ایک سانحہ ابھی ذہنوں سے محو
نہیں ہوتاکہ دوسرا سانحہ رونما ہو جاتا ہے ۔ابھی واہگہ کی چیک پوسٹ پر حملے
کے زخم نہیں بھرے تھے کہ انسانیت کے نام پر دھبہ نام نہادطالبان نے ( جنہیں
صرف درندہ ہی کیا جائے تو بہتر ہوگا ) پشاور میں ایک آرمی سکول پر اتنی بے
دردی سے فائرنگ کرکے 124 معصوم اور بے گناہ بچے شہید کردیئے ۔ سانحے کے
دوسرے دن اخبارات میں یہ خبر بھی پڑھنے کو ملی کہ انٹیلی جنس ایجنسی کی
جانب سے اس حملے کی دو ماہ پہلے اطلاع دے دی گئی تھی ۔ پہلی بات تو یہ ہے
کہ جس ایجنسی نے دہشت گردوں کے اس حملے کی اطلاع دی تھی اس نے ان دہشت
گردوں کو اپنی کمین گاہوں سے نکلنے سے پہلے ہی کیوں نہیں روکا اور صفحہ
ہستی سے کیوں نہیں مٹایا ۔کیا اس ایجنسی کی ذمہ داری صرف اطلاع دینا ہی تھا
کہ سانحے ہوجائے تو ہم پوائنٹ سکور کرکے یہ کہہ سکیں کہ ہم نے پہلے ہی یہ
اطلاع کردی تھی ۔ اب تک سانحات اتنی بڑی تعداد میں ہوچکے ہیں کہ گنزبک آف
ریکارڈ میں پاکستان کے سانحات کا ذکر ہونا چاہیئے ۔ہر سانحہ پچھلے سانحے سے
زیادہ سنگین ٗ تکلیف دہ اور پریشان کن ہوتاہے لیکن حکمران اور سیاست دان
خود تو سیکورٹی حصارمیں محفوظ رہتے ہیں لیکن عوام خون میں ہر روز نہاتے ہیں
لیکن وہ اخباری بیانات دے کر ماضی کی طرح پھر خاموش ہوجاتے ہیں تکلیف تو
انہیں اٹھانی پڑتی ہے جن کے ماں باپ بہن بھائی اور لخت جگر سانحات کی نذر
ہوتے ہیں ۔جبکہ پولیس آفیسر سمیت تمام انتظامی افسر بھی اپنے اپنے حفاظتی
قافلوں کے ساتھ گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر آتے جاتے ہیں ۔اس کے برعکس
سکول کالجز یونیورسٹیاں ٗ بنک ٗ کاروباری ادارے ٗ مارکیٹیں ٗ پارک اور
متوسط طبقے کی بستیاں دہشت گردوں کے لیے بالکل کھلی ہوئی ہیں۔سانحہ پشاور
نے جہاں پوری قوم کو صدمے کا شکار کردیا وہاں بین الاقوامی طور پر اس سانحے
کی شدت اور غم کو محسوس کیا گیا ہے ۔لیکن اس وقت جب ہم غم اور گہرے صدمے
میں ڈوب ہوئے ہیں تو یہ سوال ذہنوں میں ضرور اٹھتاہے کہ وہ دہشت جنہوں نے
آرمی سکول پر حملہ کیا تھا یا وہ دہشت گرد جس نے واہگہ سرحد پر انسانوں کے
پرخچے اڑائے تھے کیا وہ ہوا میں اڑ کر اپنے اپنے نشان زدہ مقامات پر پہنچے
تھے یاسڑک کے ذریعے گاڑیوں پر سوار ہوکر آئے تھے ۔ اگر ان کو وزیرستان ٗ
بنوں کوہاٹ یا پشاور میں داخل ہونے والے راستوں پر ہی روک لیا جاتا تو نہ
تو وہ اپنی منزل پر پہنچ پاتے اور نہ ہی معصوم اور بے گناہ بچوں اور
انسانوں کو خون میں نہلا سکتے ۔ یہ بات بطور خاص وزیر اعظم اور آرمی چیف کو
سوچنی چاہیئے کہ دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو کیسے روکا جائے ۔ عام طور پر
شہروں میں داخلے اور باہر نکلنے کے راستوں پر تھکے ہوئے ٗ لاپرواہی چند
پولیس اہلکار بٹھا کر یہ کہہ دیاجاتا ہے کہ سیکورٹی سخت کردی گئی ہے یہ
کہنے کے بعد کسی بھی پولیس افسر کو یہ دیکھنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ چیک
پوسٹوں پر تعینات پولیس اہلکار کی کارکردگی کاامتحان بھی لیں ۔یہی وجہ ہے
کہ ایسی چیک پوسٹوں پر تعینات پولیس اہلکا ر موبائل پر چیٹنگ میں مصروف
ہوتے ہیں تو دہشت گرد بہت سکون سے اسلحے سے بھری ہوئی گاڑیاں بھی شہر میں
داخل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔پھر انٹیلی جنس ایجنسی کی جانب سے تمام
سرکاری اداروں کو اطلاع کردی جاتی ہے کہ شہر میں اسلحے سے بھری ہوئی ایک
گاڑی داخل ہوچکی ہے اپنی اپنی حفاظت کا انتظام خود کرلیں ۔یہ بھی ستم ظریفی
ہے کہ دہشت گرد کسی بھی دینی مدرسے میں مہمان کے طور پر رہائش اختیار
کرلیتے ہیں یا کسی بھی پہلے سے رہائش پذیر شخص کے گھر میں رہ کر پورے شہر
میں سیکورٹی کے انتظامات چیک کرکے مطلوبہ ہدف تک پہنچنے وہاں سانحہ برپا
کرنے کے بارے میں پوری تحقیق کرکے کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ہماری پولیس اتنی
ڈرپوک ہے جو شریف شہریوں کو تو رشوت کا ریٹ بڑھانے کے لیے ہر ناکے اور
تھانے میں ذلیل کرسکتی ہے لیکن اگر غلطی سے بھی کسی دہشت گرد کا سامنا ہو
جائے تو اس کامقابلہ کرنے کی بجائے سب سے پہلے اپنی جان بچا کر رفوچکر
ہوجاتی ہے وہ پولیس آفیسر جن کو اپنی جان کی حفاظت کی ہر لمحے فکر رہتی ہے
وہ کس طرح شہریوں کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ جب کسی نے پکڑا ہی نہیں جانا تو
جرائم اور دہشت گردی کیسے ختم ہوسکتی ہے۔یہی وہ حقائق ہیں جن کی وجہ سے
دہشت گرد ایک شہر سے دوسر ے شہر نہ صرف آزادی سے نقل و حرکت کرتے ہیں بلکہ
جہاں چاہتے ہیں دہشت گردی کر گزرتے ہیں۔پاک فوج کا شمار دنیا کی بہترین فوج
میں ہوتا ہے فوج کے افسر اور جوان سینہ تان کر وزیرستان اور قبائلی
ایجنسیوں میں دہشت گردوں سے دست بدست جنگ کررہے ہیں کیا شہروں کی حفاظت کے
لیے بھی فوج کو ہی آنا پڑے گااگر ایسا ہے تو پھر لاکھوں کی تعداد میں بزدل
پولیس اہلکار بھرتی کرنے کاکیا فائدہ ۔ جن کی تنخواہوں اور سہولتوں پر ہر
سال اربوں روپے خرچ کردیئے جاتے ہیں ۔اس لمحے عمران نے دھرنا اور احتجاجی
تحریک ختم کرکے بہت اچھااقدام کیاہے اب عمران سمیت تمام سیاست دان ایک صف
میں کھڑے ہوکر لائحہ عمل بنا رہے ہیں تو انہیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ شخصیات
کی حفاظت کرنے کی بجائے دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو روکا جائے تو پشاور
اور واہگہ جیسے سانحات کبھی رونما نہیں ہوسکتے۔ |