دنیا میں ہر ملک ہر قوم پر مشکل
وقت آتے رہتے ہیں ان مشکل اوقات میں جو قومیں ملی یکجہتی کا کا ثبوت دیتے
ہوئے ثابت قدمی سے اس مشکل کا سامنا کرتی ہیں ایسی قومیں ہمیشہ تاریخ میں
زندہ رہتی ہیں ایسی قوموں کو کھبی بھی زوال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تاریخ
اٹھا کر دیکھ لیں جب بھی کسی قوم نے ملی یکجہتی ،اور اتحاد کو پس پشت ڈالا
وہ قوم صرف تاریخ کی کتابوں کے اوراق کی ہو کے رہ گئی سانحہ پشاور سے پہلے
پاکستانی قوم گوں مگوں کی کیفیت کا شکار تھی ہر ادارے اور ہر سیاسی جماعت
کے اپنے اپنے مفادات تھے کسی کو بھی ملکی مفادات نظر نہیں آ رہے تھے اگر
کوئی جماعت حکومت میں تھی تو اس کو بھی ان حالات کا ادراک نہیں تھا کہ کیا
کچھ ہونے والا ہے حکومت اس میں سب سے زیادہ قصور وار ہے جو ان حالات سے بے
خبر تھی اگر باخبر ہو تی تو شاید اس دہشت گردی کے واقع کو ہونے سے پہلے روک
پاتی چلیں روکنا مشکل تھا تو کم از کم اس کے اثرات کو اور اس کے نقصانات کو
تو کم کیا جا سکتا تھا جس سے سینکڑوں ماؤں کو خون کے آنسو رولانے سے بچایا
جا سکتا تھاسینکڑوں بچوں کو پاکستان کا مستقبل بنانے کے لئے زندہ رکھا جا
سکتا تھا سینکڑوں بچوں کو ملکی خدمت کا موقع دیا جا سکتا تھا مگر ہمارا
المیہ ہمیشہ سے ہی یہی رہا ہے کہ ہم اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب پانی سر سے
گزر چکا ہوتا ہے تب ہمارے ہاں پالیسیاں بنائی جاتی ہیں تب ہمارے ہاں قوانین
کو لاگو کیا جا تا ہے تب ہمارے ہاں اداروں کو متحرک کیا جاتا ہے مگر کیا
کوئی ان ماؤں کے بچوں کو واپس لا سکتا ہے جو صبح کو سکول جانے کے لئے گھر
سے نکلے تھے کیا کوئی ان والدین کے دکھ کو بانٹ سکتا ہے جن کاصرف ایک ہی
بچہ تھا ایسا تو کوئی بھی نہیں کر سکتا کیونکہ تکلیف اسی کو ہوتی ہے جس کا
کچھ کھو جائے باقی لوگ صرف تعزیت ہی کر سکتے ہیں تمام اقوام عالم میں کوئی
نہ کوئی دن کسی نہ کسی خاص مقصد کے لئے مخصوص ہوا ہوتا ہے جیسے بچوں کا
عالمی دن، بوڑھوں کا عالمی دن ، خواتین کا عالمی دن وغیرہ پاکستان کے علاوہ
باقی تمام ممالک کے لوگ اس دن اس مخصوص دن کو بیٹھ کر دیکھتے ہیں کہ ہم نے
اس مخصوص دن کے لئے گزشتہ سال کیا کام کیا مگر ہم لوگ اس دن بیٹھ پر دو چار
سیمینارمنعقد کر کے دو چار مزاکرئے منعقد کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اس دن
کو منانے کے تقاضے پورے کر لئے جس کی وجہ سے آ ج ہماری حالت سب کے سامنے ہے
ہماری پالیسیوں میں کوئی تسلسل نہیں ،ہمارے قوانین اتنے کمزور ہیں کہ کوئی
بھی اپنی طاقت کے بل بوتے پر ان کو تروڑ مروڑ لیتا ہے حالات اس وقت تک ٹھیک
نہیں ہو سکتے جب تک نیچے سے اوپر تک اور اوپر سے نیچے تک تمام امور کو ٹھیک
نہ کر دیا جائے -
سانحہ پشاور کے بعدجس طرح سے دہشت گردوں کو سزائے موت دینے کا سلسلہ شروع
کیا گیا اور اس سزا کی فوری طور پر بحالی پر حکومت اور سیکورٹی کے تمام
ادارے ایک پلیٹ فارم پر نظر آئے اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اگر ان دہشت گردوں
کو یوں ہی سزا ملتی رہی تو پھر شاید اس لعنت پر قابو پانے میں خاصی مدد مل
سکے اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام سزائے موت کے قیدیوں کو ان کے جرائم کے
مطابق سزا دی جائے ان میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہ کی جائے اور اس سزا کو
مغربی ممالک کے دباؤ میں آتے ہوئے موخر نہ کیا جائے کیونکہ سزائے موت کا
قانون مغربی ممالک کے دباؤ کی وجہ سے کافی عرصہ تک اس طرح سے لاگو نہیں کیا
جا سکا جس طرح ماضی میں ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے ہم کئی طرح کے مسائل کا
شکار رہے جیسا کہ من و امان کا مسئلہ ،قتل غارت گری جیسے کے سانحہ پشاور
میں نظر آئی جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ چوری ڈکیتی ، سٹریٹ کرائم
، ان سب کی بڑی وجہ ان قوانین کو رائج نہ کرنا بھی ہے کیونکہ جب کسی مجرم
کو سزا نہیں ملے گی اس وقت تک کوئی بھی ان سے عبرت حاصل نہیں کرئے گا اور
جب تک عبرت نہیں ہو گی تب تک معاشرے میں سے ایسے ناسور کو ختم کرنا مشکل ہی
نہیں بلکہ ناممکن رہے گا ان تمام سزاؤں کا بڑا مقصد یہی تھا کہ جو لوگ ان
جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ان کو جب سزا ملے گی تو دوسرے تمام لوگ اس سے
عبرت حاصل کریں گے اور اس طرح معاشرے میں امن و سکون قائم ہو گا مگر جب سے
سزائے موت کے قانون کو پس پشت ڈالا گیا جرائم کرنے والے لوگ یہ سمجھنے لگے
کہ اب تو ان کے لئے برے سے بڑا جرم کرنا کوئی مشکل نہیں کیونکہ تمام سزاؤں
میں سب سے کڑی سزا موت ہے اس طرح جرائم پیشہ افراد کی تعدادد بڑھنے لگی جس
کی وجہ سے حالات آج اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ تمام صوبوں میں کرائم کی شرح
ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ہے دہشت گردی عام ہے انھیں جرائم کی وجہ سے آئے دن
لوگوں کا ناحق خون کیا جا رہا ہے ۔
سانحہ پشاورپر جس طرح تمام سیاسی جماعتوں اور تمام معزز اداروں نے جس ملی
یکجہتی کا ثبوت دیا اس کو اگر برقرار رکھا جائے اور تسلسل کے ساتھ ایسے
فیصلے کیے جائیں جن سے دہشت گردی جیسی لعنت پر قابو پانے میں مدد مل سکتی
ہے تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں بھی امن و سکون قائم ہو گا جب یہاں کا
ہر ہر فرد محفوظ ہو گا یہی وقت ہے کچھ کرنے کا اور اگر اس ناسور کو آج ختم
نہ گیا تو تو پھر شاید کھبی بھی ہم اس کو ختم کرنے کی پوزیشن میں نہ رہیں
اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم قومی یکجہتی اور اتحاد کو برقرار رکھیں اور اپنے
درمیان کسی کو بھی گھسنے کا موقع نہ دیں ۔ |