سانحہ پشاور کے ذمہ دار کون؟ سول یا استبلشمنٹ
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
کور کمانڈر جنرل ہدایت الرحمن
سیاستدانوں کی طرح آرمی پبلک سکول کا دورہ کر رہے ہیں اور میڈیا دکھا رہا
ہے۔ کیا فوج نے بھی سیاسی کارروائی کرنا شروع کر دی ہے۔ کور کمانڈر پشاور
نے کہا کہ سانحے میں بیرونی ہاتھ بھی ہے۔ بیرونی سے کیا مراد ہے۔ چیف بھی
بیرون میں ہے؟ آپ تو بھارت کا نام لیں۔ افغانستان کا نام لیں۔ جرنیل بھی
سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ کچھ تو ہے کہ جنرل راحیل شریف فوراً
افغانستان گئے۔ انہوں نے افغان حکومت اور ایساف کمانڈر کے سامنے اپنا دکھ
رکھا ہو گا۔ وہاں ملا فضل اللہ بھی ہے۔ اسے ”را“ کی سرپرستی حاصل ہے۔ ”را“
کو امریکہ کی آشر باد حاصل ہے۔ دہشت گردی کے خلاف مہم تو افغانستان سے شروع
ہوئی تھی۔ یہ پاکستان میں کیسے پہنچ گئی؟ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کو
فرنٹ لائن بھی ایک جرنیل مشرف نے بنایا تھا۔ جنرل مشرف نے کہا کہ ملا فضل
اللہ کے پیچھے ”را“ ہے۔ پاکستانی ایکشن پلان میں پاک فوج کو شامل کیا جائے۔
مجھے سب رسمی بیانات میں سے جنرل راحیل شریف کی دردمندانہ بات پسند آئی۔
ظالموں اور دشمنوں نے ہمارے دل پر حملہ کیا ہے۔ میں دل سے سمجھتا ہوں کہ وہ
اہل دل آدمی ہیں اور اہل جرنیل بھی ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کی یلغار میں انہوں
نے واقعی دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ انہیں پاگل کر کے رکھ دیا ہے۔ آرمی
پبلک سکول میں معصوم بچوں پر قیامت ڈھانے والے واقعی پاگل تھے۔ یہ مایوسی
اور بزدلی کی انتہا ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے لئے دوست دشمن مان رہے ہیں کہ یہ
جانفشانی اور کامرانی سے ہمکنار ہوا ہے۔ اب جنرل ہی افغانستان گئے ہیں وہی
کچھ کریں۔
ورنہ سیاستدانوں نے APC میں وہی کچھ کیا ہے جو پہلے کیا تھا۔ دہشت گردوں سے
مذاکرات کا کیا حشر ہوا۔ دہشت گردوں کے ساتھ سیاست سے بات کرنا حماقت ہے۔
سات دن میں کوئی حکمت عملی بلکہ حکومت عملی بنانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ
ناقابل فہم ہے؟ کامیابی مذاکرات سے نہیں آپریشن سے ہو گی۔ آپریشن ضرب عضب
سے ہو گی۔
۔ جنرل راحیل سے زخمی بچوں نے کہا کہ ہم آپریشن ضرب عضب کے سپاہی ہیں۔ ہم
آپ کے سپاہی ہیں۔ ہم فوج میں جائیں گے اور پاکستان کے دشمنوں اور دہشت
گردوں کا قلع قمع کریں گے۔ ایک طالب علم نے بھارت کا نام بھی لیا مگر اس
آواز کی طرف میڈیا نے کوئی توجہ نہ دی۔ مختلف سکولوں میں تقریبات ہوئیں۔
پاکستان اور پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگے۔
آئی جی خیبر پختون خواہ کے لئے ہمارے دل میں نرم گوشہ ہے مگر وہ دونوں کے
بعد منظر عام پر آئے ہیں۔ موقعہ واردات پر ایک بھی پولیس والا نہیں تھا۔
آئی جی کہتے ہیں کہ کچھ ٹیلی فون کال پکڑی گئی ہیں جس میں بھارتی ”را“ کے
بھی کچھ لوگ ہیں تو کارروائی کو آگے نہ بڑھانے میں کیا مصلحت ہے؟ سکول آرمی
کا اور علاقہ بھی آرمی کا ہے۔ عمران نے تو کہہ بھی دیا ہے کہ یہ ہمارا
علاقہ نہ تھا۔ آرمی اسے قبول کرے۔ کور کمانڈر پشاور اپنی ناکامی کو تسلیم
کرےںاور پھر کسی تبدیلی کے لئے بات کریں۔ جب کراچی پاک بحریہ میں دہشت گردی
ہوئی جس میں پاک بحریہ کے کئی افسران ملوث تھے تو میں نے لکھا تھا کہ نیول
چیف کو استعفیٰ دینا چاہئے۔ وہ کچھ دنوں کے بعد ریٹائر ہو گئے۔ جی ایچ کیو
پر دہشت گردی کے وقت میں نے گذارش کی تھی کہ جنرل کیانی کو مستعفی ہونا
چاہئے۔ مگر انہوں نے ایکسٹینشن لے لی۔ میں اب یہ نہیں کہتا کہ کور کمانڈر
پشاور مستعفی ہوں مگر یہ تو ہو کہ وہ اپنی ناکامی اور سکیورٹی کے فیل ہونے
کو تسلیم کریں اور شہید بچوں کی ماﺅں سے معافی مانگیں۔ پرویز خٹک بھی اپنی
ناکامی اور نااہلی کو تسلیم کریں۔ لاہور کو بند کرانے میں وہ بڑے سرگرم
تھے۔ کاش وہ 16 دسمبر کو پشاور کو بند کرتے۔ لاہور کو بند کرتے ہو، دہشت
گردوں کے راستے کیوں بند نہیں کرتے۔ جاوید چودھری کا یہ جملہ بہت بامعنی
ہے۔ پہلے کچھ تسلیم کرو اور پھر کچھ تبدیل کرو۔ دوست ڈی جی آئی ایس پی آر
جنرل عاصم باجوہ کئی بریفنگ دے چکے ہیں۔ یہ بات اس کا ثبوت ہے کہ آرمی کی
ذمہ داری سب سے زیادہ تھی۔ سول اینڈ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اپنی ذمہ داری
قبول کرنا چاہئے۔
اب ہر کوئی بریفنگ لے رہا ہے یا بریفنگ دے رہا ہے۔ واہگہ بارڈر پر بھی بم
دھماکے کی ذمہ داری پنجاب پولیس اور سول انتظامیہ نے رینجرز اور فوج پر ڈال
دی تھی۔ اس دھماکے کے لئے بھی دو دنوں کے شور شرابے کے بعد کچھ نہیں ہوا
تھا۔ اس حوالے سے بھی بھارت کا نام اس واقعے میں بھی بڑے زور شور سے لیا
جاتا رہا۔ اب دہشت گرد اپنے غیرملکی اور پاکستانی سرپرستوں کی پناہ میں پاک
فوج کو بھی للکار رہے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کی مکمل کامیابی کے لئے ہر
پاکستانی خوش ہے۔ عوام کی طرف سے پاک فوج کو غیرمشروط حمایت حاصل ہے مگر اب
یہ کیا ہو رہا ہے؟ اللہ کرے یہ درندگی کا آخری موقع ہو۔ پوری قوم اور پاک
فوج اس حوالے سے یکسو ہے۔ مگر سیاستدان کیا کر رہے ہیں۔ اس کے لئے APC کے
بعد بھی سات دنوں میں حکمت عملی بنانے کا اعلان بہت تکلیف دہ ہے۔ ہم حالت
جنگ میں ہیں اور ایسے میں سات منٹ بھی اہم ہوتے ہیں۔ جنرل عاصم باجوہ کہتے
ہیں کہ دہشت گرد کون ہیں اور کہاں سے ہدایات لے رہے ہیں۔ ہم نے سب پتہ چلا
لیا ہے۔ یہ بہت کامیابی ہے مگر اس کے بعد کیا ہو گا؟ آرمی پبلک سکول پشاور
میں ہمارے بہادر فوجیوں کا آپریشن کامیابی سے مکمل کیا گیا۔ ورنہ شہادتوں
کی تعداد بہت زیادہ ہوتی۔ جنرل عاصم باجوہ نے آپریشن کی تفصیل سے آگاہ کیا۔
اپنی جان پر کھیل کر جوانوں نے بہت بچوں کو بچا لیا۔ اس کے لئے وہ مبارکباد
کے مستحق ہیں۔ مگر دکھی قوم کسی بڑی مبارکباد کی منتظر ہے۔ سب لوگ اس بات
پر بھی دکھی ہیں کہ اتنے حساس علاقے میں سڑکوں پر کیسے دہشت گرد دندناتے
رہے اور کسی نے انہیں چیک نہیں کیا۔ چند ہزار دہشت گرد ہم پر کیوں بھاری ہو
گئے۔ سیاستدان یکسو اور یکجا ہو گئے ہیں۔ اب دیر کس بات کی ہے؟
جنرل راحیل نے افغان حکومت اور ایساف کمانڈر سے بات کی تو بھارتی قیادت سے
بات کرنے میں کیا امر مانع ہے؟ جنرل عاصم باجوہ کہتے ہیں کہ دہشت گردوں کے
پاس سات آٹھ دنوں کا راشن تھا تو یہ کون معلوم کرے گا کہ ان کے عزائم کیا
تھے۔ وہ کس منصوبہ بندی کے ساتھ آئے تھے۔
بچوں نے بتایا کہ جب فوج سکول میں داخل ہوئی تو دہشت گرد گھبرا گئے اور
صورتحال بدل گئی۔ ہمارے فوجی افسران اور جوانوں بہت اہل اور بہادر ہیں۔ کچھ
تجزیہ نگار کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف پالیسی فوج کے سپرد کر دی
جائے۔ نیکٹا کے لئے بھی جی ایچ کیو کے حوالے کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ نیکٹا
کے لئے چند کروڑ روپے کے فنڈز رکھے گئے ہیں۔ جبکہ موٹر وے کی تزئین و آرائش
کے لئے کئی سو ارب رکھے گئے ہیں۔ کوئی ادارہ یہ یہ چیکنگ کرے کہ غیرملکی
پاکستانی میں آرام سے ہیں اور کئی غیرقانونی گاڑیاں کھلے عام پھر رہی ہیں۔
نواز شریف دہشت گردی کے اس واقعے میں دل و جان سے مصروف ہیں مگر کچھ ایسا
ہو کہ نتائج سامنے آئیں۔ |
|