چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف
جناب عمران خان کافی عرصے سے ایک تحریک شروع کرچکے ہیں۔جس کا ایک بڑا مقصد
یہ ہے۔کہ ہر شخص کو بلاتفریق انصاف تک رسائی حاصل ہو۔قانون و انصاف کے
سامنے ملک کا ہر شہری برابر ہو۔خواہ وہ بذاتِ خود عمران خان ہی کیوں نہ
ہو۔وہ حکومتی وزیر اور ایک گدھا گاڑی چلانے والا ہی کیوں نہ ہو۔ انصاف کے
سامنے کوئی بھی رکاوٹ نہیں بنے گا۔
ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ملازمین اور اُن کے اہلِ خانہ گزشتہ تقریباََ ڈیڑھ
سال سے انتہائی کسمپرسی کا شکار ہیں۔اور اسی پریشانی و بے چینی کے اثرات
ملازمین کے اہلِ خانہ اور ویلفیئر بورڈکے تحت چلنے والے ورکِنگ فوکس سکولوں،
کالجوں اور پولی ٹیکنیک اِداروں میں پڑھنے والے طلباء اور طالبات پر پڑتے
رہے ہیں۔یوں تو ڈیپارٹمنٹ کے آئے روز نئے اجلاس ،نئے نئے فیصلوں،
نوٹیفیکیشنز،مراسلوں اور خطوط نے ملازمین کو پریشان کیے رکھا ہیں ۔کاغذات
اور اسناد کی جانچ پڑتال معمول بن گئی ہے۔بعض ملازمین تو اِنہی چکروں میں
اپنے اصلی اسناد سے ہاتھ دھو بیٹھے۔کبھی کبھار تو یہ ملازمین اُف کہہ کر
اپنی ہی ڈیپارٹمنٹ کو دردِسر کا نام دیتے ہیں۔
اِن ملازمین کا سب سے بڑا مسئلہ جو کہ پچھلے کئی مہینوں سے بورڈ اور
ملازمین کے درمیان معلِق اور تلاشِ حل مسئلہ بنا ہواہے۔ملازمین کے تین سالہ
کنٹریکٹ کی مدت یا تو ختم ہو گئی ہے۔یا اختتام کے قریب ہے۔اِن کا مطالبہ
ہے۔کہ تین سالہ کنٹریکٹ ختم ہونے والے سارے ملازمین کو ریگولر کیا
جائے۔خصوصاََ اساتذہ کا کہنا ہے۔کہ تین سال کے بعد تعلیمی اداروں سے اساتذہ
کوفارغ کرنا تعلیم کے ساتھ سراسر مذاق ہے۔ مزید براں کیریئر کے قیمتی تین
سال ضائع ہونے پر کسی اور جگہ نوکری کیلئے درخواست دینے کے قابل بھی نہ
رہے۔ہماری عمریں بھی زیادہ ہو گئی۔اور اہلِ خانہ کا بوجھ بھی ہم پر پڑا
ہے۔اس کا اثر سکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے مزدوروں کے بچوں کی پڑھائی
پر بھی ہو رہا ہے۔کیونکہ جب اساتذہ کو اپنی مدتِ ملازمت کی فِکر ہو۔تو ان
کی مکمل توجہ بچوں کی تعلیم و تعلم پر مرکوز نہیں رہے گی۔جس کا اثر
بلاواسطہ بچوں پر پڑے گا۔یہ سارا تعلیم کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے
؟اس مقصد کیلئے کنٹریکٹ اساتذہ اور ورکِنگ فوکس ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر
یونس مروت نے کافی تک و دو کیں ۔ موسم گرما کی چھٹیوں سے پہلے ملازمین کی
متعدد بار پُرامن احتجاجیں بھی ہوئیں۔ ایسوسی ایشن کے وفد کی متعدد رہنماؤں
سے ملاقاتیں بھی ہوئی۔جن میں سر فہرست قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید
شاہ، پاکستان تحریک انصاف کے اسد عمر، نعیم الحق ، صوبائی صدر اعظم سواتی
،خیبر پختونخواہ کے وزیراعلٰی پرویز خٹک ، سپیکر اسد قیصراور وزیر تعلیم
عاطف خان کے نام شامل ہیں۔ان سارے رہنماؤں نے ایسوسی ایشن کے وفد کو یہ
یقین دہانی کروائی ۔کہ وہ ان سارے ملازمین کو ریگولرکردیں گے ۔لیکن وہ صرف
جھوٹی تسلیاں ہی تھی۔پرویز خٹک نے تو اس حد تک کہا تھا کہ بورڈسے دس گیارہ
دنوں میں سارے پُرانے لوگوں کا صفایا کروں گا۔لیکن وہ تو ٹیچرز اور باقی
ملازمین کے پیچھے پڑگیا۔چند دنوں پہلے صوبائی وزیر محنت شاہ فرمان کے ساتھ
ایسوسی ایشن کے صدر یونس مروت کی ملاقات ہوئیں۔ متعلقہ وزیر نے اساتذہ کے
مسائل حل کرنے کی ایک مرتبہ پھریقین دہانی کرائی ہے۔
صدر یونس مروت کے مطابق وفاق کی طرف سے فنڈز کا کوئی مسئلہ نہیں۔تاہم ورکرز
ویلفیئر بورڈ چند لوگوں کے ہاتھوں میں یرغمال بنا ہواہے۔وہ لوگ اساتذہ اور
دیگر ملازمین کی مستقلی کے خلاف ہیں۔صوبائی حکومت اور وزارتِ محنت کو
ملازمین کی مستقلی کیلئے جلد سے جلد کوئی جامع اور ٹھوس حکمت عملی ترتیب
دینی ہوگی۔تاکہ اساتذہ اور دیگر ملازمین اس سلسلے میں مزید سُکھ کا سانس لے
سکیں ۔ اور مزدوروں کے بچوں کی تعلیمی حصول میں خلل نہ پڑے۔
ان ملازمین کے اور بھی بہت سے مسائل ہیں۔جن میں تنخواہوں کی وقت پر عدم
ادائیگی سرفہرست ہے۔تنخواہیں کئی مہینوں کے بعد بھی آ جائے تو ملازمین آپس
میں ایک دوسرے کو خوشخبری کے ایسے پیغامات بھیجتے ہیں۔ جیسے اُن کی لاٹری
نکل آئی ہو۔ کئی کئی مہینوں کی تنخواہیں بقایا جات کی صورت میں فائلوں میں
پڑی ہوئی ہیں۔حیرانگی کی بات تو یہ ہے ۔کہ بورڈ کے منظور نظر ملازمین کی
کوئی تنخواہ بقایاجات میں نہیں رہتی۔اکتوبر ۲۰۱۴ کو ملازمین کی تنخواہوں
میں جو ۳۵فیصد اضافہ کا اعلان کیا۔ اُس پر بدقسمتی سے اب تک کوئی عمل نہیں
ہوا ۔جون ۲۰۱۳کے بجٹ اعلان کے مطابق تنخواہوں میں ۱۰ فیصد کا اعلانیہ اضافہ
ابھی تک جمع نہیں ہوا۔ ملازمین کا کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹ کے بلز تو بورڈوالے
فوراََ سائن کرتے ہیں۔کیونکہ ان میں کمیشن ہوتا ہے۔ لیکن تنخواہوں کے بلز
دستخط کرنے کیلئے ایک دوسرے کو بھجواتے ہیں۔ ایسا وقت بھی گزرچکا ہے ۔جب
تین ،چار ماہ بعد تنخواہ مل چکی ہے۔ورکِنگ فوکس ٹیچر ایسوسی ایشن کا کہنا
ہے کہ اگر ملازمین کی مستقلی سمیت دیگر مطالبات پر مزید بے توجہی بھرتی
گئی۔تو اس کے نتیجے میں ہونے والے احتجاج اور تعلیمی نقصان کی ذمہ داری
صوبائی حکومت پرعائد ہوگی۔ایسوسی ایشن کی صبر اور افہام و تفہیم کی پالیسی
کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ہمارے پلان سی سے کہی ہمارے اپنے تعلیمی اداروں
اور بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کو نقصان نہ پہنچے۔
عمران خان صاحب کی مزدور اور تعلیم دوست پالیسیوں کولوگ اس وقت مثبت سمت
میں دیکھیں گے۔جب ان پالیسیوں کے اچھے اثرات براہِ راست مزدورطبقہ اور
اساتذہ کو محسوس ہو جائے۔آج اگر لوگ ظلم کے خاتمے کیلئے خان صاحب کا ساتھ
دے رہے ہیں ۔تو یہ بھی ظلم ہے کہ اساتذہ کی کنٹریکٹ کو ختم کرکے انہیں بے
روزگار کیا جائے۔ دو ، تین مہینوں تک اپنی ہی تنخواہ کیلئے دفتر کے چکر
لگانے پڑے۔مزید یہ کہ بارباراپنی اسناد کی تصدیق کیلئے افسران کے سامنے پیش
ہونا پڑے۔پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے تحت اس محکمے میں اساتذہ
اور مزدوروں کے بچوں کیساتھ یہ ظلم ہے ۔جو کہ انتہائی لمحہ فکریہ ہے۔ |