افغان مہا جرین کی واپسی -صوبائی حکومت کا مستحسن فیصلہ
(Roshan Khattak, Peshawar)
وطنِ عزیز میں دہشت گردی
کا مسئلہ اتنی سنگین صورتِ حال اختیار کر گئی ہے کہ بچّے،بوڑھے، جوان او
خواتین سبھی فکر مند ہیں اور ہر کوئی اپنی ذہنی سطح کے مطا بق دہشت گردی
ختم کرنے سے متعلق اظہارِ خیال کرتا ہے۔خصوصا پشاور میں آرمی اسکول پر دہشت
گردوں کے حالیہ حملے نے نہ صرف حکومت کو بلکہ سیول سوسائٹی کو بھی بری طرح
مجروح اور جنجھوڑا ہے۔اور ہر کسی کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ دہشت
گردوں سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے ؟ اس سلسلے میں مرکزی حکومت کئی
اقدامات اٹھانے کا سوچ رہی ہے اور باقاعدہ ایک ایکشن پلان بنانے کے لئے
کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ پاک آرمی ان دہشت گردوں کی سر کو بی کے لئے بر سرِ
پیکا ر ہے اور جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہے، اس سلسلے میں خیبر پختونخوا
پولیس کی قربانیاں بھی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔
خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقہ جات دہشت گردی کے حالیہ جنگ میں سب سے
زیادہ متا ثر ہو ئے ہیں۔ باایں سبب خیبر پختونخوواہ عوام کے منتخب نمائیندے
،خواہ ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، اس فکرِ دامن گیر سے خالی از فکر
نہیں کہ کس طرح دہشت گردی اور دیگر پھیلتے ہو ئے جرائم سے پر قابو پایا
جائے یہی وجہ ہے کہ گذ شتہ روز صوبائی حکومت نے یہ فیصلہ کیا اور وزیرِ
اطلاعات جناب مشتاق غنی صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ افغان
مہا جرین ایک ماہ کے اندر بندو بستی علاقے سے چلے جائیں بصورتِ دیگر ان کو
زبر دستی نکالا جائیگا۔ خیبر پختو نخواہ حکومت کایہ اعلان صوبہ کے عوام کے
لئے کسی بڑی خو شخبری سے کم نہیں، کیو نکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ صوبہ خبر
پختو نخواہ میں 90فی صد جرائم میں کسی نہ کسی طور پر افغان مہا جرین کا
ہاتھ ہو تا ہے۔یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ دہشت گردوں کو سہولت ان یہ
سے ملتی ہو۔ آرمی پبلک سکول پشاور کے با لکل قریب افغان مہا جرین رہتے ہیں۔
آرمی سکول کے چاردیواری سے 50فٹ کے فا صلے پر افغان مہا جرین کی کچی مسجد،
سکول اور گھر واقع ہیں ۔ورسک روڈ پر کینٹ سے با لکل ملحقہ علاقہ میں افغان
مہا جرین آباد ہیں۔
اکثر مہا جرین پاکستان سے کھلم کھلا نفرت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اندریں
حالات دل ہلا دینے والے دہشت گردی کے واقعات کا رو نما ہونا کو ئی اچھمبے
کی بات نہیں۔
افغان مہاجرین 1980میں اس وقت پاکستان آئے جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا
تھا اور وہاں اپنے ملک میں ان کی جان کو خطرہ تھا ، اب 34برس بیت گئے ، اب
امن و امان کی صورتِ حال پاکستان سے افغانستان کی بہتر ہے لہذا اب ان کا
یہاں رہنے کا کو ئی جواز باقی نہیں رہا۔لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے بزدل
اور لالچی حکمران یو این او سے چند ڈالروں کے عوض ان افغان مہا جرین کو
پاکستان سے نکال کر افغانستان واپس نہیں بھیج رہے ہیں۔ہمیں یقین واثق ہے کہ
اگر افغان مہاجرین کو نکال دیا جائے تو دہشت گردی ، چوری چکاری اور ڈاکہ
زنی جیسے جرائم میں پچاس فی صد کمی خود بخود آ جائے گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت تمام مصلحتوں کو با لائے طاق رکھ کر
اپنی موقف پر ڈٹ جائے اور مرکزی حکومت سے پر زور مطالبہ کرے کہ افغان مہا
جرین کو اپنے وطن واپس بھیجا جائے۔افغان مہاجرین کے ایک کثیر تعداد نے یہاں
جائیدادیں بنا رکھی ہیں، جعلی شناخت کارڈ بنوا رکھے ہیں ،گھر بنائے ہیں ان
تمام کا کھوج لگا یا جائے اور جتنا جلد ممکن ہو سکے ان سے جان چھڑا لی جائے
ورنہ ان کا ہو تے ہو ئے امن و خو شحالی کا تصور د بے معنی ثابت ہو گا۔ |
|