دھرنا یا چنگاری
(Yousuf Ali Nashad, Gilgit)
ماضی میں بہت سے ایسے واقعات
رونما ہوئے ہیں کہ بڑے بڑے بدمعاشوں کی موت کمزور شریف لوگوں کے ہاتھوں
ہوئی ہے،بڑے بڑے حکمران نچلے طبقے کے افراد کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور
ہوئے ہیں۔یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی لاچار کو نظر انداز کرکے اس کی
مجبوری اور شرافت سے ناجائز فائدہ اُٹھایا جانے پرآخر میں ان ہی کے ہاتھوں
رسوا ئی ہوئی ہے۔غریب ، لاچار،ضرورت مند،فریادیوں میں اگر بنت حوا بھی شامل
ہو تو ہو تاریخ بتاتی ہے کہ وہاں کا کایا ہی پلٹ جاتا ہے اور پلٹا بھی
جاچکا ہے۔اپنی دھرتی میں ہی زندہ مثال موجود ہے کمانڈنگ کے دور میں گلگت
بلتستان کی ایک بیٹی کی بے عزتی کی گئی تو کیسا انقلاب برپا ہوا۔آج بھی ان
ہی کے سپوت موجو ہیں، کوئی باہر کے لوگ نہیں بات اتنی سی ہے کہ طبعاً ہم
شریف لوگ ہیں اُٹھنے میں کچھ دیر ضرور لگتی ہے مگر جب اُٹھ جاتے ہیں تو
طوفان بھی اپنا راستہ ان کے سامنے چھوڑ جاتے ہیں۔آج تقریباً26دنوں سے گلگت
بلتستان کی بیٹاں اپنے شیر خوار بچوں کو لے کر اس یخ بستہ سردی میں اپنے
گھر بار چھوڑ کر اپنے حقوق کے حصول کے لئے’’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘‘ کے
ارباب اعلیٰ کے سامنے ہاتھ جوڑے فریاد کر رہی ہیں اور چیخ چیخ کر پکار رہی
ہیں کہ ہے کوئی بندہ خدا جو ہمارے بجھتے ہوئے چولہوں کو پھر سے آباد کرنے
کا ذریعہ بنے ہے کوئی سننے والا جو ہمارے بیمار والدین اور بھوکے بچوں کا
سہارا بن کر ہمیں ہمارا حق دلانے میں ہماری مدد کرے۔ہمارا معاشرہ اور ہمارے
ارباب اختیار کتنے غیرت مند ہیں اور قوم کی بیٹیوں کا کتنا خیال ہے وہ تو
گھڑی باغ میں سردی سے ٹھٹھرتی مائیں اور بیمار بچوں کو دیکھ کر اندازہ
ہوجاتا ہے۔حالانکہ بہت سےء سماجی، سیاسی اور مذہبی حلقوں کے ذمہ داروں نے
بھی وہاں ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کی ہے۔اور بہت سے لوگ ان کے سٹیج میں
اپنا غصہ نکالنے بھی تشریف لاتے ہیں۔خیر یہ تو ہوتا رہتا ہے۔اس دھرنے میں
زیادہ تعداد خواتین کی ہیں او وہ بھی معاشرے کے سب سے اہم ادارے سے تعلق
رکھنے والی۔ یہ خواتین و حضرات جو سیپ اسکولوں کے اساتذہ کرام ہیں جنہوں نے
کم و بیش بیس بیس سال تک قوم کے بچوں کو قلیل معاوضہ کے عوض علم کی روشنی
پھیلانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ان بچاروں کی عمریں بھی سرکاری
تعین کردہ عمر سے تجاوز کر چکی ہیں یہ ان کا قصور نہیں یہ حکومت کی ذمہ
داری بنتی ہے کہ عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرے۔ وہ تو اس امید کے
سہارے قوم کے نونہالوں کو تعلیم سے نوازتے رہے کہ آخر ایک نہ ایک دن ہمارے
ساتھ انصاف ضرور ہوگا ہماری ملازمت کو مستقل بنیادوں پر استوار کیا جائے
گا۔ان غریبوں کو کیا معلوم تھا کہ قوم کی خدمت کرتے کرتے ایک دن سرے بازار
خود تماشہ بنیں گے۔نہ یہ بچارے کسی کو رشووت دے سکتے ہیں اور نہ ان کی کوئی
سفارش ہے سِوائے خدا کے ان کا کوئی مددگار نہیں۔ہمیں اس بحث میں نہیں جانا
ہے کہ یہ وفاق کے انڈر میں ہیں یا گلگت بلتستان کے انڈر میں ہیں ہم نے تو
یہ دیکھنا ہے کہ ریاست ان بے یارو مدد گار معلیمین و معلیمات کے مستقبل
کوٹھوس حکمت عملی کے تحت کب یقینی بنائے گی۔ ان غریبوں کا مستقبل سنوارنا،
بناناپاکستان کے حکمرانوں کی اولین ذمہ داری ہے۔خواتین و حضرات کا ایسا
احتجاج ملک کے دیگر کسی شہر میں ہوتا تو کب کا انتشار پھیل چکا ہوتا جبکہ
جی بی میں خواتین کا یہ دھرنا جی بی کی تاریخ کا طویل ،صبر آزما اور پرامن
دھرنا ہے۔آج خواتین نے چند منٹ کے لئے سڑک جام کر رکھا تھا ان کاجذبہ قابل
دید اور انتہائی پر عزم دکھائی دے رہا تھا۔ان کے اپنے حقوق کے حصول کیلئے
فلک شگاف نعروں نے بے حسوں کو بھی جنجھوڑا ہے۔جان دینے،قربانی دینے اور حق
لینے کے نعرے اور ان کی آنکھوں میں آج بے بسی کی بجائے حوصلہ، ہمت اور کچھ
کر گزرنے کی ایک واضع چمک دکھائی دے رہی تھی۔یاد رکھیں جب عورت پر عزم
ہوجاتی ہے تو ایک نئی تاریخ جنم لیتی ہے۔اب جی بی کے عوام کے اندر بھی قوم
کی مائیں بہنوں کیلئے سویا ہوا جذبہ بیدار ہوچکا ہے۔گھر گھر یہی موضع بحث
چل رہا ہے’’میں ان سیپ اساتذہ کے حوالے سے کچھ دن پہلے ہی لکھنا چاہتا تھا
مگر میں نے ذرائع اور اپنی معلومات کو اکھٹا کرنا شروع کردیا تو یوں محسوس
ہوا کہ گیلی لکڑی نے آہستہ آہستہ آنچ پکڑنا شروع کیا ہے‘‘تو اپنا فرض سمجھا
کہ یہ آنچ شعلہ پکڑنے سے قبل ان کا مسلۂ حل کر کے یہی پر ہی بجھایا جا سکتا
ہے اس لئے اندر بات کو حکام بالا تک پہنچا سکوں۔اب یہ دھرنا ایک چنگاری کی
شکل اختیار کرچکا ہے اور یہ چنگاری بہت جلد شعلوں کی شکل میں تبدیل ہونے کو
ہے۔شنیندن یہ ہے کہ ان متاثرہ خواتین کے علاوہ مضافات سے بھی خواتین اور
بچے ان کے دھرنے میں شامل ہونے کو تیار ہورہے ہیں اور مرد حضرات بھی بہت
جلد اس کارواں کے ساتھ ہونے والے ہیں بہت جلد یہ طاقت پکڑنے والے ہیں جب ان
کے ساتھ عوام ہونگی اور ممکن ہے کچھ خواص میں ان کا ساتھ دیں گے تو ایسی
صورت میں دعوے کے ساتھ یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ان کا رخ کس طرف
ہوگا۔اربار اقتدار کو چاہئے کہ گلگت بلتستان کی حساسیت کو مد نظر رکھتے
ہوئے جلد از جلد ان کا مسلہ حل کیا جائے۔یاد رکھیں انہیں نظرانداز کرنا یا
ان پر تشدد کے بارے میں سوچا بھی تو نتائج سوچ سے مختلف ہونگئے ان پچیس
دنوں کی جدوجہد محض گھڑی باغ تک محدود نہیں رہی ان کی آہ بکا نے جی بی کے
خاص و عام کو جگادیا ہے۔اس ملک میں ہمیشہ یہ ہوتا آیا ہے یہ ریت رہی ہے کہ
جب مجبور،کمزور بے بسی سے تنگ آکر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اُٹھ کھڑا
ہوتا ہے تو تب ان کی بات سنی جاتی ہے اور معاملہ طول پکڑتا ہے پھر کسی حد
تک حکومت کو بھی بے چینی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ملک کے دیگر شہروں کی نسبت
یہاں مزاج کچھ اور ہے اور یہاں کے حالات بھی مختلف ہیں۔حکومت کے لئے بہت
بڑی بات نہیں ہے جی بی کے ارباب اختیار کو چاہئے کہ وہ وفاق سے رابطہ کرکے
ممکنہ درپیش مسائل سے آگاہ کیا جائے تاکہ کوئی بہت بھاری سانحہ سے دو چار
ہونے سے بچایا جائے۔اس مرتبہ بھاری مینڈیٹ سے بر سر اقتدار آنے والی پارٹی
کو بھی یہ احساس ضرور ہوگا کہ ان مجبور عوام کو ان کا حق دے کر ان کی
ززندگی میں خوشحالی بحال کر کے ان کی دعاؤں سے مستفید ہوجائیں۔ |
|