ڈٹے رہو! قوم آپ کے ساتھ ہے
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
ایک آرٹسٹ نے ایک نہایت ہی
خوبصورت اور بے عیب تصویر بنائی اور اسے شہر کے عین وسط میں چوراہے پر نصب
کردیا اور اس کے نیچے ایک تحریر لکھ دی کہ ’’اگر کہیں کوئی خامی ہوتو اس پر
دائرہ لگائیں‘‘ چونکہ اسے اپنی مہارت اور قابلیت پر اعتماد تھا اس لئے اسے
یقین تھا کہ کہیں پر کوئی نشان یا دائرہ نہ لگا ہوگا۔ اگلے دن وہ اسی جگہ
پہنچا تو یہ دیکھ کر اس کا سر چکرا گیا کہ تصویرپر جابجا دائرے لگے ہوئے
ہیں کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں پر دائرہ نہ لگا ہو۔ اسے بہت افسوس اور دکھ
ہوا اور اپنے کام کی مہارت پر شک بھی۔ اسی سلسلے میں وہ ایک دن اپنے استاد
کے پاس گیا اور اسے ساری روداد سنائی۔ استاد کو بھی اس کی قابلیت پر یقین
تھا۔ استاد نے اس سے کہاکہ وہ دوبارہ ویسی ہی ایک تصویر بنائے اور اسے اسی
جگہ پر نصب کرے اور اس پر تحریرکرے کہ’’جہاں غلطی ہو اسے درست کردیں‘‘۔
آرٹسٹ نے ایسا ہی کیا ۔ تصویر بنا کر وہاں پر نصب کرادی اور تحریر بھی لکھ
دی۔ کئی عرصہ وہ تصویر وہاں لگی رہی لیکن کہیں پر کوئی درستگی کی کارروائی
نظر نہ آئی۔
مطلب یہ ہوا کہ تنقید کرنا اور خامیاں تلاش کرنا ہمارے مزاج کا حصہ بن چکا
ہے۔اور پہلی تصویر کے ساتھ ہونے والا سلوک ہمارے مزاج کا حصہ تھا۔ لیکن جب
خامیوں کو دور کرنے اور درست کرنے کی بات آتی ہے تو سب بغلیں جھانکنے لگتے
ہیں۔بعینہ پاکستان میں فوجی خصوصی عدالتوں کا قیام اور دہشت گردوں کی
پھانسی کے حوالے سے ہورہا ہے ہر شخص دہشت گردی اور لاقانونیت کا رونا روتا
دکھائی دیتا تھا، مر گئے لٹ گئے کی دہائی سنائی دیتی تھی۔حکومت،قانون او ر
عدالتیں بے بس نظر آتی تھیں۔ جان و مال کا تحفظ عنقا تھا۔ مرد و خواتین بچے
بوڑھے سب اس عفریت کا شکار تھے ایسے میں آرمی اور حکومتی حلقوں نے ایک صحیح
اور متناسب اقدام اٹھاتے ہوئے ایک طرف ضرب عضب اور خیبرون شروع کیا اور
دوسری طرف دہشت گردی میں سزا پانے والوں کو پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ کیا
اس پر عمل درآمد کیا اور ملک میں کسی حدتک سکون ہوگیا۔ بم بلاسٹ خود کش
حملے کم ہوگئے اور یہ بھی پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ تما م
جماعتیں ،خواہ مذہبی ہوں کہ سیاسی، سماجی ہوں کہ کاروباری تمام کے تمام
عسکری اور حکومتی اقدامات کے معاملے پر ایک صفحے پر نظر آئیں۔وزیر اعظم
نواز شریف ،آرمی چیف راحیل شریف اور پارلیمانی رہنماؤں نے دس سے بارہ گھنٹے
کے اجلاس میں جو فیصلے کئے ان کے مطابق سیاسی ،عسکری اور قومی قیادت پر عزم
دکھائی دیتی ہیں۔ دوسالہ مدت پر محیط قائم کی جانیوالی آرمی کی زیر نگرانی
کورٹس کا قیام خوش آئند ہے۔ترمیم شدہ آئین پر مبنی عدالتوں کی مدد سے دہشت
گردوں کو اور ان کے معاونین کو کم سے کم مدت میں فیصلے کرکے انہیں سزادیں
گی بالخصوص پھانسی اور دہشت گردی سے متعلقہ معاملات و دیکھیں گیں سنیں گیں
اورفیصلوں کا اطلاق کرکے ان پر عمل درآمد کرائیں گیں کیونکہ ہمارا موجودہ
سست روی کاشکارعدالتی نظام ،اور اثرورسوخ کی گنجائش بھی کہیں نہ کہیں انصاف
کے حصول اور فیصلوں میں تاخیر اور رکاوٹ کا سبب بھی رہا ہے اور justice
delaid and justice denied کا مقولہ صادق آتاہے۔ جبکہ فوجی عدالتیں اس سے
ماورا ہوتی ہیں۔ایوب کے دور سے شروع ہونے والی یہ کورٹ پہلے تو صرف مارشل
لا دور میں ہی لگتی تھیں لیکن اس مرتبہ جمہوریت کے باہمی تعاون سے ان کا
نفاد کیا جانا یقینا برمحل اور بر مصلحت ہے اور اس کے نتائج بہت اچھے اور
دور رس ہونگے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح چند لوگ جس کی عادت ثانیہ بلکہ اولین عادت
بن چکی ہے کہ کسی بھی مسئلے کو سلجھاؤ کی نہج پر نہیں جانے دینا۔بس اسے
الجھانا ہے۔ایک محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ ہیں جن کا وطیرہ ہے کہ انہوں نے
ہمیشہ اسلام مخالف اور مغرب زدہ بات کرنی ہے وہ ان کورٹس کے بننے اور دہشت
گردوں کو پھانسی دینے پر بڑا مایوس دکھائی دیتی ہیں ان کا کہنا ہے کہ دو
عدالتی نظام متوازی نہیں چل سکتے ان کو چیلنج کیا جائیگا۔ ویسے بھی ظاہر ہے
ان کورٹس کی بناپر بہت سوں کا بستر گول ہوجائیگا کاروبار ماند پڑ جائیگا۔
آقاؤں کی رٹ چیلنج ہوجائیگی ان کے عزائم پر زد پڑے گی۔ پاکستان عوام کو
انصاف اور سکون ملنا انہیں نہیں بھارہا۔فضل عباسی،عابد حسن منٹو،جسٹس
ریٹائرڈ وجیہہ الدین ،حبیب الوہاب الخیری، کامران مرتضی، آصف چیمہ چودھری
رمضان سلمان اکرم راجہ شفقت چوہان و دیگر سب قانون دان کہتے ہیں کہ یہ عمل
غیر آئینی اور غیر قانونی ہے ۔ہمیں اپنے موجودہ عدالتی نظام کو بہتر اور
موثر بنانے کی ضرورت ہے۔میرے محترم قانون دان بھائیو! آج سے پہلے موجودہ
عدالتی نظام کو بہتر بنانے کاخیال کیوں نہ آیا،اب جبکہ فوجی کورٹس بننے
جارہی ہیں تو سب کو آئین و قانون کی پاسداری اور رکھوالی کا خیال ستانے
لگا۔سیدھی سی بات ہے جب مارکیٹ میں ایک دکاندار ہوتا ہے تو اس کی مناپلی
ہوتی ہے جب اس کے سامنے دوسرا آجاتا ہے تو اس کی مناپلی ختم ہوجاتی ہے گردن
کا سریہ نرم ہوجاتا ہے، عوام کو ریلیف ملتا ہے اسی طرح جب فوجی عدالتیں تیز
رفتاری سے کام کریں گی تو اس کا لامحالہ اثر ہمارے اس سست عدالتی نظام پر
بھی پڑے گا اس کی مثال آپ خود ہیں کہ فوجی کورٹس کاذکر آتے ہی آپ کو نظام
بہتر موثر اور تبدیل کرنے کا خیال آگیا۔ ایسے آئین کو عوام نے چاٹنا ہے کہ
جو آج تک روبہ عمل نہ ہوسکا۔ عوام کو جان و مال کا تحفظ اور مہنگائی و غربت
سے چھٹکارا نہ دلاسکا۔ اسی طرح مذہبی جماعتوں کی جانب سے بھی دبے دبے الفاظ
میں اس کی مخالفت میں آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں مولانا فضل الرحمن،
مولانا سراج الحق و دیگر اپنی اپنی مصحلتوں کے تحت آمادگی ظاہر کررہے ہیں
مولانا عبدالعزیز و دیگراسی قماش و قبیلے کے لوگ اسے حرام اور غلط قرار دے
رہے ہیں
رہے سیاستدان! فوجی عدالتوں کا قیام ان کے حلق میں بھی چھچھوندر کی طرح اٹک
گیا ہے نہ اگل سکتے ہیں اور نہ نگل سکتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی ہسٹری میں
کوئی بھی ایسا کارہائے نمایاں نہیں کہ جس کی بنیاد پر وہ اس کو انکار
کرسکیں انہیں ماضی میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا کہیں انہوں نے سوائے
ملک کو کھانے،عوام کو مروانے،غریب کو پسوانے اور مزدور کو روندنے کے کوئی
بھی کام کیا ہوچونکہ ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے اس لئے وہ بھی اسے بادل
نخواستہ قبول کررہے ہیں لیکن ان کے دلوں پر چھریاں چل رہی ہیں وہ اسے مارشل
لا سے تشبیہ دے رہے ہیں۔یقینا بہت سے بڑوں بڑوں کو دموں پر پاؤں بھی آئیگا۔
دل بھی بھاری ہونگے دماغ پر غشی بھی طاری ہوگی ۔threats بھی آئیں گے ۔وہ
غیر ملکی جو کہ اپنے ملک و قوم کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں عورتوں کو
انسانیت کیلئے عبرت بنادیتے ہیں ملک کے دشمنوں کو پھانسی چڑھادیتے ہیں وہ
بھی پاکستان میں پھانسی دینے کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں، یہ خود انسانیت
کے ننگ ہیں ان کی باتوں کو بھی خاطر میں نہیں لانا چاہئے ۔بہرحال کوئی کچھ
بھی کہے حکومت کو اپنے ان بہترین اور عوام دوست فیصلوں پر ڈٹ جانا
چاہئے۔اور قافلوں کو اپنی منزل پر پہنچانے کیلئے ضروری ہے کہ ارد گرد کی
آوازوں پر دھیان نہیں دینا چاہئے۔منزل کھٹن ضرور ہے لیکن اس کے بعد آسانیاں
ہی آسانیاں ہیں کیونکہ ہماری عادت تنقید برائے تنقید ہے اصلاح کا کام تو ہم
نے کرنا ہی نہیں۔ لہذا وزیراعظم نواز شریف اور راحیل شریف keep it up عوام
آپ کے ساتھ ہے- |
|