اہل پاکستان اور بھارتیوں میں بڑھتی دوریاں……تاریخ کے آئینے میں

 تحریر: محمد عثمان طفیل

جنرل ریٹائرڈ حمید گل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعہ میں بھارت ملوث ہے جبکہ دوسری طرف بھارتی میڈیا مسلسل اس چیخ و پکار میں مصروف رہتا ہے کہ بھارت میں ہونے والے دہشت گردی کہ ہر واقعہ میں پاکستان اور اس کے ادارے یا تنظیمیں ملوث ہوتی ہیں۔ یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ آخر اہل پاکستان اور بھارتیوں میں اس قدر دوری کیوں ہے؟؟تاریخ کے ایک طالب علم کے لیے یہ بات واقعی حیرت انگیز ہے کہ دو عظیم جنگیں لڑنے کے بعد بھی اگر یورپی و مغربی اقوام باہم مل جل کر رہ سکتی ہیں تو پاکستان و بھارت کی عوام میں (باوجود سیاسی کاوشوں کے)اس قدر دوریاں آخر کیوں ہیں؟؟آئیے!اس اہم سوال کے جواب میں اس تلخ حقیقت سے پردہ اُٹھاتے ہیں کہ آخر اہل پاکستان اور گؤماتا کے پجاریوں میں اس قدر دوری کیوں ہے․․․؟اورکیا یہ دوری ہونی بھی چاہیے یانہیں؟

یاد رہے کہ ہندوستان ہمیشہ سے ہی بیرونی حملہ آوروں کے نشانے پر رہا ہے۔کبھی وسط ایشیا کے آریاؤں نے اس پر قبضہ کیااور مقامی’’داروڑی قوم‘‘کو جنوب کی طرف دھکیل دیا جبکہ خود گنگا و جمنا کی وادیوں میں آباد ہوگئے۔اسی طرح یہاں’’موریہ‘‘اور ’’گپتا‘‘ سلطنتیں پروان چڑھیں مگر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہندوستان پر جو قوم بھی حملہ آور ہوئی، جلد یا بدیر ہندو مذہب نے اسے اپنے اندر جذب کر لیا۔اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ تھی کہ ہندو مذہب لاتعداد توہمات اور جھوٹی سچی کہاوتوں کا مجموعہ ہے،جس میں آنے والے نئے مذاہب کی رسوم و رواج ضم ہوجاتی تھیں۔پھراس طرح پر حملہ آور قوموں کے عقائد بھی کچھ اس قدر پختہ نہ تھے کہ وہ اپنا وجود برقرا ررکھ سکتیں۔مسلمانوں نے ساتویں صدی عیسوی کے آغاز میں بطور تاجر جنوبی ہندوستان میں قدم رکھا اور پھر بطور فاتح شمالی ہندوستان میں داخل ہوئے۔آٹھویں صدی عیسوی میں محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا اور مسلمانوں کی پہلی باقاعدہ حکومت ہندوستان میں قائم ہوئی۔یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان پر مختلف راجے،مہاراجے حکومت کیا کرتے تھے جو اپنی اپنی سلطنت کی توسیع کے لیے باہم برسرپیکار رہے۔ہندو معاشرہ بھی ذات پات کی تقسیم میں اس قدر الجھا ہوا تھا کہ براہمن کے علاوہ کسی کو انسان نہ سمجھا جاتا۔مگر مسلمانوں نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالتے ہی ایسا عادلانہ نظام قائم کیا کہ آج تک چھوٹی ذاتوں کے ہندو اس سنہری دور کو یاد کرکے اس کے پلٹ آنے کی آرزو رکھتے ہیں۔نیچ ہندو ذاتوں کو برابری کے حقوق ملے اور انھیں پہلی دفعہ یہ احساس ہوا کہ وہ بھی جیتے جاگتے انسان ہیں۔یہ سلسلہ تقریبا ایک ہزار سال تک چلتا رہا اور پھر مسلمانوں کے دین سے دور ہوتے ہی انگریزوں نے برصغیر پر اپنے پنجے مستحکم کرنا شروع کردئیے۔’’ایسٹ انڈیا کمپنی‘‘ آہستہ آہستہ تاجروں کے بھیس سے باہر آئی اور احسان فراموش ہندوؤں جبکہ چند مسلمان غداروں کو ساتھ ملا کر اس نے ہندوستان پر قبضے کی مہم تیز کردی۔1757ء میں پلاسی کا میدان اس پہلے معرکے کے لیے استعمال ہوا جس میں نواب سراج الدولہ کو شکست اور انگریز، غداروں اور ضمیر فروشوں کو ساتھ ملا کر کامیاب ہوئے۔اسی طرح شیر میسور سلطان ٹیپو بھی غداروں کی بدولت 4مئی1799ء میں سرنگا پٹم کے دروازے پر لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔اس کے بعد 1857ء کی جنگ آزادی بھی قابل ذکر واقعہ ہے جس کے دوران مسلمان اور ہندو اکٹھے ہی انگریزوں کے خلاف کھڑے ہوئے مگر ہندو نے اپنی فطرت کے مطابق اپنے محسنوں کو ڈسنے سے گریز نہ کیا اور شکست کے بعد سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈال کر ان کا جینا دوبھر کردیا۔ان واقعات کا سرسری ذکر اس لیے ناگزیر ہے تاکہ تاریخ کا طالب علم جان سکے کہ ہندوؤں نے احسان فراموشی کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ نہ کیا․․․․!! 1867ء میں ہندوؤں نے عدالتوں سے اردو زبان کو ختم کرنے اور ہندی زبان کو رائج کرنے کی تحریک شروع کی۔اس تحریک کے جواب میں سرسید نے دوقومی نظریے کا پرچار کیا اور واشگاف یہ اعلان کیا:’’مجھے یقین ہوگیا ہے کہ مسلمان اور ہندو اب کوئی کام بھی مل جل کر نہیں کرسکیں گے۔وقت گزرنے کے ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت بڑھتی جائے گی اور تعلیم یافتہ ہندو اس نفرت کی آگ کو بھڑکانے میں جلتی پر تیل کا کام دیں گے۔اس حقیقت کو اب تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں۔

دوسری طرف انگریزوں نے ہندوؤں کی ’’خدمات‘‘ کے پیش نظر انھیں خود ایک سیاسی پلیٹ فام عطا کیا۔1885میں ایک انگریزمسٹر ہیوم نے کانگریس کی بنیاد رکھی اور پھر اسے ہندوؤں کے حوالے کردیا۔کئی ایک مسلمانوں کا خیال تھا کہ کانگریس ہندوؤں اور مسلمانوں کے مشترکہ مفادات کی رکھوالی کرنے والی ہے۔ان مسلمانوں میں محمد علی جناح بھی موجود تھے مگر جلد ہی ہندوؤں کے عزائم ان پر آشکار ہوگئے اور انھوں نے اس’’ہندو جماعت‘‘ کو خیر باد کہہ دیا۔بہر حال کانگریس نے ہر محاذ پر صرف اور صرف ہندوؤں کے مفادات کا تحفظ کیا اور یہ کوشش کی کہ وہ مسلمانوں کو نیست و نابود کردیں۔کانگریس کے عزائم واضح ہونے پر مسلمانوں نے 1906میں ایک الگ جماعت ’’مسلم لیگ‘‘ کے نام سے قائم کی۔چند سالوں کے بعد محمد علی جناح کانگریس کے عزائم سے آگاہ ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے جس سے مسلمانوں کی اس جماعت کو ایک عمدہ قیادت میسر آگئی۔محمد علی جناح ،سرسید احمد خان اور دیگر اکابرین شروع سے ہی اس بات کا قائل تھے کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں اور ان کا اتحاد ،دوستی اور تعاون ایک غیر فطری چیز ہے۔اسی سوچ کا وسیع پیمانے پر تعارف کروانے میں علامہ اقبال کا خطبہء الہٰ آباد بہت ممدو معاون ثابت ہوا۔1930ء میں منعقدہ جلسے میں انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا تصور پیش کیاجو مسلمانوں کی مذہبی،فکری،تہذیبی اور معاشرتی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ناگزیر تھا۔علامہ اقبال کی اس سوچ نے آگے نکل کر’’قرار داد لاہور‘‘کالبادہ اوڑھا اور 1940میں ایک تاریخی قرار داد پیش کی گئی جسے قرار داد پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔1940کو قرار داد لاہور کا پیش کیا جاتا تھا کہ ہندوؤں نے کھل کر مسلمانوں کی مخالفت شروع کردی۔انہوں نے اعلان کیا کہ’’گؤ ماتا‘‘کے ٹکڑے نہیں ہونے دیں گے۔انھوں نے مکاری سے سکھوں کو بھی ساتھ ملایا اور سکھوں کے لیڈر ماسٹر تارا سنگھ نے اپنی کرپان نیام سے باہر نکال کر دھمکی دی کہ ’’پاکستان نہیں بننے دیں گے۔‘‘ان کے یہ عزائم پورے تو نہ ہوسکے مگر انہوں نے قیام پاکستان کے وقت لاکھوں مسلمانوں کو شہید کرکے نفرت کی اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ہجرت کے ان واقعات کا تذکرہ اس قدر غمناک ہے کہ انھیں بیان کرنا خود کسی اذیت سے کم نہیں ۔بہر حال ہندوؤں نے تب ’’ہندو مسلم اتحاد‘‘کے خوہاں مسلمانوں کو بھی ظلم وستم کی چکی میں ایسے پیسا کہ ان کا یہ باطل نظریہ بہت جلد پاش پاش ہوگیا۔ہندوؤں کا یہ ظلم وستم اور مکاری صرف قیام پاکستان تک ہی نہ تھی بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ آج تک ہندو اپنے’’اکھنڈ بھارت‘‘کے نظریے پر قائم وطن عزیز کو مسلسل کمزور کرنے کے درپے ہیں۔مگر افسوس! ہمارے حکمران اور چند نام نہاد مسلمان دانشور انہی کو اپنا سب سے بڑا خیر خواہ سمجھے بیٹھے ہیں۔عوام الناس کا بھی ایک محدود طبقہ یہ نظر یہ رکھتا ہے کہ ہمیں اپنی دشمنی بھلا کر باہم شیر و شکر ہوجانا چاہیے۔یہ اسی نظریے کا ہی کمال ہے کہ ہندوازم کا ہر پجاری ہماری جڑیں کھوکھلی کرنے میں مگن ہے جبکہ ہم دل وجان سے اسے مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوشش میں ہیں۔یہ معاملہ صرف آج تک محدود نہیں بلکہ قیام پاکستان کے کچھ سال بعد سے اب تک ہمارے طبقہ اشرافیہ نے ایسے ہی کارنامے سر انجام دئیے ہیں۔

قیام پاکستان کے فورا بعد ہندووؤں کی جانب سے جو سب سے بڑی زیادتی تھی وہ مسلمانوں کے بہت سے علاقوں کو ہندوستان میں شامل کرنے کی سازش تھی جو ریڈ کلف جیسے متعصب انگریز کی بدولت کامیاب ہوئی۔دوسری طرف لارڈ ماؤنٹ بیٹن پہلے سے مسلمانوں کے خلاف تھا اور پاکستانی قیادت سے سخت نالاں تھا۔اس لیے ہندوؤں کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لیے اس نے بنگال میں سے کلکتہ جبکہ پنجاب میں سے گورداسپور اور بٹالہ اور اسی طرح حیدر آباد درکن ‘ مناوادر‘ جوناگڑھ سمیت کئی اہم خطے ہندوستان میں شامل رکھنے کا اعلان کیا۔اسی طرحکشمیر مسلم اکثریت علاقہ تھا اور یہاں کی عوام دل وجان سے نہ صرف پاکستان کے ساتھ تھی بلکہ نصف صدی سے زائد قربانیوں کی داستان رقم کرتے ہوئے آج بھی پاکستان کے ساتھ ہے۔کشمیر کے ہندو مہاراجہ نے عوام کے جذبات کا خیر مقدم کرنے کی بجائے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور انھیں پاکستان سے الحاق کے مطالبے سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اسے ناکام ہوناپڑا۔دوسری طرف قبائلی مجاہدین کشمیری مسلمانوں کی آزادی کے لیے کشمیر کی طرف بڑھے اور مظفر آباد تک پہنچ گئے جبکہ27اکتوبر 1947کو بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کردیں اور اپنی روایات برقرار رکھتے ہوئے معصوم عوام کا قتل عام شروع کردیا۔ ہری سنگھ اور غدار ملت شیخ عبداﷲ کی ملی بھگت سے کشمیر کا الحاق پاکستان کی بجائے جبری طور پر بھارت سے ہونے کی دیر تھی کہ محبان پاکستان اور محبان اسلام پر ظلم وجور کے پہاڑ ٹوٹنے لگے۔چنانچہ ایک اندازے کے مطابق اکتوبر تا نومبر 1947 ․․․․ تقریبا 5لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا جبکہ پانچ لاکھ مسلمان انتہائی بے بسی کی حالت میں آزاد کشمیر(جومجاہدین کی بدولت آزاد خطے کے طور پر دنیا میں نمایاں ہوچکاتھا)کی طرف ہجرت کرگئے۔یہ تاریخ کے وہ حقائق ہیں جب سے نظریں چرانا ممکن نہیں۔ پھر ابھی تو پاکستان بھارت کے مابین ہونے والی جنگیں،سقوط مشرقی پاکستان، پاکستان میں بڑھتی دہشت گردی، علیحدگی کی تحریکوں کو بھارت کی مالی معاونت سمیت بہت سے موضوعات ایسے ہیں جن کا احاطہ کرنا صفحات کی قلت کے پیش نظر ممکن نہیں۔ان تاریخی موجودہ حقائق سے پردہ اٹھانے کا مقصد فقط یہ تھا کہ تاریخ کا ایک طالب علم یہ جان سکے کہ ہندو اپنی فطرت میں انتہائی مکار و عیار واقع ہوا ہے۔ اور یہی عیاری اس تلخ حقیقت سے پردہ اُٹھاتی ہے کہ آخر اہل پاکستان اور گؤماتا کے پجاریوں میں اس قدر دوری کیوں ہے․․․؟
Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 119465 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.