دل کرتا ہے کہ جو دل و دماغ میں ہے سب کچھ انڈیل دوں مگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔!دکھڑا کہاں سے شروع کروں؟کس کس کا ماتم کروں ؟سمجھ میں نہیں
آتا۔میری دھرتی کے پیروجوان باہم دست گریباں ہیں،چار سو مایوسی ، بے چینی،
افراتفری، اضطراب،بددیانتی، کسمپر سی ، بدحالی و بیماری ،میرٹ کی پامالی
اور کرپشن کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ جس کے ہاتھ میں خنجر اور کلاشن کوف ہو وہی
اپنی بات منوائے اور وہی سپید و سیا ہ کا مالک ہے، مگر سوال یہ ہے کہ
کلاشنکوف اور اسمبلیوں کو اڑانے کیلئے بم کہاں سے آتے ہیں؟یہ کیوں نہیں
بتایاجاتا ہے نہتے اور غریب عوام کو؟سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ امپورٹڈ ہیں
یا ایکسپو ٹڈ؟ اہل اقتدار لوگوں کی خواہشوں اور امنگوں سے بے پروا ہوکر صرف
اپنا مستقبل محفوظ کرنے میں مصروف کیوں نظرآتے ہیں؟
قارئین! مانا کہ مذہب ازم کے اثرات و واقعات کے نتائج کارا مد ثابت نہیں
ہوئے مگر سیکٹرازم، علاقہ ازم، زبان ازم اور قبائل ازم کا کیا علاج کیا
جائے؟ تسلیم ہے جی کہ !مسجد و منبر کے داعیان کی وجہ سے حالات مخدوش ہورہے
ہیں مگر یہاں تو اسمبلی میں بیٹھ کر قانون سازی کی گھتیاں سلجھانے والے سیخ
پاہیں اور مر نے مارنے پرتلے ہوئے ہیں اور وہ دھمکیاں دے رہے ہیں جو
القاعدہ والے بھی امریکہ کو نہیں دیتے۔ افسوس اس بات کا نہیں کہ گلگت
بلتستان اسمبلی مچھلی بازار بنی ہوئی ہے مگر دکھ اس بات کا ہے کہ قانون
نافذ کرنے والے ادارے، انصاف دینے والی کرسیاں، حالات کی رپورٹنگ کرنے والی
ایجنسیاں اور حکمراں طبقہ کیوں خاموش ہیں؟ ان کے لب ہلتے کیوں نہیں ہیں؟
اصل حقائق سامنے کیوں نہیں لائے جاتے ہیں؟ سب کوجان کے لالے کیوں پڑتے ہیں؟
کھوکھلے نعرے لگانے والے تلخ حقائق کا ادراک کیوں نہیں کرتے ہیں؟ جن کو
ادراک ہے ان سے استفادہ کیوں نہیں کیا جارہا ہے؟گراونڈ ریالٹیز کو کیوں نظر
انداز کیا جاتا ہے؟باشعور اور سمجھدار سیاسی لیڈر شب کو کیوں نظر انداز کیا
جاتا ہے؟ مشاورت کا عمل کیوں کٹھالی میں پڑا ہو ا ہے؟ ماناکہ گلگت بلتستان
کا میڈیا اتناUp-date نہیں مگر اتنا بے بہرہ بھی تو نہیں، توپھر کیوں اصل
حقائق منصہ شہودپر نہیںلائے جاتے ہیں؟ منظردھندلایا ہوا ہے۔ انتقام اور
نفرت کی سیاست جو بن پر ہے تمام علاقائی کنٹرول چند سر پسند عناصر کے ہاتھ
میں ہے جو دل چاہیے وہی کر گزرتے ہیں۔ مختلف گروپوں کو تیروتفتگ کی ٹریننگ
دینے کیلئے فنڈ کہاں سے آتا ہے؟ مرکزی اور مہنگی زمینں خرید کر اجارہ داری
کیوں قائم کی جارہی ہیں؟ ہر سرکاری و غیرسرکاری ادارے کو کیوں یر غمال بنا
یا ہوا ہے؟ اس پر مستزاد تیر وتفنگ اور توپ و ٹینک ، سب و شتم اور لعن و طن۔۔۔۔۔۔
عجب طرفہ تماشہ ہے کہ معصوم بچے کے لہو کی بھی لاج نہ رکھ کر، خون آشام
سیاست کرکے اقتدار کی راہداریوں میں براجمان بڑے سرکار کیوں کردار ادا کرنے
سے قاصر ہے؟ اور جن اداروں کا نام لیکر ان کی کارکردگی کا ذکر کرنا تختہ
دار کو گلے لگانے کے مترادف ہے وہ کیوں تماشائی بنے بیٹھے ہیں؟ کیا اس خو
نی کھیل کا وہ خود حصہ تو نہیں؟ ہر ایک ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا کے بزعم خویش
کیوں مسیحا بنا بیٹھا ہے، کیا وہ اپنے مخصوص خول سے نکل کرانسانیت کی
بنیادوں پر نہیں سوچ سکتا؟ امن اور یکجہتی کے نام پر ووٹ لینے والے کیوں
ببانگ دہل امن کو تاراج کر رہے ہیں؟ اور یکجہتی کی دھجیاں اڑا رہے ہیں؟نا
طقہ سربیگریباں ہے کیا کہیں۔
یہ بات درست ہے کہ اختلاف ِرائے جمہوری معاشروں کی تعمیرو ترقی کیلئے نئے
نئے راہ دکھلاتا ہے اس لئے تو اختلاف ِ رائے کو خیرکا باعث قرار دیا گیا ۔
اختلاف وہ جو اصولوں پر مبنی ہو، مخالفت برائے مخالفت نہ ہو۔ بدقسمتی سے
گلگت بلتستان میں اس سوچ کے حامل شایدیہی دو چارلوگ ہوں۔ وہاں تو سیاست میں
زیادہ ترذاتی مفادات کا عنصر حاوی ہے۔ جس کی وجہ سے امن وامان اور جمہوری
اقدار وہ برگ بار نہیں لا سکی جو باسیان گلگت بلتستان کے لئے ناگزیر ہے۔
گلگت بلتستان کے تمام سیاستدان بڑی اصولی اور اچھی باتیں کرتے پھر رہے ہیں
اور مذہبی لیڈربھی قوم کے غمگسار دکھائی دیتے ہیں۔ امن اور تعمیر و ترقی کے
راگ الاپتے نہ تھکتے ہیں مگر ان کا عمل بالعموم مختلف ہوتا ہے۔ سیاسی و
مذہبی لیڈروں اور اسٹیبلشمنٹ کے کالے بھجنگوں کے قول و فعل میں تضاد کی وجہ
سے پوری قومی زندگی متاثر ہے ۔ لوگوں میں بے چینی اور اضطراب غالب ہے۔
اس میں دورائے نہیں کہ مفاہمت کی پالیسی اور مل جلکر علاقائی معاملات کو
سلجھانا اصولی طور پر قابل ِ تعریف مدبرانہ عمل ہے۔ مگر یہ کام ذاتیات
اورمسلکی و گروہی مفادات سے بالاتر ہونا چاہیے۔ اس کیلئے حکومت ، اپوزیشن
اور تمام مذہبی و علاقائی لیڈروں کا فرض بنتا ہے کہ وہ قانون کی پاسداری کا
سختی سے پابندی کر یں۔ اگر تمام پارٹیا ںاور ان کے لیڈر نیک نیتی سے خوف ِ
خدا اور خوف ِقانون اور علاقائی و اسلامی روایات کی پابندی کر یں تو کسی کو
کسی سے سٹرکوں اور گلیوں میں لڑنے یا اسمبلیوں کے ایوانوںکو تماشا گاہ
بنانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ خوف ِ خدا اور خوفِ قانون زندگی کا جزلاینفک
اور منشور کا لازمی حصہ ہو۔ تب دیکھیں، امن کی آشاکیسے پابہ رکاب نہیں ہوتی
ہے۔
روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد کی ایک خبر گزشتہ کئی دنوں سے میرا پیچھا
نہیں چھوڑ رہی ہے۔ جس کی طرف توجہ سینئر صحافی عبداللہ صاحب نے کرائی،اور
ہمارے بزرگ حاجی سمیع اللہ صاحب سابق چئرمین زکواة و عشر پاکستان کی دلی
خواہش ہے کہ جلد از جلد ان سازشوں کو طشت ازبام کیا جائے۔ خبر کی تفصیل کچھ
یوں ہے کہ '' گلگت بلتستان کو الگ کرنے کی سازش ، واشنگٹن میں علیحدگی
پسندوں کا خصوصی اجلاس ، اجلاس میں پیپلز پارٹی کی سابق رکن ملکہ بلتستانی
نے بھی شرکت کی۔ واشنگٹن میں امتیاز حسین گلگتی نامی شخص متحرک ہے۔ جس نے
4فروری کو جان ہایکنز یونیورسٹی واشنگٹن میں ایک فورم کا انعقاد کیا جس کا
موضوع گلگت بلتستان میں چین کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ تھا۔ بھارتی کشمیری
ممتاز خان ایکزیکٹیوڈائریکٹر، انٹر نیشنل ڈایکٹر فارپیس اینڈڈیموکریسی نے
پاکستانی قوم اور فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور جنوری میں ہونی والی ایک
خفیہ میٹنگ میں پاکستان سے آئی ہوئی پیپلز پارٹی کی سابقہ سرگرم رکن ملکہ
بلتستانی سرفہرست ہے جنہوں نے اجلاس سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے گلگت بلتستان
کی علیحدگی کا نعرہ لگایا ،وہ اپنے گو رنر نہ بنائے جانے پر سخت مایوس ہیں۔
نیویارک میں مقیم چند پاکستانی لوگ اپنے اپنے مفادات کے باعث پاکستان دشمنی
کے راستے پر چل پڑے ہیں(4مارچ 2011)۔
قارئین آپ نے اندازہ لگایا کہ دھرتی بے اماں کے بارے کہاں کہاں سازشیں
ہورہی ہیں۔ ملکہ بلتستانی سے انتہائی ادب و احترام کے ساتھ عرض ہے کہ کیا
وہ اپنی جوانی کے حسین ایام اور دورِ شباب کو بھول گئی ہیں جس کی ساری
توانائیاں پیپلز پارٹی کیلئے وقف ہواکرتیں تھیں۔ اور پیپلز پارٹی و فاق کی
علامت ہوا کرتی ہے آج بھی۔ کیا ذوالفقارعلی بھٹو اور پیپلز پارٹی کے ساتھ
بیتے دنوں کی حسین یادیں اسطرح فراموش کی جانی چاہیے ؟ لیاقت انٹر نیشنل
لائبیر یری کراچی کے آڈیٹوریم ہال میں ایک پروگرام میں محترمہ ملکہ
بلتستانی بطور چیف گیسٹ مدعو تھیں۔ مجھے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے
کیلئے آخر میں ملکہ سے پہلے بلایا گیا تھا۔25منٹ کے لگ بھگ تقریر میں،میں
نے گلگت بلتستان کی تمام صورتحال سامعین کے سامنے رکھی تھی ۔ میں نے جنگ
ِآزادی گلگت بلتستان کے تاریخی ہیروز بالخصوص قاضی عبدالرزاق مرحوم اور
انکے تلامذہ اور صوبیدار بابر خان کی لازوال خدمات کو تفصیل سے دلائل و
براہین کی روشنی میں بیان کیا تھا اور میرے بعد محترمہ نے 4دفعہ نام لیکر
میری تائید کی تھی اور کہا تھا کہ '' جنگ ِ آزادی کا منظر محترم حقانی نے
جس خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے وہ اسی کا ہی خاصہ ہے۔ بہت ساری باتیں
جو اب تک مجھے معلوم نہیں تھیں آج حقانی کے ذریعے معلوم ہوئی ۔ میں ان کے
خیالات سے مکمل اتفاق کرتی ہوں'' یہ باتیں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ مگر آج
محترمہ کے حوالے سے مختلف اخباری خبریں اور ٹی وی ٹاک شوز دیکھ کر حیرت
ہوتی ہے کہ محترمہ کن کن کاموں میں لگی ہوئی ہے اور کیا گل کھلانے جا رہی
ہے۔ کیا ہی بات ہوگی کہ ملکہ بلتستانی اور اس کے متعلقین ان تمام خبروں کی
تردید کر کے خود کو حقیقی معنوں میں ''بلتی''ہونے کا ثبوت دیں۔ اگرچہ
بلتستان کے لوگ ان کو بلتی ہی تسلیم نہیںکرتے ہیں ۔ کیونکہ ملکہ بلتستانی
کا اصل نام حسینہ بانو ہے اور وہ شملہ میں پیدا ہوئی ہے۔ کم سنی میں قیام
ِپاکستان کے بعد کراچی آئی اور بھارتی صوبہ بہار کے ایک مہاجر سمیع جعفری
سے شادی کی اور تاحال کراچی میں مقیم ہے۔ ہماری ملکہ بلتستانی سے اتنی
گزارش ہے کہ نیویارک اور واشنگٹن میں چند ڈالڑوں کے عوض دھرتی ماں گلگت
بلتستان کو بیچنے اور پاک افواج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے بے ضمیروں سے
برات کا اعلان کریں اور خود کو حقیقی معنوں میں بلتی کہلوائے، ورنہ آنے
والے دنوں میں ملکہ بلتستانی گلگت بلتستان میں ایک ناپسندیدہ نام ہوگا جو
یقینا اس کے لئے نیک شگون نہیں۔ محترمہ کو گورنر نہ بنایا جانے پر اتنا
مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ عالم اسلام کا اجتماعی دشمن،نہتے مسلمانوں کا
قاتل،بین الاقوامی لٹیرا،وقت کا فرعون،دجالی ریاست کا علمبردار امریکہ کے
دل واشنگٹن میں جاکر علیحدگی کا مطالبہ کریں۔ کیا اپنے بھائی سے کسی بات پر
اختلاف ہو تو چور ، ڈاکو اور دشمن سے مدد لی جا سکتی ہے؟کیا یہ
اخلاقا،قانونا اور شرعا جائز ہے؟یقینا نہیں۔۔۔ گورنری اور وزارت علیا تو"
شاہوں"کو ملتی ہے جو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہوتے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے
تو گلگت بلتستان کے دونوں شاہوں(کرم شاہ اور مہدی شاہ)کو دیکھ لیجے۔آپ تو
ایک متوسط خاندان کی خاتون ہو،آپ کو ایسے خواب زیبا نہیں دیتے۔ بہر صورت اس
موضوع پر لکھنے کیلئے دل و دماغ جتنی جگہ ہے انتی کاغذ کے ان اوارق میں
کہاں ہے اور نہ سردست اسکی ضرورت ہے۔ فی الحال اسی پر اکتفاء کیا جائے۔
نوٹ: یہ تحریر 2011ء کو اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ حقانی |