جاوید چوہدری صاحب وقتا فوقتا
اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے حکومت وقت اور قوم کو اپنے قیمتی مشوروں سے
نوازتے رہتے ہیں ۔ پچھلے دنوں سانحہ پشاور کے بعد جب حسب روایت اے پی سی
میں فیصلہ ہوا کہ ایک جامع سیکورٹی پلان سات دنوں کی قلیل مدت میں مرتب دیا
جائے ۔ اس کار خیر کے لئیے حسب سابق کمیٹی تشکیل دی گئی تو رئیس الاینکرین
، شاہسوار میدان صحافت ، سرخیل دانشوراں ، قائد و نمائندہ گجراں ، ارسطو و
سقراط دوراں جناب جاوید چوھدری صاحب نے میاں محمد نواز شریف صاحب کو مشورہ
دیا کہ میاں صاحب چونکہ پاکستان میں داخلی سیکورٹی کا کوئی ماہر نہیں لہذا
آپ دو سو طلباء کا انتخاب کریں انھیں بیرون ملک انٹرنل سیکورٹی میں پی ایچ
ڈی کے لئیے بھیجیں اور ڈاکٹریٹ کرکے جب یہ لوٹیں تو پھر ان سے تحفظ پاکستان
کا جامع پلان بنوائیں اور ملک کو دہشتگردی سے پاک کریں ۔ بہت سے ارباب عقل
و دانش نے اس فیصلے کو سراہا مگر مجھ جاہل نے اس مشورے پر تنقیدی میسج
چوھدری صاحب کو بھیجا جسے جناب نے اپنے فیس بک پیج پر شیئر بھی کیا ۔ یہ
بلاشبہ جناب کا بڑا پن ہے ۔ آج عفریت کے عنوان سے ایک آرٹیکل جناب کا میری
نظر سے گذرا جسمیں آپ نے ظہیر ماڈل کا ذکر کیا جو کہ بہترین ماڈل ہے اسے
اپنانا اور سراہنا بھی چاہئیے ۔ گو کہ کسی کی تعریف کرنے کے فن سے میں
بالکل ناواقف ہوں میں نے خود ساختہ ایک فرسودہ سا نظریہ گھڑ رکھا ہے کہ
میری تعریف کو کوئی خوشآمد نہ سمجھ بیٹھے ۔ خوشآمد کرنے اور کروانے سے چڑ
سی ہوگئی ہے ۔ خیر سو گلاں دی اکو گل آپکا ظہیر ماڈل والا مشورہ زبردست ہے
۔
اب چلتے ہیں سیکورٹی پلان آف ایکشن کی جانب - جناب چوھدری صاحب ہم اوپر سے
لیکر نیچے تک جذباتی افراد کا ہجوم ہیں ۔ ہمیں کوئی بھی بڑے سے بڑا حادثہ
سانحہ بھولنے کے لئیے صرف چودہ دن درکار ہوتے ہیں - بہت جلد میرے سمیت تمام
اٹھارہ کروڑ کا ہجوم سانحہ پشاور کو بھول جائے گا اگر کسی کو یاد رہے گا تو
ان ماؤں کو جنکے مستقبل کے خواب عالم بیداری میں بکھر گئے ہیں ، انھیں تادم
زندگی یاد رہے گا جنکے لخت جگر بچھڑ گئے ہیں ، وہ کبھی چھپ کر خون جگر
آنکھوں کے رستے بہا لیا کریں گی اور کبھی محفل میں ۔ یہ غم انھیں اب دیمک
کی طرح لگ گیا ہے جو قبر تک ساتھ رہے گا - حکومت پاکستان نہ کل سنجیدہ تھی
نہ آج ہے ہمیں سیکورٹی پالیسی بنانے کے لئیے کسی سقراط کی ضرورت نہیں ،
حاجت ہے تو سنجیدگی کی ، قوت فیصلہ اور قوت نافذہ کی جو کہ مجھے لیڈروں کی
بھیڑ میں کسی ایک کے اندر بھی نظر نہیں آتی - چلیں پھر بھی میں مایوسی کو
جھٹک کر امید کے دیپ چلاتے ہوئے چند گذارشات کرتا ہوں ارباب اختیار تک
پہنچا دیں ۔
نمبر ١ ۔ میاں صاحب اگلا الیکشن بھول جائیں کہ آپ نے جیتنا ہے اسکی وجہ سے
آپ ناپسندیدہ فیصلے کرسکیں گئے اور آپ اپنے قدموں میں پڑی مقدس اتحاد کی
بیڑیاں توڑ سکیں گئے ۔ نیم دانشوروں اور نیم ملاؤں سے مشاورت بند کردیں -
قابل ذہین و فتین لوگوں کو مشیر بنائیں اپنے خاندان کو کاروبار سلطنت سے
دور کردیں ، مولانا فضل الرحمان سے فاصلے بڑھا لیں ۔
نمبر ٢ ۔ ایک سطری سیکورٹی پالیسی بنائیں کسی قسم کی دہشتگردی برداشت نہیں
کی جائے گی اور اس پر عمل یقینی بنائیں۔ یہ پالیسی ملک کے تمام تھانوں کو
بھجوائیں اور ایس ایچ اوز سے کہیں اس پر عمل قانون کے اندر رہ کر کریں جس
تھانے کی حدود میں دہشتگردی ہوگی اس تھانے کے ایس ایچ او کو سخت سزا دی
جائے گی ۔ آئی جی سے ایس ایچ او تک ذمہ داریاں تفویض کریں غفلت برتنے پر
نشان عبرت بنائیں ۔ آجکل تو بغیر ذمہ داری کے ملک چل رہا ہے بڑا سانحہ
ہوجاتا ہے ذمہ داروں کا ہی پتہ نہیں چلتا ۔ ذمہ داریاں فکس و متعین کریں ۔
٣۔ اپنے بھائی اور وزیروں کی پولیس میں مداخلت بند کریں ۔ خاندان سے باہر
بھی لوگوں پر اعتمادکریں ۔ ہزار صفحوں کی کٹ پیسٹ پالیسی کی بجائے ایک سطری
پالیسی بنائیں مگر عمل کریں ۔
٤۔ دہشتگردوں کی حمایت کرنے والوں کو پابند سلاسل کریں ۔ مفت خور مفتیوں کی
زبانوں کو لگام دیں جو کہہ رہے ہیں کہ اگر صرف مذہبی طبقے کے لوگوں کو
پھانسیاں دی گئیں تواس سے انتشار پھیلے گا حالانکہ کل تک یہ فرماتے تھے کہ
دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔
٥۔ ہر دیوبندی دہشتگرد نہیں مگر ہر دہشتگرد دیوبندی نکلتا ہے لہذا علماء
دیوبند سے درد مندانہ اپیل ہے کہ اپنا انداز تدریس و تبلیغ بدلیں کہیں تو
کچھ گڑ بڑ ہے صرف لفظی اور ڈپلومیٹک مذمت سے تھوڑا آگے بڑھیں۔
٦۔ مولانا طارق جمیل صاحب بہت سے گلوکاروں اداکاروں ڈانسرز اور مشہور و
معروف شخصیات کو اپنی تبلیغ اور سحربیانی سے رآہ راست پر لاچکے ہیں ۔ اب
انھیں مہربانی فرما کر دو تبلیغی ٹیمیں بنانی چاہئیں ایک افغانی طالبان کے
پاس جائے دوسری پاکستانی طالبان کے پاس جائے جو ان ناراض بچوں کو تبلیغ
کرکے رآہ رآست پر لائیں ۔ اور خدا کی قسم آپکو عامر خان اور وینا ملک کے
پیچھے بھاگنے سے زیادہ اجر ملے گا ۔ عامر خان اور وینا ملک تو مسلمان ہیں
چاہے گناہ گار ہی سہی الله چاہے بخش دے یہ کسی کو قتل تو نہیں کر رہے جو
بھی کرتے ہیں انکا ذاتی فعل ہے مگر طالبان آپکے ناراض بچے اسلام سے نکل کر
خارجیت کی سرحد میں جاچکے ہیں انھیں راہ راست پر لائیں رب راضی ہوگا جگ
راضی ہوگا ۔ |