میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں ؟

 ۱۶ دسمبر بھی عام سے دِنوں کی طرح ایک عام سا ہی دن تھا ۔دسمبر کی وجہ سے سردی بھی کافی تھی ۔کتنے پھولوں نے بستر سے اُٹھنے سے انکار کیا ہو گا ؟ کتنی ماؤں نے زبردستی کی ہو گی؟ کیونکہ اسکول بھیجنے کی جلدی جو تھی بیٹا! سوئیٹر ضرور پہننا سردی بہت ہے۔ افوہ امی! آپ ہر وقت اتنی اتنی سی باتوں پر پریشان کیوں ہو جاتی ہیں ؟ ماؤں نے ماتھا چوم کر رخصت کیا ہو گا؟ اسکول جانے کی زبردستی سے معصوم پھولے پھولے چہروں کو واپسی پر کئی چیزوں کی لالچ بھی دی ہو گی ،کئی وعدے کئے ہوں گے۔ اتنی ڈھیر ساری روزآنہ کی عام سی باتوں کے باوجود یہ دن اتنا خاص ہوا کہ ذہن کے کسی نہ کسی دریچے میں آکر آنکھوں کو با ربار چھلکائے دئیے جا رہا ہے ۔

وہ روتی پیٹتی ،سینہ کوبی کرتی مائیں ،، معصوم لاشوں پر وہ بَین کرتے الفاظ، میں نے اس لئے تھوڑی بھیجا تھا میرے لال! کہ تم واپس ہی نہ آؤ ، ایک بارآجاؤ میرا وعدہ کہ کل سردی میں نہیں اُٹھاؤں گی ،بس ایک بار۔۔ایک بار ،مگر وہاں موجود وجود ایسے سوئے کی نیند اُن کی آنکھوں سے ختم ہی نہ ہوئی۔

کوئی اُن باپوں سے پوچھے کہ اتنے معصوم ،ہلکے اور پھول جیسے جنازے اُن کے ناتواں کاندھوں کے لئے کس قدر بھاری تھے ۔لحد میں اتارتے وقت کتنے سینے غم سے پھٹے ہوں گے؟ کتنی ماؤں نے اس لمحے اپنے لئے بھی موت کی دُعا کی ہو گی،لیکن اُنھیں زندہ رہ کر ہی اس غم کو جھیلنا ہے ،ہر لمحہ ،ہر وقت ،ہر دِن ،ہر مہینہ اور ہر سال صرف یاد یاد اور یاد۔۔۔۔۔،

اس بار بھی دوسرے سانحوں کی طرح بڑی بڑی تقاریر، پارلیمانی اجلاس ، مجرموں کو جلد پکڑنے اور کیفرِ کردار تک پہچانے کے وعدے وعید ، جو اِن والدین کا غم غلط نہیں کر سکتیں ، دہشت گردی کو ئی صرف آج کا قصہ تو نہیں ، ہماری قوم نے نہ جانے کتنے بم دھماکوں میں اپنوں کے جنازے اُٹھائے ،زمین کا پیٹ بھرنے کے لئے ، مگر چند دِن کے بعد سب بھول بھال کر اپنے حال میں مست ۔۔۔۔۔صرف وہ گھرانے جن پر ایسی آفت ٹوٹتی ہے وہی اس کا نوحہ کرنے کے لئے زندہ لاش کی طرح رہ جاتے ہیں ۔

ہم ہمیشہ دیر کیوں کر دیتے ہیں ؟ کہ بعد میں صرف لکیر پیٹتے رہ جاتے ہیں یہ کر لیتے تو ایسا نہ ہوتا ،وہ کر لیتے تو ویسا نہ ہوتا ،اور تب تک پھر کوئی اِن جانور و ں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ، مگر اس بار جو ہوا اُس دِل خراش منظر اور سانحے کو پوری قوم کبھی نہیں بھولے گی ۔

اِن معصوموں کے خاموش چہرے اور پتھرائی آنکھیں ہم سے سوال کرتی ہیں ِ میرا کیا قصور تھا؟ یہ کہ میں اسکول آگیا تھا؟ یہ کہ میں پڑھ رہا تھا؟ یا کہ میں ہنستے ہنستے اپنے دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا؟ یا یہ کہ میں بچہ تھا ؟ ؟؟؟؟
ؔ میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

یہ پتھرائی آنکھیں ہم سے چیخ چیخ کر پوچھ رہی ہیں اور کتنی قربانی مانگوں گے؟ اور کتنا لہو لے کر اس زمین کی پیاس بُجھے گی؟ اب تو خدا کے لئے جاگ جاؤ اب تو اُٹھ جاؤ ایسا نہ ہو کہ پھر دیر ہو جائے اور ہم صرف یہ ہی کہتے رہ جائیں کہ:۔
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
Rubina Ahsan
About the Author: Rubina Ahsan Read More Articles by Rubina Ahsan: 18 Articles with 25851 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.