وزیر اعظم کا خطاب اور دینی مدارس

مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس

سانحہ پشاور کے بعد قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل نو میں جس طرح مدارس کو زیر بحث لایا جاتا رہا اس پر پاکستان بھر کے دینی مدارس ،مذہبی طبقے بلکہ پوری قوم میں تشویش واضطراب کی کیفیت پائی جاتی رہی لیکن آل پارٹیز کانفرنس کے بعد وزیر اعظم پاکستان نے اپنی نشری تقریر میں جب یہ اعلان کیا ہے کہ مدارس کے حوالے سے کسی بھی فیصلے سے قبل ’’وفاق المدارس‘‘ سے مشاورت کی جائے گی، وزیر اعظم پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف صاحب نے یقین دہانی کرائی ہے کہ پریشانی کی بات نہیں ہے، ہم مدارس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔اس اعلان پر ملک بھر میں اطمینان کی کیفیت دیکھنے میں آئی اور اس اعلان کو حکومت کی دانش مندی اور بالغ نظری قرار دیا گیا ۔

البتہ اس موقع پر وزیر اعظم کی طرف سے جو ایکشن پلان سامنے آیا اس کے تحت مدارس سے متعلق دو اہم امور کا ذکر کیا گیا ہے: (۱) مدارس کی رجسٹریشن (۲) مدارس کو ضابطہ بندی میں لانا۔
اس بارے میں چند امور کی وضاحت ضروری ہے
۱۔مدارس کی رجسٹریشن :یاد رہے کہ ۴۹۹۱ سے لے کر ۴۰۰۲ ء تک حکومت کی طرف سے مدارس دینیہ کی رجسٹریشن پرپابندی عائد رہی۔اس دوران مدارس کی قیادت اور مدار س کے ذمہ داران باربار حکومتوں سے درخواستیں کرتے رہے لیکن کوئی درخواست درخور اعتناء نہ سمجھی گئی پھر نائن الیون کے واقعہ کے بعد جب مدارس دینیہ عالمی اور مقامی حکومتوں کی توجہ کا مرکز بنے تو مدارس زیر بحث آئے۔اس وقت کی طویل بحث وتمحیص کے بعد باقاعدہ طور پر آرڈینینس جاری کیا گیا اور اس کی روشنی میں تقریبا سب مدارس نے رجسٹریشن کروا لی بعض مدارس جو بہت ہی دور افتادہ یا پسماندہ علاقوں میں ہیں اگر ان کی رجسٹریشن نہیں ہو سکی تو اس میں مدارس کی انتظامیہ کا کوئی قصور نہیں جبکہ بعض مدارس کی رجسٹریشن ہمارے ہاں بیوروکریسی کے روایتی رویوں اور ہتھکنڈوں کی نذربھی ہوئی۔ اس میں ارباب مدار س کا کوئی قصور نہیں بلکہ رجسٹریشن کے راستے میں روڑے اٹکانے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

۲۔مالیات کا مسئلہ:مدارس دینیہ کے بارے میں بار بار الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان کے فنڈنگ کے ذرائع معلوم نہیں۔ اس بارے میں واضح رہے کہ مدارس مقامی اورغیر مقامی کسی بھی حکومت ،ریاست یا کسی بھی ادارے سے کسی قسم کا تعاون وصول نہیں کرتے بلکہ اہل خیر مسلمانوں کے انفرادی تعاون سے خدمات سرانجام دیتے ہیں۔اس بارے میں بھی ۴۰۰۲ء میں اتفاق رائے پیدا ہو گیا تھا کہ تمام مدارس آڈٹ کروائیں گے اور الحمد ﷲ مدارس نے اس کا اہتما م بھی شروع کر دیا لیکن اس میں بھی دوبارہ وہی سسٹم کی خرابیاں آڑے آرہی ہیں کہ مدارس کے ساتھ بینکنگ کی دنیا میں امتیازی رویوں کا سامنا ہے ، عملی طور پرتمام بینکوں میں مدارس کے اکاونٹ کھولنے پر پابندی ہے مدارس کے ذمہ داران کو بینکوں کی طرف سے مطلوبہ جملہ دستاویزات مہیاکیے جانے کے باوجود اکاونٹ نہیں کھولے جاتے۔ہم نے اس سلسلے میں سٹیٹ بینک آف پاکستان اور وزارت خزانہ کو باربار خطوط لکھے اور ان سے مطالبہ کیا کہ مدارس کے اکاونٹ کھولنے پر سے غیر اعلانیہ پابندی ختم کی جائے تاکہ حکومت خود مدارس کے مالیاتی سسٹم پر چیک رکھ سکے اور اگر کسی بھی مدرسہ کے بارے میں ایسے کوئی ثبوت اور شواہد ملیں تو ان کے بارے میں مدارس کے نمائندہ وفاقوں کو آگاہ کیا جائے لیکن چونکہ ایسا کرنے سے شور کرنے اور پروپیگنڈہ کرنے کا موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے اس لیے ایسا نہیں کیا جاتا اور مدارس کے اکاونٹ تک نہیں کھولنے دئیے جاتے۔

۳۔مدارس کا نصاب ونظام:اس بارے میں بھی اتفاق رائے پید اہو گیا تھا تاہم اس کے باوجود الحمدﷲ مدارس کی نصابی کمیٹیاں وقتا فوقتا نصاب میں بہتری لانے کا اہتمام کرتی ہیں،اس میں دینی اور عصری تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ترمیم کی جاتی ہے ،اس بارے میں بار بار یہ بات واضح کی گئی دینی نصاب میں ترمیم وتبدیلی تو کسی کے ایجنڈے کے تحت نہ کی جاتی ہے اور نہ ہی قبول کی جائے گی البتہ دینی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے دینی نصاب میں بھی تبدیلی کاعمل جاری ہے جبکہ عصری نصاب کے حوالے سے بھی کافی پیش رفت ہو چکی ،اکثر مدارس میں میٹرک تک عصری مضامین کو بھی شامل نصاب کیا گیا ہے لیکن یہاں پھر وہی مسئلہ کہ ہمارے سسٹم کی خرابیاں آڑے آجاتی ہیں یہاں چیچو کی ملیاں کے کسی ادارے کی مثال نہیں بلکہ وفاقی دارالحکومت کے سب سے بڑے ادارے جامعہ فریدیہ کا معاملہ یہ ہے کہ یہ ادارہ گزشتہ دوسا ل سے فیڈل بورڈ سے عصری تعلیم کے لیے الحاق کی کوشش کر رہا ہے اور اس کا الحاق تاحال قبول نہیں کیا گیا۔

اس تمام تفصیل کا مقصد یہ بتانا ہے کہ دینی مدارس ریاستی اداروں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کے خواہاں ہیں ،ہر طرح کی مثبت تبدیلیوں کا خیر مقدم کرتے ہیں ،ہر موقع پر مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا طرز عمل اپناتے ہیں لیکن دوسری طرف سے مدارس کو مسلسل ہدف تنقید بنایا جاتا ہے ۔

ہم سمجھتے ہیں حکومتی پالیسیوں میں عدل وانصاف اور غیر جانبداری کا خصوصی اہتمام ہونا چاہیے اور دوہرے معیار سے ہر قیمت پر گریز کیا جانا چاہیے ،رجسٹریشن بالکل بجا لیکن مدارس کے ساتھ ساتھ گلی محلوں میں تعلیم کے نام پرتجارت کرتے اداروں کی بھی رجسٹریشن ہونی چاہیے ،ناجائز زمینوں پر قبضہ کرکے اگر کوئی کمرشل ادارہ بنا ہو یا کسی نے بھی قبضہ کیا ہو اسے واگزار کروایا جانا چاہیے ،مدارس کے ساتھ ساتھ مغرب سے فنڈ لینے والی این جی اوز کی آمد ن کی بھی مانیٹرنگ لازم ہے اوراس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ ہم انتہا پسندی کے خاتمے کی کوششوں میں انتہاپسند ی گریز کرنا چاہیے اور تشدد کی روک تھام کرتے کرتے خودہی متشددانہ طر ز عمل نہیں اپنا لینا چاہیے ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ دیر آید درست آید کے مصداق حکومتی ذمہ داران کی طرف سے مدارس کی قیادت اور حکومتی ذمہ داران کا جو مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا وہ خوش آئند ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ اس کے مثبت اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے ۔تاہم کسی قسم کے مذاکرات سے قبل اور اعلی سطح پر مدارس بارے پالیسی کی تشکیل سے قبل مدار س کو بلاوجہ ہراساں کرنے اور چھاپے مارنے کا سلسلہ فی الفور بند ہو جانا چاہیے ۔

Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 130065 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.