? عمران نے کیا حاصل کر لیا
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
مان بھی لیں کہ 15 دسمبر کو ایک
دن کیلئے لاہور بند ہوا تو کیا ہوا۔ عمران نے کیا حاصل کر لیا۔ اس نے وہی
تقریر کی جو پچھلے چار ماہ سے کرتا چلا آ رہا ہے۔ سارا دن ہلڑ بازی، دھینگا
مشتی، افراتفری، گالم گلوچ،چھیڑ چھاڑ، دو بندے اور دو بچے ایمبولنس میں مر
گئے۔ صحافیوں سے بدتمیزی وغیرہ وغیرہ۔ شام کو عمران کا استقبال اور
پروٹوکول۔ عمران نے ہاتھ ہلائے کہ اسے نوجوان لڑکوں لڑکیوں نے سلام کئے۔
مگر شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید نے کیوں ہاتھ ہلائے انہیں تو کسی نے سلام
نہ کیا تھا؟
بجائے اس کے عمران خان پر بات ہوتی۔ غنڈہ گردی میں صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی
گالم گلوچ اور مارکٹائی کے واقعے نے سارا کام تلپٹ کر دیا اور عمران کے سر
پھرے نوجوانوں کے تشدد آمیز ”احتجاج“ کے خلاف احتجاج ہوتا رہا۔ صحافی
برادری کی خاتون ثنا مرزا بہت بے بسی سے رو پڑی۔ عورت کے آنسوﺅں سے بڑا
احتجاج کوئی نہیں لیکن اچھا لگا کہ اس دلیر خاتون نے اچھی طرح صحافیانہ
فرائض نبھائے۔ وہ پتھر اور بوتل پھینکنے کے خلاف نہ روئی بلکہ لوفر
نوجوانوں کی نازیبا اور بے ہودہ جملے بازی کے خلاف روئی کہ عورت کے لئے
آوازے کسنے کی واردات بہت بڑا تشدد ہوتا ہے۔ اس نے ایک اور بات بھی اچھی کی
کہ ہم تو خبر دینے والے ہیں۔ ہم نے کبھی نہیں چاہا کہ ہم خود خبر بن جائیں۔
برادرم سہیل وڑائچ بھی بپھرے ہوئے عمرانی نوجوانوں کے درمیان پھنس گئے۔ وہ
عمران خان کے اتنے خلاف نہیں ہیں مگر نوجوان کچھ بھی برداشت کرنے کے لئے
تیار نہیں ہیں۔
ممتاز وکیل رہنما اور بہادر سماجی خاتون عاصمہ جہانگیر سے پوچھا گیا کہ
عمران اپنے مادر پدر آزاد نوجوانوں کی تربیت کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے
کہا کہ پہلے عمران اپنی تربیت تو کر لیں۔ شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید
عمران کو قیادت سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ تو پھر ایسی حرکتیں تو عمران کے جلسوں
میں ہوں گی کہ لوگ نفرت کرنے لگیں۔ عام لوگوں کی حمایت عمران خان کے لئے کم
ہو رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے اسد عمر نے بڑی ڈھٹائی سے پی ٹی آئی کے نوجوانوں
کا دفاع کیا اور کہا کہ جو ٹی وی چینل عمران خان کے جلسوں کی کوریج نہیں
کریں گے وہ ختم ہو جائیں گے۔ جبکہ عمران خان جو کچھ بھی بنے ہیں وہ ٹی وی
چینلز نے بنایا ہے۔ تقریباً سو لاکھ کے لاہور میں چند ہزار لوگوں نے عمران
کا جھنڈا اٹھایا ہے۔ وہ بدتمیزی کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ اب پاکستان کے گھر
گھر میں عمران خان کی بات پہنچ چکی ہے۔ لوگ اس طرز گفتگو اور طرز سیاست سے
بیزار ہو چکے ہیں۔ اب ٹی وی چینلز پر صرف عمران کی سیاست کا چرچا ہو رہا ہے
لوگ تنگ آگئے ہیں اور عمران خان کے ”عمرانیے“ تنگ آمد بجنگ آمد آگئے ہیں۔
بھٹو کے جیالوں کے مقابلے میں عمران کے ”عمرانیوں“ کا خطاب بالکل برمحل ہے
کیونکہ ایسا وقت شاید پاکستان کی سیاست میں پھر نہیں آئے گا۔
ایک بات غور طلب اور معنی خیز ہے کہ جوش و خروش تو عمران کے جلسوں دھرنوں
اور شہروں کی ”بند گردی“ میں عروج پر ہوتا ہے مگر جب گو نواز گو کا نعرہ
لگتا ہے تو جوش و خروش میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر موسیقی کے
ساتھ اس نعرے کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔ نوجوان وحشیانہ انداز میں ناچتے
ہیں اور دیوانہ وار بدتمیزی کرتے ہیں۔ لڑکیاں بھی دیوانہ وار بلکہ مردانہ
وار ناچتی ہیں۔ بدتمیزی برداشت کرتی ہیں بلکہ بدتمیزی کی دعوت بھی دیتی
ہیں۔ ایک جلسے میں ذلیل و خوار ہو کر بلکہ بے عزت ہو کر دوسرے جلسے میں
پورے زور شور سے آجاتی ہیں۔ نعروں سے کیا سمجھا جائے؟ نواز شریف نے لوگوں
کو کچھ ریلیف دیا ہو تاتو لوگ کیوں پریشان ہوتے عمران کا احتجاج شروع ہونے
کے بعد ہنگامی بنیادوں پر کچھ نواز شریف کو کرنا چاہئے تھا۔ لوگوں کو اب
بھی آسودہ زندگی ملے تو وہ عمران کی سیاسی ”درندگی“ کے سامنے شرمندگی سے بچ
جائیں گے۔ نواز شریف کے خلاف 15 دسمبر کو کچھ عمرانی لڑکیوں نے بے عزتی
کرنے والے عمرانی لڑکوں کی پٹائی کر دی۔ ڈنڈوں سے پٹائی کی۔ نوجوانوں کا
زیادہ ہجوم لڑکیوں والے علاقے میں ہوتا ہے۔ میرے ایک بزرگ دوست خان اسلم
خان بہت ریت روایت کے اچھے آدمی ہیں۔ محب وطن ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ عمران
خان کہتا ہے ہم شیر کے شکاری ہیں مگر یہ تو دیکھا جائے کہ اس کے نوجوان
اپنی ہی تحریک انصاف کی عورتوں کے شکاری بنے ہوئے ہیں؟
جنرل یحییٰ خان کے فائق ساتھی جنرل عمر نے 16 دسمبر کے لئے قوم کو شرمندہ
کروانے میں کردار ادا کیا تھا۔ عمران خان نے اس کے بیٹے اسد عمر کے مشورے
پر 16 دسمبر کا دن احتجاج کے لئے رکھا تھا مگر اسد عمر جیسے لوگوں نے 15
دسمبر کو بھی لاہور میں وہ کچھ کر دکھایا جو 16 دسمبر کو ڈھاکہ میں ہوا
تھا۔ اسد عمر نے تشدد کا شکار ہونے والے صحافیوں کو مسلم لیگ ن کا ایجنٹ
قرار دیا۔ ایسا کبھی کسی دوسرے سیاستدان کے جلسے میں تو نہیں ہوا۔ انہوں نے
صحافیوں کو بھی ”صحیح“ رپورٹنگ کرنے کی ہدایت کی۔ یعنی صحافی صرف ہماری
حمایت کریں۔ تعریف کریں۔ تنقید برداشت کرنے کے لئے وہ تیار نہیں ہیں۔ عدم
برداشت کا جو سیاسی معاشرہ پیدا کیا جا رہا ہے۔ یہ بدتمیزی نیا پاکستان کا
کلچر ہو گا تو پھر کون بچے گا۔ تحریک انصاف کے لوگ بھی اس بدتمیزی سے نہیں
بچ سکیں گے۔ عمران کی حامی نوجوان لڑکیاں تو ابھی سے محفوظ نہیں ہیں۔
15 دسمبر کو لاہور شہر بند کرنے کی ایک ہی کامیابی ہے کہ تحریک انصاف نے 18
دسمبر کو سارا پاکستان بند کرنے کا فیصلہ موخر کر دیا ہے۔ بلکہ عمران کے
انداز سے لگتا تھا کہ آپ مذاکرات کی میز پر آجاؤ۔ ہم مزید احتجاج نہیں کریں
گے۔ یہ بات پہلے بھی وہ کئی بار کر چکا ہے۔ مجھے رات کو موٹروے سے آنے نہیں
دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے ”بہادر“ لوگوں نے لاہور میں داخل ہونے کے تمام رستے
بند کئے ہوئے تھے۔ یہ کالم لکھا گیا تھا تو پشاور کے بڑے المیے کا پتہ چلا
سینکڑوں بچے شہید ہوئے اور عمران شہر بند کر رہا ہے۔ وہ دہشت گردوں کے
راستے کیوں بند نہیں کرتا اس کا پرویز خٹک خیبر پختونخواہ میں کیا کر رہا
ہے؟ اطلاع بھی حادثے کی کئی دن پہلے دے دی گئی تھی مگر کچھ انتظام نہ کیا
گیا۔ اس کے باوجود 18 دسمبر کا احتجاج بند کرانے کے لئے عارف علوی کے بقول
عمران خان کو بڑی مشکل سے رضامند کیا گیا۔ اسد عمر بھی 18 دسمبر کے احتجاج
کے حق میں تھا۔ عمران 18 دسمبر کو پشاور کو بندکرنے کا اعلان کرتا تو شاید
یہ حادثہ نہ ہوتا۔ مگر اب عمران کا احتجاج بھی حادثہ ہی بن گیا ہے۔ میں اس
واقعے کے حوالے سے ایک کالم لکھوں گا۔ مگر یہ کام مجھے خون سے لکھنا چاہئے
مگر سیاستدانوں کا خون سفید ہو گیا ہے۔ سیاستدان مذمت سے کب آگے نکل کر
سوچیں گے۔ |
|