وزراء اعلی ! آپ کے لئے
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
کھانے کی دعوت چل رہی تھی لوگ
کھانا کھانے میں مشغول تھے اتنے میں شور اٹھا کہ پکڑلو جانے نہ پائے یہ
دہشت گرد ہیں ۔ یہ مشکوک لوگ ہیں ہم نے انہیں مدعو نہیں کیا۔ یہ سننا تھا
کہ لوگوں نے ڈرتے جھجھکتے انہیں گھیر لیا ان کی تلاشی لی گئی ان سے کچھ
برآمد نہ ہوا اور چونکہ وہ ان کے ہاتھ لگ گئے تھے توکچھ لوگوں کے ہاتھوں
میں کھجلی ہورہی تھی لہذا خفت مٹانے کیلئے ان دونوں کی پٹائی اور دھنائی
شروع ہوگئی۔اپنی ’’تسلی‘‘ کرنے کے بعد پولیس کو بلایا گیا۔ کہروڑپکا تھانہ
سٹی پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔ تھانے لے جار کر وہاں پر بھی روایتی
انداز میں’’پوچھ گچھ‘‘کی گئی ۔جس پر معلوم ہوا کہ یہ بیچارے غریب لوگ ہیں
اور اکثر دعوتوں میں بن بلائے چلے جاتے ہیں اور اپنے پیٹ کاجہنم بھر لیتے
ہیں۔ آج بھی اسی نیت اور بھوک مٹانے کی غرض سے اس دعوت میں شامل ہوئے لیکن
شومئی قسمت کہ دہشت گرد بن گئے۔ ورثا و لواحقین کو مطلع کیا گیا اور شنید
کے مطابق ایس ایچ او نے ان کے ورثا سے 10 ہزار روپے نذرانہ لے کر چھوڑ
’’دہشت گردوں‘‘کو چھوڑدیا۔یہ ہیں ہمارے ملک کے حالات۔
سانحہ پشاور اور دوسرے دہشت گردی کے واقعات نے ہم پر جوسنسنی اور خوف و
ہراس مسلط کیا ہے وہ تو ہے ہی۔ ہماری حکومت نے بھی عوام کو خوفزدہ کرنے میں
کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔ اس کی اتنی بے بے جا تشہیر کی جارہی ہے کہ لوگ
خوامخواہ وحشت و دہشت کا شکار ہیں۔دہشت گرد اور ملک دشمن عناصر کے جو عزائم
تھے کہ ملک میں لوگوں خوفزدہ کردیا جائے تو وہ تو پور ے ہوتے دکھائی دے رہے
ہیں۔سانحہ پشاورکی وجہ سے حکومت پاکستان نے سکولز اورکالجز بند کردیئے ہیں
ملک دشمن عناصر کا مقصد پورا ہوگیا۔اب والدین اپنے بچوں کو ان حالات میں
اداروں میں بھیجنے کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہیں اوپر سے تعلیمی اداروں
میں سیکیورٹی کے نام پر جواصلاحات کی جارہی ہیں ان میں سوائے خانہ پری
اورhigh ups کو سب اوکے کی رپورٹ دے کر خوش کیا جارہا ہے۔ اس کی ایک مثال
جنوبی پنجاب کا ایک ضلع لودہراں ہے،30 دسمبر کو ای ڈی او تعلیم نے ضلع بھر
کے تعلیمی پرائیویٹ اداروں کے سربراہان کی ایک میٹنگ سکیورٹی انتظامات کے
حوالے سے بلائی۔سربراہان ادارہ کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے گارڈز اور
چوکیدار کو ہمراہ لے کر پہنچیں۔سربراہان ادارہ بمع لاؤ لشکر میٹنگ میں پہنچ
گئے۔میٹنگ شروع ہوئی لیکن میزبان ای ڈی او تعلیم غلام نازک شہزاد غائب تھے۔
ڈی ای او ایلیمنٹری نے میٹنگ کی کارروائی شروع کی ۔ پہلے تو سیٹنگ ارینج
منٹ انتہائی ناقص تھا سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہ تھا حتی کہ سنگل گارڈ بھی
موجود نہ تھا ۔ نہ میٹل ڈیٹکیٹر تھے اور نہ ہی واک تھرو گیٹس۔ساؤنڈ سسٹم
بوجہ ربیع الاول کی تقریبات ناپید تھا۔ڈی ای او نے سیکیورٹی کے حوالے سے
حکومتی ہدایات کو سربراہان اداروں پرتھوپ دیا گیا۔اور ہدایات اس انداز میں
جاری کی گئیں جیسے کہ تمام سسٹم آلات اور متعلقہ لوازمات انہیں مہیا کردیا
گیا ہے پرائیویٹ سکول مالکان نے انہیں صرف نصب کرنا ہے۔ حالانکہ میٹل
ڈیٹیکٹر جو کہ 1900 روپے کا تھا اس وقت 4500 میں فروخت کیا جارہا ہے خار
دار تار اور سی سی ٹی وی کیمروں کے ریٹ آسمان کو چھورہے ہیں۔اس پر حکومت
کوئی کارروائی نہیں کررہی ۔ بہر حال اسی طرح ریسکیو1122 کے افسر کے خیالات
کے بعد سول ڈیفنس کے ضلعی افسر نے سمجھانا شروع کیا کہ سب آنے جانے والوں
پر کڑی نظر رکھیں۔ مشکوک افراد کے بارے میں متعلقہ اداروں کو مطلع کریں ۔
یہاں تک تو ٹھیک تھا اب انہوں نے مزید فرمایا کہ اگر آپ کو پتہ چل جائے کہ
آپ کی بلڈنگ میں بم ہے تو کوشش کریں کہ تمام دروازے اور کھڑکیاں کھول دیں،
بجلی اور گیس کے کنکشن منقطع کردیں تاکہ دھماکے کی وجہ سے بلڈنگ کو کم سے
کم نقصان ہو۔
واہ جی واہ کیا بات ہے۔ او میرے بھائی جب کسی پرنسپل یا ٹیچر کو یہ پتہ چلے
گا کہ اس بلڈنگ میں بم ہے تو کیا وہ ان تمام باتوں کو عملی جامہ پہنانے
کیلئے وہاں رکے گا ۔بھئی اسے تو اپنی جان کے لالے پڑے ہونگے وہ تو اس بلڈنگ
سے دس کلومیٹر دور جاکر کھڑا ہوگا کہ جان ہے تو جہان ہے بلڈنگ تو پھر بھی
بن جائے گی۔اب وہ اگر دروازے کھڑکیاں کھولتا پھرے تو اسے کیا پتہ اس بم نے
ایک منٹ میں بلاسٹ ہونا ہے ایک گھنٹے میں کہ ایک دن میں۔یہ تو بم ڈسپوزل کے
سٹاف کاکام ہے جوکہ حفاظتی لباس اور آلات سے مزین ہوکر یہ کارروائی کرتے
ہیں۔
وزراء اعلی صاحبان!جس طرح سے یہ کارروائیاں کی جارہی ہیں یہ صرف اور صرف
گونگلوؤں سے مٹی اتارنے کے مترادف ہے چونکہ ہدایات ’’اوپر ‘‘سے ہیں اس لئے
افسران بالاکو سب اوکے کی رپورٹ کرنا ہے حالانکہ کچھ بھی اوکے نہ ہے بس ان
اسی کروڑ روپے کے فنڈز کا استعمال دکھانا ہے جو کہ پنجاب حکومت نے محکمہ
تعلیم کیلئے جاری کئے ہیں بس کاغذی کارروائی پوری کرنے پر زور ہے تاکہ فنڈ
کااستعمال دکھا کر انہیں ہڑپ لیا جائے جبکہ معلومات یہ ہیں کہ ابھی تک کسی
بھی سرکاری سکول میں ان فنڈز کا کوئی بھی حصہ نہیں پہنچا ہے۔پرائیویٹ سیکٹر
میں کھلبلی مچی ہوئی ہے ایک تو آلات اور لوازمات میسرنہیں اور اگر مل بھی
رہے ہیں تو انتہائی مہنگے داموں اور بلیک میں مل رہے ہیں جبکہ ان کو تو کسی
بھی طرح سے کوئی سہولیات نہیں دی جارہی ہیں صرف ہدایات کو impose کیا جارہا
ہے اسی طرح والدین کی بھی خواہش ہے کہ اگر سکول 5 جنوری کو نہیں کھولنے
دیئے جارہے ہیں تو کم از کم بارہ جنوری کو لازمی طور پر کھل جانے چاہئیں
کیونکہ یہ دن پڑھائی کے حوالے سے انتہائی peak پر ہوتے ہیں اس ٹائم کو اللے
تللو میں برباد نہ کیا جائے کیونکہ جس قسم کے security measures کئے جارہے
ہیں دہشت گردوں کو ان سے نہیں روکاجاسکتا۔بلکہ جو خفیہ ادارے اس حوالے سے
رپورٹ کررہے ہیں ان کو چاہئے کہ خوف و ہراس پھیلانے کی بجائے ملک دشمنوں
اور تخریب کاروں کی سرکوبی کے لئے اپنے فرائض سرانجام دیں۔اور سکول کے
مالکان اور سربراہان زیادہ سے زیادہ ریلیکس کریں تاکہ وہ دہشت گردوں اور
تخریب کاروں کی بجائے نونہال وطن اور معماران قوم کی تعلیم و تربیت کی طرف
توجہ دے سکیں |
|