آر ایس ایس،مسلمان کل اور آج!

ہندوستان کو آزاد ہوئے ۶۷ سال ہوچکے ہیں، آزادی کے بعد یہاں کے عوام نے جمہوریت کو پسند کیا، جو انصاف پر مبنی ایک ضابطہ بابا صاحب امبیڈکر نے اہلِ ہند کو دیا، اس کے باوجود اقلیتوں کیحالت زار پر سب غمزدہ اور افسردہ نظر آتے ہیں، آبادی کے تناسب میں اضافہ ضرور نظر آتا ہے، مگر ترقیات ، سیاسیات ، معاشیات ودیگر میدانوںمیں کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ قوم کی فلاح وبہبود کے لئے ہزاروں کوششیں ہورہی ہیں ، لاکھوں تنظیموںنے قوم کی پستی دور کرنے کا ٹھیکرا اپنے سر لے رکھا ہے ، حکومت کی معاونت بھی ان سرکردہ تنظیموں کے ساتھ ہے۔جو معاشیات کو دور کرنے کے لئے کوشاں رہی ہیں۔ سیاسی شاہراہ سے سینکڑوں اقلیتوں کی سیاسی جماعتیں میدان میں آئیں اور چلی گئیں، جسکا سیاسی اور سماجی نقصان اقلیتوں کو بڑے پیمانے پر ہوتا چلا آرہاہے۔

علامہ مشرقی کی ایجاد کردہ خاکسار تحریک اٹھی، جسکو ولولہ انگیز تحریک کہا جاسکتا تھا ۔ وہ جب ’’چپراس ‘‘،’’چپراس‘‘ کے بلند آوازنعرے لگاتے ہوئے نکلتے تھے، تو نعروں کی گونج سے دھرتی دہلتی تھی، خاکی وردی میں ملبوث ، بیلچے کندھوں پر لگائے ہوئے ، جیسے کہ کاندھوں پر رائفل لگائی ہوئی ہوں گشت کرتے تھے ۔ ان سے پو را ہندوستان گونج اٹھا ، اس وقت کا ہندو چونک گیا۔ گشتیوں کو دیکھ کر وہ گھبرا جاتے تھے ’’یہ کیا آرہا ہے‘‘ لہٰذا اسی رد عمل میں آر ایس ایس قائم ہوئی۔ پھر انہوںنے گلی گلی محلے محلے اکھاڑ کھولے، جگہ جگہ ورزشیں کروانا شروع کیں، طرح طرح کے مقابلہ شروع کیئے، ان کے سیٹھ لوگ نوجوانوں کو انعامات تقسیم کرتے تھے، گویا ہر طرح کی حوصلہ افزائیاں چہار سوہوتی تھیں۔ یہ صرف خاکسار تحریک کا رد عمل تھا۔ اس سے پہلے ہندو سویا ہوا تھا۔ خاکسار تحریک آندھی کی طرح اٹھی اور بلبلے کی مانند ختم ہوگئی۔ Brotherhood in suffron(جو آر ایس ایس پر تحریر کردہ کتاب ہے ) کے مطابق ۱۹۸۰ء میں پچیس لاکھ ممبران آج سے ۳۴ سال پہلے بن چکے تھے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو نعرے لگاتے رہے ہیں کہ مسلمان کے دومقام پاکستان یا قبرستان ۔

آر ایس آرایس کی اس محنت نے اب تک دو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی، نریندر مودی کی شکل میں ہندوستان کو دئے ہیں۔ گوڈسے کے مجسموں کی جگہ جگہ تعمیرات ہونے جارہی ہیں، کچھ لوگ نقض امن کا خدشہ بھی بتا رہے ہیں۔ لیکن جو لوگ نقض امن کے خدشات کا اظہار کررہے ہیں کیا ان لوگوں نے کبھی ہند کے باپو کی محبت کا اظہار کسی عدالت میں کیا؟ یقینا نہیں کیونکہ ان کی جہد مسلسل نے ہندوستان کے ہر شعبہ پر قبضہ جمایا ہوا ہے، ہر محکمہ میں انکے افسران موجود ہیں۔جب تک افضل گورو کو فضول میں پھانسی نہیں دلوائی گئی تب یہ بھاجپئی چین کی نیند نہ سو سکیں، انکے خواب میں بھی افضل گورو نظر آتا تھا، کانگریس کی ناک میں دم کر رکھا تھا، برے برے قصیدے سونیا پر پڑھے جانے لگے تھے، حد تو تب ہوگئی جب سنگھیوں نے افضل گورو کو سونیا کا داماد کہہ دیا۔ افضل گورکو پھانسی دینا یقینا ہندوستانی جمہوریت پر ایک بدنما داغ ہے ۔ ایسے بے قصور کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا جسکو ڈیفنس تک کا حق نہیں دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے یہ کہہ پھانسی پر لٹکا نے کا حکم جاری کردیا’’کیونکہ پارلیمنٹ پر حملہ ہندوستانی جمہوریت اور ہندوستانیوں پر حملہ ہے۔لوگوں کے ضمیر کی تسکین صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ افضل گورو کو پھانسی دی جائے‘‘۔یعنی ضمیروں کی تسکین پر ہماری عدالت کسی فیصلہ پر پہنچتی ہے، باوجود کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے۔ ایسی بیش بہا مثالیں عوام کے سامنے رکھی جاسکتی ہیں ، جن فیصلوں کی بنیاد سنگھی ذہنیت کے لوگ ہر محکمہ میں کار فرماں رہے ہیں۔

یہاں یہ سوال سب سے بڑا کھڑا ہوتاہے،کہ ان کے پاس وہ کون سا معجزہ تھا جس سے یہ لوگ آج تک نہ صرف قائم ہیں بلکہ انکی ذیلی تنظیمیں بھی سرگرم نظر آتی رہی ہیں۔ ہندوازم میں کوئی بھی سبیل اتحاد اور اتفاق کی نظر نہیں آتی ، جاتی واد، ذاتوں کی بنیاد پر مطابقت ، ایسی چیزیں ہیں جن کی بنیاد پر کسی کا یکجا ہوناناممکن ہوتاہے۔ اس کے باوجود ایک خاص تعداد میں ایک زمانہ سے سرگرم ہیں ، یقینا اس کی بنیاد کہیں نہ کہیں پختہ ضرور ہوگی ۔ ہندوستان کی تاریخ ہمیں اس کی طرف رہنمائی کرتی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے یہاں فلسفی، اسکولر، سیاست داں، مفکر، اور بادشاہ ہوا کرتا تھا جو اشوکہ کے دور میں پایا جاتاتھا ، چانکیہ ، چانکیہ کی نیتی مکاری، فریب پر مبنی ایک نیتی اور طریقہ کار ہے۔ جس کو انہوں نے اپنی بنیادی میں رکھا اور آ ج کی سیاست، آج کی حکومت اسی نیتی پر عمل پیرا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ وہ مفکر تقریبا ڈھائی ہزار سال قبل اشوکہ سلطنت میں وزیر کی حیثیت رکھتاتھا اس کے بعد وہ بادشاہ بھی بنا۔ لیکن اس کی تحریریں سیاست کے میدان میں ، معاملاتی مسئلہ میں، رہن سہن کے معاملات میں، اس طرح رہنمائی کرتی نظر آتی ہیں جیسے یہ تو اسی وقت کا مفکر ہے ، اور ابھی زندہ ہے۔ ایسا صرف اس وجہ سے محسوس ہوتاہے کہ ہندوستانی اکثریت نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا ہے، اس کی ایک ایک بات پر ریسرچ کرتے ہیں، اسکو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائے ہوئے ہیں ۔

آئینہ کا دوسرا رخ بالکل برعکس نظر آتاہے ، ایسا محسوس ہوتاہے کہ آج کا ہندوستانی مسلمان صرف ۱۵۲ آیات کو اپنی بنیاد بنائے ہوئے ہے۔ دیگر آیات تو شاید کسی اور ہی کے لئے نازل ہوئی تھیں۔ اگراللہ کو ۱۵۲ آیات پر ہی عمل کروانا مقصود تھا ، تو پھر دیگر کی ضرورت ہی کیاتھی؟ایک رٹو طوطا جو آپ سکھا دیں گے وہ بولے گا، لیکن وہ جو بولتا ہے کیا اس کو اسکا فہم بھی ہے؟ اس سے ہر عاقل انسان واقفیت رکھتاہے۔ بہر حال قرآن کی دولت کو ہم نے اپنے گھر کی مرغی دال برابر ہی سمجھا ہے۔نہیں تو چانکیہ جیسی فریب ، مکاری ، دھوکہ بازی پر مبنی نیتی کسی کام کی نہیں تھی۔ کیا چانکیہ نیتی نعوذ باللہ قرآن سے افضل اور اعلیٰ برکات کی حامل ہوسکتی ہے؟ کیا ایک انسانی تجربہ ، قیامت تک کے لئے کسی کی رہنمائی کرسکتا ہے ؟ان سب کے باوجود اگر آج آ ر ایس ایس یا اس کی ذیلی تنظیمیں اقلیتوں پر مسلط کر دی گئی ہیں۔ پھر اس میں رونا دھونا نہیں ہونا چاہئے ۔ اس کا جواب بھی قرآن دیتا ہے۔ تبدیلی مذہب کی کوئی سبیل ہندوازم میں نہیں پائی جاتی ۔ تبلیغ کا کوئی مقام ہندوازم میں نہیں ہے۔

آج ہندوستان کی صورت حال ایسی ہی ہے جیسے آج سے ۱۴۰۰ سال پہلے تھی، کہ ایک طرف مدینہ ، دوسری طرف مکہ ، مکہ کے مشرکین کی ہر طرح سے تعاون خیبر کے یہودی اس لئے کررہے تھے کہ وہ مسلمانان مکہ کا جینا دشوار کردیں، انکی زندگیاں تباہ کردیں۔ اس صور ت میں اصلی پلانر اور ایجنڈہ خیبر کے یہودیوں کا تھا۔ چونکہ یہودیوںنے مشرکین مکہ سے معاہدہ کرلیا تھا اور ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔ لہٰذا مشرکین مکہ نے جہاں ایک طرف اپنے عقیدوں کو بنیاد بنایا ہوا تھا وہیں دوسری طرف یہودیوں کا فریب بھی شامل تھا۔ اس کے بالمقابل مشرکین مکہ کے خلاف مسلمانوں کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی ، انہوںنے خیبر کو ہدف بنایا جس کے تعاقب کے چند سالوں کے مکہ خود بخود فتح ہوگیاتھا۔

فلسطینیوں پر مظالم کی انتہا ہوگئی، ظلم وبربربریت اسرائیلیوں نے ناحق خون بہا کر، معصوم کی بلی دے کر تاریخ رقم کررہے ہیں۔ انسانیت کے رشتہ سے ہندوستانی عوام نے اپنے جذبات کا اظہار سڑکوں اور جگہ جگہ مظاہرے کرکر کیا۔ ہندوستان کا کوئی حصہ باقی نہیں رہ گیا تھا ،جہاں اسرائیل کے ظلم وجبر کے خلاف مظاہرے نہیںہوئے ۔ اس موضوع پر پارلیمنٹ میں معروف حیدر آباد کے ایم پی چلا چلا کر دھاڑ دھاڑ کر چیختا رہا، ’’سر فلسطین سے ہمارے رابطے بہت استوار رہے ہیں، سر ہماری سابقہ وزیر اعظم فلسطین سے بڑی عقیدت رکھتی تھیں، سر اندرا گاندھی کو یاسر عرفات بہن کہا کرتے تھے، سر وہاں معصوموںکا قتل عام ہورہاہے، سرانسانیت کے ناطے حکومت ہند سے ہمارا مطالبہ ہے کہ انکے لئے کچھ نرم گوشہ رکھا جائے اور اسرائیل کو معصوموں پر اس زیادتی سے دور رکھا جائے، وگر نہ ہم ہندوستانی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ سفارتی تعلقات اسرائیل سے ختم کریں‘‘ ۔ لیکن افسوس صد افسوس بتمام عاجزانہ کوششوں کے باوجود پارلیمنٹ میں کسی کے اوپر جوں تک نہیں ریں گی۔

پاکستان پشاور آرمی اسکول پر حملہ کی مذمت پور ی دنیا کررہی ہے، یہ اپنی نوعیت کا دنیا کی تاریخ میں پہلا سانحہ مذمت کرنے والوں کو نظر آتاہے۔پچھلے دنوں مستقل فلسطینی اسکولی بچوں کو نشانہ بنایا گیا ،سینکڑوں لو گوں کا قتل عام ہوا، جو آج بھی جاری ہے ،کیا یہ لوگ عراق میں پیدا ہونے والے بچوں کو بچہ نہیں سمجھتے، افغانستان کے بچوں کو بچہ نہیں سمجھتے، سیریا کے بچوں کو بچہ نہیں سمجھتے اس وقت ذرائع ابلاغ کا دوہرا معیار واضح ہوجاتاہے، اور ہو بھی نہ کیوں جسکی بنیاد اسلام دشمنی پر قائم ہے،اسلام کی تباہی ان کا مقصود ہے، اسلام کی توہین ان کا معمول ہے، اسلام کی بدنامی مہدوف ہے۔ اگر وہ اپنی بنیادوں ، اپنے مقصود، معمول، اور مہدوف پر قائم ہیں ۔

درحقیقت ان سب پہلوئوں پر غور کیا جائے تو یہ صاف ہوجاتاہے کہ ہندوستان کی اکثریت نے ان تمام احسانات کو بھلا دیا ہے، جو ان پر کئے گئے جن سے وہ بذات خود بھی واقف ہیں، ٹیپو سلطان ؒ نے نہ صرف ستی پرتھا جیسے نظام کو تہس نہس کیا بلکہ جمہوریت کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیا جسکی شاہکار ملنا مشکل ہے KERLA UNDER TEPUکے مطابق کیرلہ کے ساٹھ مندروں کو سلطان نے سالانہ وظائف جاری کئے ہوئے تھے، بے شمار مندروں کو زمینیں مہیہ کرائیں، میسور کے سرنگنا پٹنم کی مندروں کے لئے کی گئی خدمات آج بھی مرقوم ہیں ۔ ذات پات ، اونچ نیچ کو ختم کرکے برابری درس انہیں لوگوں کو دیا تھا۔ان سب کے باوجود آج سیاست نظریاتی سیاست بن چکی ہے، ایک طبقہ جو خالص ہندوازم کی ترویج و تدوین کررہاہے، ہندوستان کو اکھنڈ بھارت کے روپ میں دیکھنا چاہتاہے۔
کیا وقت ہے ،ہم وقت کے قدموں میں پڑے ہیں
بونوں کو ہمیں کہنا پڑا آپ بڑے ہیں

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتاہے۔ اسلام کی آمد کا پس منظر کا درس ان ہندتوا تنظیموں اگر پڑھیں تو آئینہ میں صرف مایوسی ہی مایوسی ملے گی۔ کیونکہ راجہ داھر سے کون واقف نہیںہوگا ، جو اپنے وقت کاظالم و جابر بادشاہ رہاہے، خواتین کی عز ت و آبرو سے کھلواڑ کرنا اس کا مشغلہ تھا۔ مسلمان تاجر تجارت کی غرض ہندوستان کی سرحدوں سے ہوتے ہوئے مختلف جگہوں کا سفر کیا کرتے تھے۔ جہاں راجہ داہر گزرنے والی خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور انکی عزتوں سے کھلواڑ کرتا تھا۔ یقینا ظلم زیادہ دن تک نہیں چلتا ۔ راجہ داہرکی شکایت سلطان صلاح الدین ایوبی تک پہنچی جنہوںنے اپنے بھتیجے محمد قاسم کو راجہ داہر کے تعاقب کے لئے بھیجا ۔ انہوں نے نہ صرف راجہ داہر کے قبضے سے خواتین کو محفوظ کیا بلکہ یہاں کے عوام کا انہوںنے من موہ اور دل جیت لیا۔ جس کے سبب یہاں کے عوام نے انہیں فرشتہ تک کہا ان کی مورتیاں تک بنائیں، اور اس طرح سے اسلام کی ابتدائے آفرینش ہوئی۔

مرکزی حکومت نے ہر اس شخص کو انعام دیا جس نے تھوڑابھی اقلیتوں کو نقصان پہنچایا، جس نے جتنا جانی مالی نقصان دیا اتنا اس کو نوازہ گیا۔گجرات فسادات ، مودی جی وزیر اعظم، گجرات فسادات، امت شاہ جی بی جے پی صدر، گورکھپورسانحات آدتیہ یوگی ناتھ جی ، یوپی ضمنی انتخابات کمان۔ ایسی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں، یہاں تک کہ مہاراشٹر میں مسلم انجینئر کے قاتل کو بھی ایوارڈ دیا گیا۔

اقلیتوں کے ساتھ مجبوری یہ ہے کہ وہ اپنے دل کو صرف یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ ہمارے یہاں قیادت کی کمی ہے کوئی قائد نہیں جسکی وجہ سے ہم پسپا ہیں، ہماری حالت خستہ ہے ۔ در حقیقت بات یہ ہے کہ آج قیادت کی کمی بالکل نہیں ہے ، قیادت کو قبول کرنے والوں کی کمی ہے۔مذکورہ باتوں اور خاکوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے،اقلیتیں ہندتوا تنظیموں پر افسوس کرنے اور تنقید کرنے کے بجائے ان تک صحیح علم پہنچائیں ان سے براہ راست ان موضوعات پر بات کریں کہ انسان ، انسان ہیںسب کچھ ایک جیسا ہے اس سے دوری بنانا کسی حد تک مناسب نہیں ہیں آئو ہم سب ساتھ ملکر عہد کرتے ہیں کہ ہندوستان کو سپر پاور بنائیں گے،نفرت کی سیاست سے دور رہیں گے۔ کیونکہ ہندوستان امن وامان ، پیار محبت کا مرکز رہاہے ، اس میںنفرت اور شر انگیزیوں سے کوئی کامیاب نہیں ہوسکاہے۔

Abdul Aleem Rasheed
About the Author: Abdul Aleem Rasheed Read More Articles by Abdul Aleem Rasheed: 3 Articles with 1903 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.