وقت کے ساتھ جہاں بہت سی
تبدیلیاں آتی ہیں وہیں شعبہ صحافت میں تبدیلیوں کے اثرات دیگر شعبوں کی
نسبت کچھ زیادہ ہی اثر دکھاتے ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ پرنٹ میڈیا سے
الیکٹرانک میڈیا میں آنے کے بعد اب ریاستی ، قومی اور بین الاقوامی اہم
موضوعات تحریریں لکھنے کا موقع کم ملتا ہے ۔الیکٹرانک میڈیا کے افادیت اور
اثرات اپنی جگہ اہم لیکن پرنٹ میڈیا ایک اپنا الگ مقام رکھتاہے ۔ چند سال
اسلام آباد میں میڈیا کے مختلف ا داروں کے ساتھ منسلک ہو کررپورٹنگ کرنے کے
بعد آزادکشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد میں کام کرنے کا اب موقع ملا ہے ،اس
دوران آزادکشمیر کی گورننس،سیاست، صحافت، وکالت، معاشرت ، معیشت و دیگر اہم
امور کو قریب سے دیکھنے کا موقع مل رہا ہے ۔معاشرے کے مجموعی حالات دیکھتے
ہوئے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے ہم سب لوگ اگرمیرٹ
اور سلیکشن کے ذریعے سے اپنے اداروں کی کام کی بنیاد پرمراعات حاصل کرتے
ہوئے اور اپنے پیشے کے لوازمات کو مد نظر رکھتے ہوئے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں
کو احسن طریقے سے نبھا ئیں تو یقینا معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں کی عکاسی
کے ساتھ ساتھ عظیم خدمت بھی کر سکتے ہیں ۔
آج کا یہ مضمون شعبہ صحافت خصوصا ًآزادکشمیر کی صحافت کے بارے میں تحریر کر
رہا ہوں۔ جیسے ہی نئے سال کا آغاز ہوا تو کشمیری میڈیا خود خبروں کا مرکز
بنتا ہوا نظر آرہا ہے ۔ایک طرف آزادکشمیر کے دارلحکومت میں پیشہ ور صحا
فیوں کی ایک مضبوط ٹیم نے کیپیٹل جرنلسٹس فورم کی بنیاد رکھی ہے جس کا مقصد
آزادکشمیر کے صحافیوں کی تعلیمی قابلیت و استعداد کار بڑھانے کے ساتھ انہیں
ریاستی،قومی ایشوز پر گائیڈ لائن دینے کے ساتھ مطالعاتی دوروں کے ذریعے
زمینی حقائق سے آگاہ کرنا ہے تودوسری جانب جڑواں شہروں میں کام کرنے والے
تقریباً ڈھائی سو صحافیوں کی تنظیم کشمیر جرنلسٹس فورم کی منتخب باڈی کی
تین جنوری کو کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں حلف برداری کی تقریب ہوئی۔گو کہ یہ
تقریب 20 اپریل دو ہزار چودہ کو ہونے والے انتخابات کے نتائج آنے کے بعد اب
تقریبا آٹھ ماہ کی تاخیر سے ہو رہی ہے اس کو پہلے نپٹا کر اب تک بہت سے اور
کام کیے جا سکتے تھے تاہم دیر آئے خیر آئے تو سہی ۔وزیراعظم آزادکشمیر
چوہدری عبدالمجید تقریب کے مہمان خصوصی تھے انہوں نے فورم کیلئے 25 لاکھ
روپے دینے کے ساتھ فورم کے اراکین کے رہائشی مسائل حل کرانے کیلئے کمیٹی
بنانے کا اعلان تو کیا لیکن ساتھ ہی قومی و کشمیری میڈیا کے کردار پر
تنقیدکے پہارڑگرا دیئے ۔قومی میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا سے تو انتہائی
جائز شکوہ تھا کہ کشمیر خصوصا مسئلہ کشمیر ،آزادکشمیر کے ایشوز کو وقت نہیں
دیتے ۔دوسری طرف کشمیری صحافت کے ذمہ داران کو بھی آئینہ دکھایا کہ اس فیلڈ
سے تعلق رکھنے والے بیشتر لوگ بنیادی تعلیم و تربیت سے ہی واقف نہیں ہیں
،تفصیل میں بتایا کہ بڑی تعداد میں میٹر ریڈرز، چپڑاسی ، ٹیکسی ڈرائیور اور
ریڑھی بانوں کی ہے جن کوقومی، ریاستی و مقامی اداروں نے صحافی بنا کر ظلم
عظیم کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم چوہدری مجید کی حقاق مبنی یہ سخت باتیں پسند
آئیں لیکن وہ اس بیماری کی وجہ اور علاج جاننے میں شاید ناکام رہے ہیں کہ
مناسب علاج نہ بتا سکے۔
ریاستی واضلاع کے مقامی اخبارات و ریڈیو چینلز کو جو معاشی و فنی مشکلات
درپیش ہیں ان سے حکومت یاسیاستدان کسی حد تک واقف تو ہوتے ہیں لیکن ان
مشکلات سے نکالنے کا حل کوئی بھی نہیں نکال سکا۔حکومت اگر توجہ دے تو یہ
مسائل کم وقت میں حل ہو سکتے ہیں اور اس شعبہ کے لوگ بیگار کیمپ اکھاڑ
پھینکنے کے ساتھ باعزت روزی بھی کما سکیں گے۔میری اس حوالے سے حکومت کو کچھ
تجاویز ہیں ۔1۔وفاق سے اشتہارات کی مد میں جو دو فیصد کوٹہ طے ہے اس پر عمل
درآمد کرانے کیلئے وفاقی محکمہ اطلاعات پر پریشر ڈالا جائے اس سے سالانہ
تقریبا ً 6 سے 8 کروڑ روپے حاصل ہونگے جن سے یہ ادارے مضبوط ہوسکتے ہیں۔2
۔آزادکشمیر میں ٹیلی کام سیکٹر میں کام کرنے والی موبائل اور انٹر نیٹ
کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ مقامی حکومت کو ٹیکس دینے کے ساتھ آزادکشمیر
کے اخبارات اور ریڈیو چینلز کو بھی اشتہارات دیں اس سلسلہ میں آئین سازی کر
کے ان کمپنیوں کو پابندکیا جائے۔3 ۔ سرکاری و غیر سرکاری بنکوں اور تمام
ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ مقامی حکومت کو ٹیکس دینے کے
ساتھ کشمیری میڈیا کو اشتہارات دیں ۔4 ۔حکومت آزادکشمیراپنے محکموں کو
پابند بنائے کہ ریاستی و مقامی اخبارات کو ترجیحی بنیادوں پر اشتہارات دے
،قومی اداروں کو اشتہارات دینے کیلئے الگ سے میکنزم بنوایا جائے۔5 ۔ڈمی و
غیر معیاری اخبارات ، رسائل کو اشتہارات دینے پر مکمل پابندی عائد کی
جائے۔6 ۔میڈیا گروپس کو پابند کیا جائے کہ وہ تمام شہروں میں تعلیم یافتہ
لوگوں کو ہی میرٹ کی بنیاد پر اپنا کارکن بنا ئیں،وورکرز سے بیگار لینے
والے اداروں کو جرم ثابت ہونے پر بھاری جرمانے کیے جائیں۔7 ۔صحافتی یونینز
اور پریس کلبز کوبھی پابند کیا جائے وہ اپنے کارکنوں کی استعداد کار بڑھانے
کے ساتھ انہیں کشمیری تاریخ، مسئلہ کشمیر سے آگاہی کیلئے ورکشاپس اور
مطالعاتی دورے کرائیں،اسی بنیاد پر ان کو ہاؤسنگ کالونیاں اور فنڈنگ دی
جائے۔ ان تجاویز پر عمل ہو گا تو آزادکشمیر کے یہ ادارے معاشی لحاظ سے بھی
مضبوط ہو سکیں گے اور تعلیم یافتہ لوگ اہل لوگ شعبہ صحافت میں سامنے آکر
معاشرے کی درست عکاسی کر سکیں گے ۔اگر صرف اعلانات و تنقید ہی جاتی رہی تو
یہ بیماری ناسور بنتے بھی زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ |