یمن دہشتگردی کا مرکز کیسے بنا

واشنگٹن کو القاعدہ کے بارے میں شدید تشویش ہے۔ شمال کے بہت سے قبیلے یمنی حکومت سے لڑ رہے ہیں اور یمن کی حزب اختلاف، مرکزی حکومت کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ یمن کا شمار مشرق وسطیٰ کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ 1918ء تک یمن سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔ 1962ء میں انقلابی فورسز نے مصر کے صدر جمال عبد الناصر کی مدد سے امام بدر کو معزول کر دیا اور یمن عرب ریپبلک وجود میں آئی۔ سابق جنوبی یمن پر جسے عدن بھی کہتے ہیں، انیسویں صدی کے وسط سے برطانیہ کی حکومت تھی۔ ان دونوں قوم پرست گروپوں کے درمیان خونریز کشمکش کے بعد، 1967ء میں عدن نے آزادی کا اعلان کر دیا اور جنوبی یمن میں عوامی جمہوریہ یمن قائم ہو گئی۔ پھر 1972ء میں شمالی اور جنوبی یمن کی حکومتوں نے مستقبل میں متحد ہونے کا فیصلہ کیا۔ 1990ء میں جمہوریہ یمن کے قیام کا اعلان ہوا اور Ali Abdallah Salih اس کے صدر اورAli Salim al-Bidh نائب صدر بنے۔ پھر بھی جنوب اور شمال کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور 1994ء میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔

قاہرہ کے نامور صحافی Ed Yeranian کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران وقفے وقفے سے جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ”ایرانی شمالی یمن میں Houthi باغیوں کی مدد کر رہے ہیں۔ یمن قبائلی معاشرہ ہے۔ شمالی یمن میں بعض قبیلے جن کا Houthis سے اتحاد ہے، سعودی عرب میں بھی پھیلے ہوئے ہیں۔ کوئی دو مہینے پہلے جب Houthi باغیوں نے ایک سرحدی چوکی پر حملہ کیا، تو سعودیوں نے ان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور وہ ان کے ٹھکانوں پر بمباری کرتے رہے ہیں۔ ان کے مطابق Houthi باغی سعودی عرب میں چوری چھپے گھس آئے ہیں اور وہ القاعدہ کی مدد کر رہے ہیں“۔۔Ed Yeranian کہتے ہیں کہ واشنگٹن کو القاعدہ کے بارے میں شدید تشویش ہے۔ شمال کے بہت سے قبیلے یمنی حکومت سے لڑ رہے ہیں اور یمن کی حزب اختلاف، مرکزی حکومت کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ جنوبی یمن کے نائب صدر عرب ملکوں سے پیسہ اور حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ جنوبی یمن ایک بار پھر آزاد ہو جائے۔۔

یمن میں شمال اور جنوب کی کشمکش کے ساتھ Houthi قبیلے اور حکومت کے درمیان بھی کشمکش جاری ہے۔ یہ تاثر بھی موجود ہے کہ بہت سے غیر ملکی جنگجو جن کا تعلق القاعدہ سے ہے، بھاگ کر یمن پہنچ گئے ہیں کیوں کہ وہاں مرکزی حکومت کبھی بھی مضبوط نہیں رہی ہے۔ یمن میں افراتفری اور بدنظمی کی وجہ سے القاعدہ کے لیے وہاں اپنی سرگرمیاں شروع کرنا آسان ہو گیا ہے۔۔ لیکن برطانوی صحافی Ian Williams جو یمن سے رپورٹنگ کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں القاعدہ کے تعلق کے بیان میں مبالغے سے کام لیا جارہا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ Houthi باغیوں کے ساتھ تصادم کی نوعیت قبائلی ہے۔ انھوں نے کہا کہ”یہ نہ بھولیے کہ یمن کے امیر کا تعلق اسی قبیلے سے ہوا کرتا تھا۔ ایک لحاظ سے یہ عراق کے سنیوں کی طرح تھے۔ اب انھیں یہ بات ناگوار ہے کہ یمن کی حکومت نے انھیں نظر انداز کر دیا ہے اور اقتدار پر ان کا کنٹرول نہیں ہے۔ القاعدہ کو اس میں گھسیٹنے کی کوششیں، میرے خیال میں بلاجواز ہیں۔ سعودی اور یمنی حکومتوں کی طرف سے اس کوشش کا مقصد کہ یمن کی صورت حال کا تعلق القاعدہ سے جوڑا جائے، ایک قبائلی تنازعے میں امریکی فضائیہ اور امریکی ڈرونز کی مدد حاصل کرنا ہے۔ یاد رکھیئے کہ افغانستان میں بھی یہی ہوا تھا جہاں مقامی جنگی سردار آس پاس کے گاؤں سے اپنے جھگڑے چکانے کے لیے امریکیوں کو ان کے خلاف بھڑکایا کرتے تھے“۔۔

لیکن عرب صحافی، Mohammed Ghuneim کہتے ہیں کہ شیعہ یمن کی کل آبادی کا ایک تہائی اور سعودی عرب کی آبادی کا دس فیصد ہیں۔ شمال اور جنوب کے تنازعے کی اصل وجہ یہ احساس ہے کہ جنوب کی زیادہ ترقی پسند آبادی کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یمن کی حکومت کو القاعدہ سے جنگ کے لیے چھ کروڑ ڈالر سے زیادہ کی امداد ملتی ہے۔۔ ان کا کہنا ہے کہ”حکومت کو القاعدہ سے کوئی ہمدردی نہیں ہے کیوں کہ القاعدہ خود حکومت کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔ یمن کے قبائلی نظام میں القاعدہ کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ یمن کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرے۔ عام طور سے القاعدہ ہر حکومت کے لیے خطرہ بن جاتی ہے کیوں کہ وہ ہر جگہ اسلامی نظام یا خلافت قائم کرنا چاہتی ہے جو علاقے میں کسی ملک کو قبول نہیں ہوگا“۔امریکی حکومت خاموشی سے یمن کی مرکزی حکومت کی مدد کر رہی ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں میں یمنی فورسز نے جو امریکی ہتھیاروں سے لیس تھیں، جزیرہ نما عرب میں القاعدہ کے خلاف دو بڑے چھاپے مارے بھی ہیں

جزیرہ نما عرب میں القاعدہ سے وابستہ گروپ نے گزشتہ سوموار کو ایک بیان میں 25دسمبر کو کرسمس کے موقع پر امریکا کے ایمسٹرڈیم سے ڈیٹرائٹ جانے والے مسافر طیارے پر ناکام حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور کہا تھا کہ اس نے عمر فاروق کو تربیت دے کر حملے کے لئے بھیجا تھا. ایک مال دار نائیجیرین بنک کار کے بیٹے عمر فاروق عبدالمطلب پر ڈیٹرائٹ ائیرپورٹ پر مسافر طیارے کو اترتے وقت بم دھماکے سے تباہ کرنے کی سازش کا الزام عاید کیا گیا ہے. اس نے دھماکا خیز مواد اپنے زیر جامے میں چھپا رکھا تھا لیکن جب وہ دھماکا کرنے لگا تو مسافروں اور جہاز کے عملے کے بعض ارکان نے اس پر قابو پا لیا تھا. تاہم امریکی انویسٹی گیشن اداروں کی تحقیقات کے بعد ڈیٹرائٹ ناکام حملے کے ملزم عمر فاروق عبدالمطلب پر فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ مشی گن میں امریکی جیوری نے تئیس سالہ عبدالمطلب پر امریکی طیارہ تباہ کرنے کی کوشش پر کل چھ الزامات عائد کئے ہیں جس پر صدر اوبامہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکی طیارے میں حملے سازش سکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی کی وجہ سے پیش آئی جبکہ ایسے واقعہ کی معلومات پہلے ہی تھیں جنہیں سکیورٹی اہلکاروں نے شئیر نہ کیا۔ اور کسی نئے حملے سے بچنے کے لیے بہتر حکمت عملی اپنانے پر زور دیا اور دوسرے طرف یمنی حکومت نے عبدالمطلب کے یہاں عربی سیکھنے کے لیے آنے جانے کی تصدیق کر دی ہے اور مغربی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ القاعدہ کے سینکڑوں کارکن مغربی ممالک پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تاہم ان تمام خدشات کے پیش نظر یمن حکومت کو ان شرپسندوں سے نمٹنے کے لیے مزید امداد کی اپیل کی اس حملے کے بعد القاعدہ کی طرف سے دھمکی دیئے جانے کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے یمن سے اپنے سفارتخانے بند کر لیے جس کے بعد فرانس نے بھی اپنا سفارتخانہ بند کر لیا تاہم کچھ دنوں بعد یمن کے 3 صوبوں میں القاعدہ کے خلاف آپریشن شروع ہو گیا ہے دارالحکومت صنعا سے فورسز کے ترجمان نے بتایا کہ یمن کے تین صوبوں میں سکیورٹی فورسز اور فوجی دستے بھجوا دیئے گئے ہیں۔ ان علاقوں میں القاعدہ کے ٹھکانوں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ ابتدائی طور پر القاعدہ کے 5 شدت پسندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جن علاقوں میں کارروائیاں جاری ہیں ان میں دارالحکومت سمیت آبیان، شہابو اور ماریب کے مقامات شامل ہیں جب کہ اٹلی نے اپنے سفارتخانہ تک عام لوگوں کی رسائی محدود کر دی امریکہ نے اپنا سفارتخانہ دوبارہ کھول دیا ہے۔ دریں اثنا امریکی وزیر خارجہ ہیلیری نے واشنگٹن میں ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ یمنی حکومت صورتحال میں بہتری کیلئے اقدامات کرے ورنہ حمایت ترک کر دیں گے۔ یمنی افواج نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ القاعدہ کے مقابلے کے لئے مکمل طور پر تیار ہیں۔ دوسری جانب امریکہ نے القاعدہ کے خلاف یمنی حکومت کے اقدامات کو مکمل تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا ہے کہ گوانتانا موبے سے مزید یمنی قیدیوں کو یمن منتقل نہیں کیا جائیگا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ فی الحال تو امداد کے ذریعے القاعدہ کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور یمن کو بھی عراق اور افغانستان جیسی حالت تک کتنے عرصے میں پہنچاتا ہے جو آٹھ سالوں سے افغانستان اور عراق سے تو القاعدہ کا خاتمہ نہ کر سکا اور اس سال مزید فوج بھیجنے کے تجربے سے بھی گزر رہا ہے جبکہ اس نئی پالیسی میں طے شدہ اٹھارہ ماہ تو ابھی مکمل نہیں ہوئے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو صحیح کرنا ناممکن ثابت ہوسکتا ہے۔اور امریکی فوجی انٹیلی جنس کے سربراہ جنرل فلن کا کہنا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس افغانستان آٹھ سالوں میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکی اور اب نیا محاذ کھول لیا۔

نومبر2008ء کے صدارتی انتخاب میں براک اوباما کی فتح کی خبر سے دنیا بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی یورپ کے بیشتر لوگوں کا خیال تھا کہ وہ یورپ کے ساتھ شراکت داری بحال کریں گے، امن کے لیے کام کریں گے اور دنیا میں بڑھتی ہوئی گرمی کے خطرے کے خلاف جنگ کریں گے۔ مشرقِ وسطیٰ میں لوگوں کو امید تھی کہ وہ اسرائیلی فلسطینی تنازعے کو طے کرنے پر توجہ دیں گے۔ لیکن ایک سال بعد لوگوں کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ امریکہ صدر جہاں کہیں جاتے ہیں لوگوں کے بڑے بڑے ہجوم ان کا استقبال کرتے ہیں۔ اس سال کے شروع میں جب وہ یورپ گئے تو ان کا تقریباً راک اسٹار جیسا استقبال ہوا۔ بہت سے لوگوں کے لیے وہ امید اور روشن مستقبل کی علامت تھے۔ مسٹر اوباما کے تبدیلی لانے کے وعدے، اور دنیا کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی کوشش کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا اور انہیں اپنا عہدہ سنبھالے ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ انہیں امن کے نوبیل انعام کا اعزاز مل گیا۔ ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر صدر کی حکمت عملی 2010ء میں کامیاب ہو جاتی ہے تو بھی افغانستان کو پوری طرح مستحکم کرنے کے لیے کئی برسوں تک بین الاقوامی فوجی اور سویلین امدادکی ضرورت ہوگی۔ دسمبر میں کوپن ہیگن کی سربراہ کانفرنس میں، دنیا میں گرمی میں اضافے کو روکنے کے لیے عالمی اتحاد بنانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکی ہیں اور ملک میں بے روز گاری میں بڑھتا ہوا اضافہ امریکی جنگ کا نتیجہ ہے جس نے ملک کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے جنگ کے بارے میں ماہرین اکثر کہتے ہیں کہ جنگ جب چھڑ جاتی ہے تو یہ فطری طور پر ایسی حالت اختیار کر جاتی ہے جس پر قابو پانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ خوفناک تباہی کی صورت میں نکلتا ہے شائد امریکہ کو بھی ان حالات کا سامنا کرنا ہے کیونکہ امریکی جنگ بھی قابو سے باہر ہوتی نظر آرہی ہے جس کا دائرکار وسیع ہوتا جاتا رہا ہے۔
Abid Hussain burewala
About the Author: Abid Hussain burewala Read More Articles by Abid Hussain burewala: 64 Articles with 86236 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.