حمید گل اور قاضی حسین احمد کی بچھائی ہوئی بساط

حمید گل اور قاضی حسین احمد کی بچھائی ہوئی بساط - افغانستان کا جہاد اور ڈالرز

گزشتہ دنوں جنگ کے مشہور صحافی سلیم صافی صاحب جو ایک پرائیوٹ چینل پر جرگہ کے نام سے بھی پروگرام پیش کرتے ہیں ان کا ایک مضمون پڑھنے کا موقع ملا جس میں انہوں نے میڈیا کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کرتے ہوئے کچھ ایسی بھی باتیں تحریر کیں جو آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہوں گا۔

“جان اللہ ہاشم زادہ پشاور میں کام کرنے والے نامور افغانی صحافی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گزشتہ رمضان کے موقع پر انہیں خیبر ایجنسی میں پراسرار طور پر شہید کیا گیا لیکن اپنے اداروں یعنی سی این این اور ایسوسی ایٹڈ پریس نے ان کی شہادت تک کی خبر نہیں دی (میڈیا کی آزادی اور کارکردگی کے کیا کہنے یعنی چراغ تلے اندھیرا)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گزشتہ روز وفات پانے والے سہیل قلندر اگرچہ پورے صحافتی زندگی میں میرے خلاف رہے۔ لیکن دور طالب علمی میں ہم ساتھ تھے- احمد گل اور محمد عارف “جماعت اسلامی کے اراکین “ گواہ ہیں۔ جنرل حمید گل اور قاضی حسین احمد کی بچھائی ہوئی بساط کے تحت ہم جہاد کے لئے افغانستان گئے تھے۔ ہم دونوں کو مارنے کے لئے ہوائی جہاز سے ایک نیپام بم داغ دیا گیا جسے دیکھ کر ہم اسی جگہ لیٹ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت تھی تو سب سے زیادہ معتوب میں تھا۔ میں جس اخبار میں لکھتا، اکرم درانی اور سراج الحق اس کے اشتہارات بند کردیتے اور اے این پی کی حکومت آئی تو انہوں نے بھی آغاز مجھ سے کیا اور میاں افتخار حسین تو میرے خلاف آخری حدوں تک آگئے۔ اے این پی والوں کے نزدیک میں جماعتی ہوں، جبکہ جماعت اسلامی والوں نے مجھے قوم پرستوں اور سیکولر لوگوں کے ہمدردوں کے خانے میں ڈال دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ میں پیشے کی مجبوری کی وجہ سے گزشتہ دو سالوں کے دوران سینکڑوں وہ سی ڈیز دیکھ چکا ہوں جس میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو ذبح کر رہا ہوتا ہے۔ یہی کم و بیش میرے دیگر ساتھیوں کا بھی معمول ہے۔ اب آپ اندازہ لگا لیجیئے کہ اس طرح کے لوگ کس ذہنی کرب سے گزر رہے ہوں گے۔۔۔۔

تو جناب غور طلب بات یہ ہے کہ صوبہ سرحد کے ہی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک نامور صحافی بھی جنرل حمید گل اور قاضی حسین احمد کی بچھائی ہوئی بساط کے تحت جہاد کے لئے افغانستان گئے تھے اور اب وہ اچھی طرح جان چکے ہیں کہ نام نہاد جہاد کی آڑ میں سیاسی ملاؤں اور کمیشن خور جرنیلوں نے ملک و قوم کے ساتھ جو کھیلواڑ کیا ہے وہ کیا ہے اور کس طرح ملک و قوم کا سرمایہ (چند کروڑ چندے اور بھتے کے نہیں) کشمیر اور افغانستان کی آڑ میں نا صرف لوٹا بلکہ ڈالرز اور ریال کی چمک میں کیسے کیسے کارنامے انجام دیے ہیں۔

اور وہ حمید گل وہ جرنیل جو اپنے آپ کو پرویز مشرف کا استاد بھی گردانتا ہے اب ملک کی سیاست میں کیوں چپ بیٹھا ہے اب اسے اور دوسروں کو مسنگ پرسنز اور گوانتا ناموبے نظر نہیں آرہی۔ لوگوں کی یاداشت کے لیے عرض ہے کہ یہ وہی حمید گل وہی جرنیل تھا جس نے پرانے وقتوں میں (مشرف کی آمریت سے پہلے جمہوریت میں) صدر پاکستان اسحاق خان کو باقائدہ رپورٹ ثبوتوں کے ساتھ فراہم پیش کی تھی جس میں محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی دبئی اور دوسرے ممالک میں غیر معمولی اور غیر قانونی سرگرمیوں کی اطلاع دی تھی اور جسے اس وقت کے صدر پاکستان نے پاکستان کے “عظیم تر مفاد “ میں نظر انداز کر کے رپورٹ داخل دفتر کر دی تھی کیونکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کا پاکستان کے لیے ایٹم بم کا مشن اس وقت پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا تھا اور ایک محاورہ بڑا مشہور ہے ایسے واقعے کی مناسبت سے کہ “دودھ دینے والی گائے کی لاتیں بھی کھانی پڑتیں ہیں“۔

اور سلیم صافی جیسے مشہور صحافی کا اعتراف ہے کہ وہ بھی جماعت کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس کر افغانستان میں جہاد کرنے کی سعادت حاصل کرچکے ہیں اور اب اپنے اس جہاد کو حمید گل اور قاضی حسین احمد کی بچھائی ہوئی بساط قرار دیتے ہیں تو کتنے ہی لوگوں ہونگے کہ جن کی اولادیں اور جن کے پیارے اگر آج مسنگ پرسنز میں ہیں تو کہیں ان میں سے بھی تو لوگ قاضی اور حمید گل جیسوں کی بچھائی ہوئی بساط نام نہاد جہاد میں پھنس کر قید دشمناں میں نا ہوں۔

اور جہاد میں قوم کے بچوں کو جھونکنا اور اپنے بچوں کو روکنا ایک ایسی حقیقت ہے جس کو اچھی طرح جان کر اب عوام چلے ہوئے کارتوس ٹائپ کے جرنیلوں اور سیاسی ملاؤں سے بری طریقے سے نالاں اور پریشان ہے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 502992 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.