اِس پرچم کے سائے تلے

ہم تو سمجھتے تھے کہ وہ اکھڑ ،ضدّی ،اناپرست اور نرگسیت کا شکارہے ۔یہ وہم بھی ہوچلاتھا کہ وہ کسی غیرملکی ایجنڈے پر کام کررہاہے لیکن ہم غلط تھے ،سرے سے غلط ۔لہجہ تلخ سہی لیکن اُسکے اندر ایک دھڑکتاہوا دِل بھی ہے جو دردکی ٹیسوں کو محسوس بھی کرتاہے اور ،نونہالانِ وطن کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ بھی نہیں کرتا۔اُس نے ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اوراپنی 126 روزہ تپسیا کو فراموش کرکے یہ نعرۂ مستانہ بلند کردیا کہ وہ حکومت کے کندھے سے کندھاملاکر دہشت گردی کی جنگ لڑے گا ۔نہیں معلوم کہ اُس کا سیاسی قَد اونچاہوا یا نہیں لیکن وہ لازمۂ انسانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ضرورہوگیا ۔وہ ضدّی تو ہے اور ضدّی بھی فیض کے اِس شعرکی عملی تصویر
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم ،جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یارہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا

اُس نے ’’طالبان خاں‘‘جیساطعنہ برداشت کرلیامگرطالبان کے خلاف ایکشن کی مخالفت پہ ڈٹارہا۔ لیکن جب اُس کے دِل پرچوٹ پڑی تو وہ اپنا سارا سیاسی مستقبل داؤ پرلگاکر اُنہی طالبان کونیست ونابود کرنے کے لیے اُس شخص کے کندھے سے کندھاملاکرکھڑا ہوگیا جسکے اندازِسیاست کا وہ شدیدمخالف ہے۔باقی سبھی سیاسی جماعتیں توپہلے ہی میاں نوازشریف کی دست وبازو تھیں ،ثابت توصرف کپتان نے کیاکہ ’’ اِس پرچم کے سائے تلے ،ہم ایک ہیں ،ہم ایک ہیں‘‘۔خاں صاحب نے کنٹینرپر کھڑے ہوکر انتہائی کرب کے عالم میں کہاکہ بڑوں کی لڑائی میں بچوں کو کیسے مارا جاسکتاہے ۔عرض ہے کہ خون آشام درندوں کو تو اپنی درندگی کا ثبوت دیناتھا جو آرمی پبلک سکول پشاورمیں دے دیاگیا ۔وزیرِاعظم صاحب نے کہا ’’بچوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے‘‘۔ہمیں یقین ہے کہ میاں صاحب ایساہی کریں گے لیکن یہ خوف بھی دامن گیر کہ کہیں یہ وقتی جوش کی لہر نہ ہو۔نپولین نے کہا ’’جنگ کا افسوسناک پہلویہ ہے کہ لوگ مَر جاتے ہیں لیکن تکلیف دہ پہلویہ کہ ہم اُنہیں فراموش کر دیتے ہیں‘‘۔ہماری فراموش کردینے کی تاریخ توویسے ہی بہت تلخ ہے،ہم تو بہت کچھ بھلاکے بیٹھے ہیں اور ہمیشہ ہی ایساہوتاہے کہ کسی سانحے پر چنددِن شور اُٹھتاہے اور پھروہ وقت کی دھول میں گُم ہوجاتاہے لیکن سانحہ پشاور بھلایا جاسکتاہے نہ مٹایا کیونکہ اِس میں ہمارے بچوں کا خون شامل ہے۔ اگرحکمرانوں کے اُٹھتے قدموں میں ذرا سی بھی لرزش آئی تو وثوق سے کہاجا سکتاہے کہ قوم تواُن کا دھماکا کرے گی ہی،تاریخ بھی اُنہیں معاف نہیں کرے گی۔ میاں صاحب! قوم کامطالبہ ہے کہ آپ یَکسو ہوکر اپنی تمامتر توانائیاں اِس فتنے کی سَرکوبی کے لیے وقف کردیں ۔یہ ویساہی ’’فتنۂ خوارج‘‘ ہے جسکے خلاف حضرت علیؓ کی تلواراُٹھی اور فتنہ نیست ونابود ہوگیا ۔وہ ساتوں وحشی واصلِ جہنم ہوئے اورلگ بھگ ڈیڑھ سوشہیدسیدھے جنت میں جاکر ڈٹ گئے۔جہنم سے نکلے ہوئے ابلیسیت کے علمبردارو! تُم بھلا اُس قوم کے جذبوں کوکیسے شکست دے سکتے ہو جس کی ایک پرنسپل کو وحشیوں نے سکول چھوڑنے کاحکم دیا لیکن وہ اپنے سکول کے بچوں کو چھوڑ کرجانے کے لئے تیار نہ ہوئیں ،ایک ٹیچر کلاس روم کے دروازے میں ڈٹ کرکھڑی ہوگئی اور اپنے بچوں کی یوں حفاظت کی جیسے وہ اُس کی کوکھ سے جنمے ہوں۔وہ دونوں مری نہیں، امر ہوگئیں اور وحشی واصلِ جہنم ۔ننھی خولہ اپنے باپ کے ساتھ سکول میں داخل ہونے کے لیے گھرسے خوشی خوشی آئی ،اُسے یزیدی فوج کے ایک سپاہی نے باپ کی گودمیں ایسے ہی شہیدکردیا جیسے علی اصغرؓ کو کوفیوں نے حضرت امام حسینؓ کی گودمیں شہید کیاتھا ۔باپ ہسپتال میں موت سے برسرِپیکار اور معصوم کلی منوں مٹی کے نیچے ،بھائی کبھی خولہ کو آوازیں دیتاہے تو کبھی اپنے باپ کی زندگی کے لیے ننھے ننھے ہاتھ اُٹھاکر دعائیں مانگتاہے ۔اُسی سکول کی ایک لیکچرار کے سامنے اُس کے 15 سالہ بیٹے کو شہید کردیاگیا ۔ماں سکتے میں کہ تادمِ مرگ وہ منظر بھول نہ سکے گی ۔عباس تابش نے کہاتھا
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اِک روز کہا تھا مجھے ڈَر لگتا ہے

مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں ،جگرگوشے کو ڈرلگے تو ساری رات پلک جھپکائے بغیر گزاردیتی ہیں ۔وہ اب بھی صبح چونک کراُٹھیں گی کہ جگر گوشوں کو تیار کرکے سکول بھیجناہے اورچھٹی کے وقت نظریں دروازے پرکہ کب دروازے کی اوٹ سے چاندنکلتاہے لیکن کواڑوں کے پیچھے سے نکلنے والے چاند تو ڈوب چکے ،اب تو کرب میں ڈوبی ،دُکھ میں لپٹی ماؤں کی دردبھری صدائیں ہی باقی ہیں لیکن صبرکی تلقین کرنے والے کہتے ہیں
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو
اب یہاں کوئی نہیں ،کوئی نہیں آئے گا

چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے سچ کہاکہ دہشت گردوں نے ہمارے دِل پر وارکیاہے ۔آفرین ہے اُن جوانوں پہ جو وطن کی حفاظت کی خاطراپنے سینوں سے سیسہ پلائی دیواربناچکے اور ہزار لعنت ہے اُن یزیدیوں پہ جنہوں نے آرمی پبلک سکول پشاورمیں اُن بچوں کو تاک تاک کر شہیدکیا جنکے باپ اور بھائی آپریشن ضربِ عضب میں شریک ہیں۔آج حکومت اورفوج ایک صفحے پرہے اور پوری قوم اُن کی پشت پر۔ ہمیں یقین ہے کہ حکومت اور پُرعزم آرمی چیف اِن معصوم پھولوں کے خون کا بدلہ ضرورلیں گے ۔ ابتدا تو ہوچکی ،دو درندے واصلِ جہنم ہوئے لیکن ہم توایک ایک درندے کو پھانسی پرلٹکتا دیکھنا چاہتے ہیں۔

خون آشام بھیڑیو! اِس سے پہلے کہ تمہیں نشانِ عبرت بنادیا جائے ،میں تمہارا شکریہ اداکرنا چاہتی ہوں کہ ایک توتمہاراعبرت ناک انجام قریب تَر ہوگیا اور دوسرے تم نے کراچی سے خیبرتک سب کویک جان کردیا ۔اب کوئی سندھی ،بلوچی ،سرحدی یا پنجابی نہیں ،سب پاکستانی اور سبھی ایک پرچم تلے ۔سب کا اﷲ ایک ،رسولﷺایک ،قُرآن ایک اور مقصدِحیات بھی ایک، تمہیں نشانِ عبرت بنانا ۔اب تمہارے حق میں کوئی آواز اُٹھے گی نہ تمہیں شہید ثابت کرنے کے لیے تاویلیں گھڑی جائیں گی ۔اب تو امیرِمحترم سراج الحق نے بھی کہہ دیا کہ یہ حیوانیت اوردرندگی کی انتہاہے ،اب ہمارا خاں بھی ’’طالبان خاں‘‘ نہیں وہی پراناہیرو عمران خاں ہے۔ وحشیو! تُم نے 16 دسمبرکا دِن ہمارے زخم کریدنے کے لیے منتخب کیا ۔16 دسمبر 71ء کو میراوطن دولخت ہوا اور 16 دسمبر 14ء کو تم نے ہمارے جگرگوشوں کو لخت لخت کردیا ۔ہمارے زخم ضرورہرے ہوگئے لیکن تم کبھی ہمارے حوصلوں کو شکست نہ دے پاؤگے ۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642998 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More