قائدؒ کے جانثار ادریس جانباز

دنیامیں دوقسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جوادارے بناتے اورانہیں اپنے خون اورجنون سے سینچتے ہیں جبکہ دوسری قسم ان افراد کی ہے جواداروں اورعہدوں کے سبب منظرعام پرآتے اور قدآور بنتے ہیں یعنی ان کی شناخت اداروں اورعہدوں کی مرہون منت ہوتی ہے ۔تحریک قیام پاکستان میں ایسے کئی گمنام سپاہیوں کاذکرآتا ہے جوشناخت اورشہرت سے محروم رہے مگر شہادت کے درجے سے ہمکناراورامر ہوئے ۔ میں جس مخلص ،باضمیراورباکردار ادریس جانباز کوجانتا ہوں ان کاشمار پہلی قسم کے افرادمیں ہوتا ہے جو انتھک جد وجہد،ریاضت،محنت اور مشقت سے اداروں کے قیام اوراستحکام میں اپنا کلیدی کرداراداکرتے ہیں ۔ادارے صرف وہ لوگ بناسکتے ہیں جوخودہرقسم کی ہوس،خودپسندی اورشہرت کی بیماری سے محفوظ ہوں،ادریس جانبازصرف نام کے نہیں بلکہ فطری طورپرایک مجاہداور جانبازتھے۔ان کی شخصیت میں نظریہ پاکستان جھلکتاجبکہ ان کی گہری باتوں سے پاکستان اوربانی پاکستان کے ساتھ والہانہ عشق چھلکتا تھا ۔اگر ہمارے بابامحمدعلی جناح ؒ کی شخصیت میں ایک بھی خامی ہوتی توقیام پاکستان کاخواب ہرگزشرمندہ تعبیر نہ ہوتا مگرافسوس ان بونوں پرجواپنے بھارتی آقاؤں کی نمک حلالی کیلئے اپنے روحانی باپ کیخلاف بھی ہرزہ سرائی کرنے سے بازنہیں آتے۔بابائے قوم ؒ بلاشبہ آج بھی اپنے بچوں کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں اورقیامت تک ان کی قدرواہمیت میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔وزیراعظم کوئی بھی بن سکتا ہے قائداعظم ؒ صرف ایک تھے ،دوردورتک کوئی ا ن کاثانی نہیں ہے۔ادریس جانبازکی طرح جس نے قائداعظم ؒ کی قیادت میں کام کیا ہواس کاضمیر کسی اورکواپناقائدتسلیم کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ معین قریشی اورشوکت عزیزبھی اس ملک کے وزیراعظم رہے ہیں ،کیا اس سانحہ کے بعدبھی اس منصب کی کوئی اہمیت اورعزت رہ جاتی ہے۔

ادریس جانبازمرحوم نے ایک طول مدت تک مسلم لیگ اورمسلم لیگ ہاؤس دونوں کواحسن اندازسے آرگنائز کیا،اگروہ نہ ہوتے توشاید مسلم لیگ (ن) کی بینظیربھٹوحکومت کیخلاف'' تحریک نجات'' اس قدرموثراورمنظم نہ ہوتی۔راقم سمیت جولوگ ادریس جانباز کے ساتھ کسی نہ کسی اندازسے کام کرتے رہے ہیں وہ ان کی خداداد سیاسی وانتظامی صلاحیتوں کے مداح ہیں ۔انتھک ادریس جانباز کاکام قطعاً دام ،نام اورمقام کیلئے نہیں تھا ، ادریس جانبازمرحوم نے جس ذوق وشوق اورصادق جذبوں کے ساتھ نظریہ پاکستان اور قائدؒکے افکارکو فروغ دیاوہ اپنی مثال آپ تھا۔ادریس جانبازصرف گفتارنہیں کردارکے بھی غازی تھے ۔انہوں نے زندگی میں جائیدادنہیں بنائی مگراپنے پیچھے نیک،فرمانبردار اورباشعوراولاد ضرورچھوڑگئے۔ راولپنڈی کے انتھک،ایمانداراورفرض شناس سی ٹی شعیب خرم جانبازسمیت ادریس جانبازمرحوم کے بچے پروفیسر وقاص احمد ،پروفیسر معاذ جانباز،حماد جانبازاورعثمان ابراہیم آج پاکستان کے مختلف شعبہ جات میں ممتازمقام رکھتے جبکہ اپنے والدادریس جانبازمرحوم کاادھورے مشن کی تکمیل کیلئے پرعزم ہیں ۔ ڈیوس روڈکامسلم لیگ ہاؤس بڑی اہم شخصیات کی سیاسی جدوجہد کاعینی شاہد ہے ۔غلام حیدروائیں شہید کی رفاقت میں ادریس جانباز مرحوم نے سیاست ،سیاسی جماعت اورپارٹی آفس سے متعلقہ ہرشعبہ میں قابل قدر کارکردگی کامظاہرہ کیا۔مسلم لیگ کے مرکزی اورصوبائی عہدیدارکوئی بھی اہم فیصلہ کرتے وقت ادریس جانبازمرحوم سے مشاورت ضرورکیاکرتے تھے۔ادریس جانبازنے زندگی بھرکوئی پارٹی عہدہ قبول نہیں کیا مگرانہوں نے ایک بادشاہ گرکی حیثیت سے کئی پارٹی عہدیدارکوتراشااورکندن بنادیا ۔وہ اپنے گرانقدرسیاسی کردارکے سبب بلاشبہ ستارہ امتیاز کے مستحق ہیں اورمسلم لیگ ہاؤس سے وابستہ شاہراہ جودھرم پورہ پل کی طرف جاتی ہے اسے ان کے نام سے منسوب کیا جائے۔

ادریس جانباز کی برسی اپنے ساتھ ڈھیروں ادا سی لے کرآتی ہے ،ان کے ہونہار بچے ایس ایس پی شعیب خرم جانباز، پروفیسر وقاص احمد ،پروفیسر معاذ جانباز،حماد جانبازاورعثمان ابراہیم ہرسال برسی کے سلسلہ میں ایک پرقارتقریب کااہتمام کرتے ہیں جہاں پاکستان کی قدآورسیاسی ،سماجی اورصحافتی شخصیات کومدعوکیا جاتا ہے اوریہ شاندارتقریب ایک بہترین تربیتی اورنظریاتی نشست بن جاتی ہے۔میں ادریس جانبازمرحوم کی کچھ یادیں سپردقرطاس کرنااپنافرض سمجھتا ہوں۔وہ جب بھی ملتے بڑے پرعزم اورتازہ دم ہوتے ،میں نے انہیں کبھی مایوس اورپریشان نہیں دیکھا۔وہ بڑے وطن پرست،انسان دوست، پرجوش، فعال اورمتحرک تھے ۔ جب ایسے لوگ مرتے ہیں توان کے ساتھ ایک پورے عہد کی موت ہوجاتی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ ایک عالم کی موت پورے عالم کی موت ہے۔ ادریس جانبازمرحوم کا شمار بھی ان شخصیات میں ہوتا ہے جو انتقال کرنے کے بعد زیادہ شدت سے یادآتے ہیں۔ ان کی وفات سے نظریاتی اور مزاحمتی جدوجہدکا ایک روشن باب بند ہو گیاہے۔ اس قوم کی بدقسمتی ہے کہ اسے اصلی اورنقلی کی پہچان نہیں ہے ، ادریس جانباز عام سیاسی کارکنوں کی آوازبن کر ابھرے لیکن سرمایہ دارسیاسی طبقے نے ان کی قدر نہیں کی اورانہیں دیوارسے لگادیا۔ ادریس جانبازمادروطن کوقائدؒ کے افکار کاآئینہ داربنانے کاخواب اپنی آنکھوں میں سجائے اس بے رحم دنیا سے رخصت ہوگئے۔اس فانی دنیا سے جہاں انسان کی زندگی میں اس کی کوئی قدر نہیں کی جاتی اورمرجانے پربڑا ماتم کیا جاتا ہے ۔
جیتا ہے توجینے کی سزادیتی ہے دنیا مرجائے توبڑھ جاتی ہے انسان کی قیمت

ادریس جانبازمرحوم پاکستان میں انقلاب کے داعی تھے ،وہ غریبوں کواسمبلیوں میں دیکھنا چاہتے تھے جہاں وہ اپنی قسمت کے فیصلے خود کریں اورکوئی سرمایہ داریاجاگیردارسیاستدان غریبوں کااستحصال نہ کرے ۔ ادریس جانباز قومی سیاست پرسرمایہ داروں اورجاگیرداروں کی اجارہ داری کے سخت خلاف تھے ۔

باوفااورباصفا ادریس جانباز نے زندگی بھر قائدؒ اورپاکستان کے ساتھ اپنے عشق کادیابجھنے نہیں دیا۔ آمراور غاصب حکمران کے سامنے ڈٹ جانا ،یہ عزم واستقلال ان کے ڈی این اے میں شامل تھاجوان کے بچوں میں بھی منتقل ہوگیا ہے۔ پرویز مشرف کی شخصی آمریت کیخلاف ان کی جدوجہد کوکبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ادریس جانبازمرحوم عجز و انکساری،خلوص ،سادگی اور مروت کا ایک مجسمہ تھے۔ ان کا سادہ طرز زندگی سے مشاہیر کی یاد تازہ ہو تی تھی۔ پرویز مشرف کے تاریک دورمیں آمرانہ راج برقراررکھنے کیلئے سیاسی مخالفین کو من گھڑت اوربے بنیاد مقدمات میں ملوث کرنے کارواج عام تھا۔ نواب اکبر بگٹی اور بے نظیر بھٹو جیسی قد آور شخصیات کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ایسے حالات میں پرویزی آمریت کیخلاف جدوجہد کرنا گویا آمرانہ ہتھکنڈوں،خطرات اور مصیبتوں کو دعوت دینے والی بات تھی۔ ان حالات میں جب بہت سے نامور سیاستدان جلاوطن یاجیل میں تھے۔مفاد پرست اور بزدل سیاستدان پرویز مشرف کے حواری اور دست وبازو بن چکے تھے ۔جنہیں پرویز مشرف کا حواری بننا قبول نہ ہوا انہوں نے مصلحت کی چادراوڑھ لی تھی لیکن کچھ اﷲ تعالیٰ کے شوریدہ سر بندے ایسے بھی تھے جنہوں نے کسی سوزوزیاں کی پرواہ کئے بغیر پرویز مشرف کی آمریت کیخلاف علم بغاوت بلند کیا،ہمارے ہیرو ادریس جانبازمرحوم ان میں سے ایک تھے ۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا

ادریس جانباز اس نڈر قبیلے کے سرخیل تھے جوتختہ دار پربھی صدائے حق بلند کر نے سے نہیں ڈرتا۔ اگر وہ چاہتے تو ایوان صدر میں براجمان باوردی آمر سے سمجھوتہ کرکے دوسرے بہت سے مفاد پرست سیاستدانوں کی طرح مراعات سے مستفید ہوسکتے تھے ۔لیکن اصول پسند اور ایماندار لوگ نہ تو کسی مصلحت کے پابند ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی لالچ انہیں ان کے راستے سے ہٹا سکتا ہے۔ مرحوم کی زندگی جہدمسلسل ،سادگی اور انسانیت کی خدمت سے عبارت تھی۔ سادہ لباس، سادہ خوراک اور سادہ طبیعت ان کا طرہ امتیاز تھی۔ سادگی کا اصول ہے کہ وہ اپنے عامل کی طبیعت میں انتہائی بے نیازی پیدا کر دیتی ہے کیونکہ سادہ مزاج انسان کو کسی سے کوئی لالچ نہیں ہوتا ۔ اس کے بر عکس جو لوگ تعیشات کے دلدادہ ہوتے ہیں وہ اپنی خواہشات اور نفس کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں ۔جس کی وجہ سے ان کی شخصیت میں ایک واضح کمزوری پیدا ہوجاتی ہے اوروہ باآسانی دباؤمیں آجاتے ہیں۔ عملی زندگی میں یہ لوگ انتہائی خوشامدی، بزدل اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادارہوتے ہیں۔ ایسے افراد سے خلوص،وفا اور بہادری کی توقع کرنابے سودہوتا ہے۔ ادریس جانبازجیسے نابغہ روزگار سیاسی کارکن اس دور میں چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ۔ یقیناحضرت اقبال ؒ نے اس قسم کی شخصیات کے بارے میں ہی فرمایاتھا"بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا"۔جابرسلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے افضل جہاد ہے اور یہ جہاد کرنا ہر کس و ناکس کے بس کا روگ نہیں ،یہ کام ادریس جانباز جیسے باضمیراور سرفروش ہی کر سکتے ہیں ۔ ادریس جانبازبارہ برس پہلے اس جہاں فانی سے چلے گئے لیکن ان کی یادیں اورباتیں ہماراقیمتی اثاثہ ہیں۔ ادریس جانباز نے جو افکارقائدؒ کے فروغ کاپرچم اٹھایا تھا اسے سربلند کرنا اوران کے فلسفہ سیاست کی خوشبوکوملک کے طول وارض میں پھیلانا ان کے قابل بچوں سمیت ہرسچے " سیاسی کارکن" کافرض ہے ۔
؂ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
Nasir Iqbal Khan
About the Author: Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139691 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.