انگریز حکومت کی سازشوں اور کانگریس کی چالوں کا ذکر کرنے یہی مقصد ہے کہ بنگلہ دیش کی پلاننگ قیام پاکستان بنانے سے قبل ہی کی جاچکی تھی اور معاشی حالات جو انھیں ورثے میں ملے تھے اس کا واویلا بھارت ، انگلستان گٹھ جوڑ سے کرنے کے بجائے پاکستان کی جانب اس طرح موڑ دیا گیا کہ ہم تاریخ کی سیاہ ترین سازش سے ہمیشہ لاعلم رہیں۔ بنگلہ دیش تیس لاکھ ہلاکتوں کا پروپیگنڈا کرتے نہیں کرتی ، اس موضوع پر کالم آچکا ہے یہاں صرف ایک خبر کا ذکر کروں گا ․بنگلہ دیش میں 1971ء کی جنگ کے دوران ہلاکتوں پر سوال اٹھانا برطانوی صھافی ڈیوڈ برگ مین کو مہنگا پڑ گیا اور بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے بری صھافی کو توہین عدالت کا مجرم قرار دیکر دزا سنادی ، عالمی انعام یافتہ ڈیوڈ برگ کو سماعت ختم ہونے تک عدالت میں کھڑے رہنے کی علامتی سزا دی اور 65ڈالر ( پانچ ہزار ٹکا) جرمانہ یا عدم ادائیگی پر ایک ہفتہ کی قید کی سزا دی ۔ برطانوی صحافی نے 1971ء میں جنگ میں ہلاکتوں کی سرکاری تعداد پر اپنے ایک بلاگ میں سوال اٹھایا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 30لاکھ افراد مارے گئے تھے جبکہ برگ مین کا کہنا تھا کہ اس دعوے کی حمایت میں کوئی شواہد نہیں ہیں۔اس کے علاوہ بنگلہ حکومت پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو جس طرح طویل سزائیں اور پھانسیاں دے رہی ہیں وہ خود ایک قابل مذمت اقدام ہے۔ماضی چھپ نہیں سکتا یہ بنگلہ دیش کا ماضی تھا اورہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744838 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.