۱۶ دسمبر کو پشاور میں سکول
سانحہ نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ بقول مشیر خارجہ سر تاج عزیز کہ
’پشاور سانحہ پاکستان کا نائن الیون ہے‘۔اس سانحہ کے رونما ہوتے ہی پاکستان
تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے فیصلہ دیا۔کہ ۱۸ دسمبر کو متوقع ملک گیر ہڑتال
کو نہ صرف ختم کیا گیا۔بلکہ پچھلے چار مہینوں سے زیادہ اسلام آباد میں ہونے
والے دھرنے کواس شرط پر ختم کر دیا گیا۔کہ اگر نواز شریف اور اس کی ٹیم نے
جوڈیشل کمیشن تشکیل نہ دیا۔اور ۲۰۱۳ کے عام انتخابات میں ان کے مطابق ہونے
والی مبینہ دھاندلی کی شفاف تحقیقات نہ ہوئیں۔تو پاکستان تحریک انصاف اپنا
حق مانگنے کیلئے ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو جائے گی۔
اس واقعے پرنہ صرف ملک کا ہر مرد و زن رنجیدہ اور ہر آنکھ اشک بار ہے ۔بلکہ
ہر چھوٹا بڑا گھرانہ پھولوں کی بے دریغ تباہی پر ماتم کناں ہیں۔ سارے
پارٹیوں کے رہنماؤں ، عہدیداران اور کارکنان نے وطنیت اور انسانیت کے ناطے
اس حملے کو سفاکانہ عمل قرار دیا۔ حتی کہ مذہبی پارٹیوں کے ر ہنماؤں نے نہ
صرف اس حملے کو خلافِ شریعت قراردیا۔ بلکہ حکومت سے ان دہشت گردوں کے خلاف
سخت ایکشن لینے کا بھی مطالبہ کر دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کیلئے دو قسم کے
حوالوں سے یہ سانحہ آزمائش کی حیثیت رکھتی تھی۔ ایک یہ کہ خیبرپختونخواہ
میں تحریک انصاف کی حکومت کے ہوتے ہوئے اتنا بڑا سانحہ صوبائی حکومت اور
پولیس ڈیپارٹمنٹ کیلئے ایک چیلنج تھا۔دوسرا یہ کہ پاکستان میں ملکی تاریخ
کے ریکارڈ طویل ترین دھرنے کی مستقبل کے بارے میں کوئی بھی حتمی فیصلہ کرنا
اور پارٹی کی ساری لیڈرشپ کا اتنی طویل اور صبر آزما جدوجہد اور کارکنان کی
قربانیوں کوسامنے رکھتے ہوئے قومی سانحہ پر قوم کا ساتھ دینا۔مزید یہ کہ اس
مسئلے پر قومی اتحاد کا ایسا مظاہرہ کرنا کہ پارٹی قائدعمران خان کو اپنے
سیاسی حریف نواز شریف کے ساتھ سارے اختلافات بھُلا کر مِلی یکجہتی کی خاطر
ایک میز پر بیٹھنا پڑا۔ یہ سارے ایسے بروقت اور درست فیصلے تھے۔جو کہ تحر
یک ا نصاف کی قیادت احسن طریقے سے کر گئیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے قائد نے جونہی سانحہ کے بعد اپنی پارٹی کی جانب سے
آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کر دیا۔ملکی اور غیر ملکی اخبارات اور چینلز
نے خان صاحب کے اس فیصلے کو خوب سراہا۔حتی کہ عمران خان کے سیاسی حریفوں کو
بھی اس کے فیصلے پر داد دینی پڑی۔ وہ لوگ جو خان صاحب کو ’ضدی بچہ‘ اور
’سیاسی ناپختہ‘ جیسے القابات سے پکارتے تھے۔انہوں نے جب دیکھا۔کہ قومی
اتحاد اور قومی سانحہ کی خاطر پاکستان تحریک انصاف نے نہ صرف دھرنا ختم کر
دیا۔بلکہ تین ماہ تک کسی بھی سیاسی احتجاج کو ملتوی کر دیا۔تب ان لوگوں کو
ضدی بچہ کہنے کی بجائے خان صاحب کی سیاسی عقلیت کو تسلیم کرنا پڑا۔اور اس
سے پہلے تو شاید ہر کسی کا خیال تھا۔کہ خان صاحب تو پارٹی میں آمر ہے۔ مگر
متفقہ فیصلے کے بعد سب لوگ حیران رہ گئے۔کہ یہ تو پارٹی کے اندر سے فیصلے
ہوتے ہیں۔تحریک انصاف کے ہر کارکن کو بھی دھرنا ختم ہونے کے اعلان سے بددل
نہیں ہونا چاہیئے۔اور یہ نہ سمجھے۔کہ تحریک انصاف نے دھرنے کے خاتمے پر
جدوجہد بھی ختم کردیں۔نہیں بلکہ تحریک انصاف نے قوم کی خاطر تین ماہ کیلئے
کنٹینر پر رہناگوارہ نہیں کیا۔کیونکہ اُن کو معلوم ہے۔ کہ یہ تحریک قوم کی
ہے۔اور یہ سانحہ بھی قومی سانحہ ہے۔اور اگر اس تحریک کوسب سے پہلی جان
ملی۔تو وہ بھی اسی پختونوں کی سرزمین سے ملی۔اور اگر آج یہ سانحہ و آفت ٹوٹ
پڑی ہے۔تو انہی لوگوں پر پڑی ہے۔نواز شریف اور اُس کی کمپنی کو بھی
چاہیئے۔کہ اس وقت کو اپنے لیے غنیمت سمجھے۔اور شفاف تحقیقات کیلئے جوڈیشل
کمیٹی تشکیل دے دیں ۔ اور اس احتجاج کو دوبارہ سر اُٹھانے کا موقع نہ
دیں۔اور حکمران پارٹی اِس خام خیالی میں نہ رہے کہ بس قوم سو گئی۔بلکہ اس
مسئلے کو حل کرنے کیلئے وقت ملا۔پچھلے ہونے والی غلطیوں سے سبق سیکھے اور
وقت کے مطابق حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ملکی مفاد میں دوراندیشانہ
فیصلے کرے۔پھروقت نکلنے پر خدانہ کرے ۔کہ سب کو ہاتھ پچھتانے پڑ جائے۔اور
اس کا خمیازہ سارے ملک کو بھگتنا پڑجائے۔ویسے بھی یہ ملک مزید خون خرابے
اور سیاسی شورش و ہلچل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اﷲ ہمارے ملک کو سلامت رکھے۔ |