نفرت پھیلاؤ پالیسی اور اس کے سلسلے

 سانحہ پشاور کے بعد قومی سیاسی قیادت نے جس یکجہتی کا مظاہرہ کیا یہ وقت کا تقاضا بھی تھا اور ان تمام سیاسی قائدین کی سیاسی بصیرت کا امتحان بھی۔ آرمی پبلک سکول پشاور میں ڈھائی جانے والی بربریت نے پوری قوم کو صدمہ سے دوچار کردیا۔اس سانحہ کے بعد حکومت پاکستان نے سزائے موت بحال کرنے کا جو فیصلہ کیا اسے بہت پہلے کرلینا چاہیے تھا۔اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے اگرچہ اس فیصلہ پر اپنے تحفظات کا اظہارکیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے وزیراعظم پاکستان نوازشریف سے ٹیلیفون پر گفتگوکرتے ہوئے سزائے موت نہ دینے کامطالبہ کیاتو نوازشریف نے اس کا یہ مطالبہ یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ بچوں کے قاتلوں کو نہیں چھوڑسکتے۔ یورپی یونین نے بھی یہ کہہ کر رضامندی ظاہر کردی کہ سزائے موت پر عملدرآمد کافیصلہ پاکستان کااندرونی معاملہ ہے۔دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے بھی خصوصی عدالتیں قائم کردی گئی ہیں ۔سزائے موت پر عملدآمدبھی جاری ہے۔دہشت گردوں کو تختہ دارپر لٹکایاجارہا ہے۔آرمی پبلک سکول پشاورمیں بچوں پر بربریت کیا ہوئی کہ پوری قوم کے دل بھرآئے۔ جس روز یہ سانحہ ہوا۔مقامی ہوٹل میں نیوزچینلزپر اس سانحہ کی خبر چل رہی تھی۔ خبر پڑھتے ہی دل بھر آیا اورآنکھوں سے آنسو آگئے۔ وہاں پر موجودچارسے پانچ افرادکے بھی دل بھر آئے۔ اور ان کی آنکھوں بھی آنسو آگئے۔ کچھ پتھر دل ایسے بھی ہیں جنہیں اس سانحہ پر کوئی غم اورافسوس نہیں ہے۔ ان میں سے ایک سنگ دل کے خلاف تو سول سوسائٹی نے مظاہرے بھی کیے ہیں۔اور اس کے خلاف مقدمات بھی قائم ہوچکے ہیں۔کچھ شخصیات نے سانحہ پشاورکی سنگینی یہ کہہ ختم کرنے کی کوشش کی ہے کہ لال مسجد میں شہید کی گئی بچیاں باجوڑمیں جیٹ طیاروں کی بمباری سے بچوں کاقتل بھی تودہشت گردی ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ پشاورمیں معصوم طلبہ پر حملہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ قوم نے باجوڑمیں امریکی ڈرون حملہ اورلال مسجد آپریشن کی حمایت کی تھی۔ اب وہی لال مسجد والے نے سانحہ پشاور کی مذمت سے انکارکردیاہے۔اس کاتجزیہ قارئین خودکرلیں۔ پشاورمیں مذکورہ سکول میں اساتذہ اوربچوں پر ہی حملہ نہیں بلکہ یہ تعلیم اورملک کے مستقبل پر حملہ ہے۔کسی تعلیمی ادارے پر یہ پہلا حملہ ہی نہیں بلکہ یہ سلسلہ پچھلے چند سالوں سے جاری تھا۔تعلیمی اداروں پر یہ حملہ اس پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت پاکستان کے شہریوں کے آپس میں اورمذہبی ، قومی اداروں اورراہنماؤں سے نفرت پیداکرکے ملک کوعدم استحکام سے دوچارکرنا ہے۔قارئین کویادہوگا کہ وطن عزیزپاکستان میں فرقہ واریت کی ایک لہر چلی تھی جوکئی سالوں تک جاری رہی۔ اس لہر سے پہلے ملک میں فرقہ واریت کا کوئی وجودنہیں تھا۔ شہری اوردیہاتی امن اورسکون سے رہ رہے تھے۔ محرم الحرام اورعید میلادالنبی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے جلوس پرامن ہواکرتے تھے۔ اوران جلوسوں میں تمام مکاتب فکر کے مسلمان شرکت کیا کرتے تھے۔ مساجدمیں بھی امن اورسکون تھا ۔ مساجدمیں نمازیوں کی تعداداب کی نسبت کہیں زیادہ ہواکرتی تھی۔مسلکی اورعلمی اختلاف توموجودتھاتاہم اس میں شدت نہیں تھی۔پھر فرقہ واریت کی ایسی لہر چلی کہ امن اورسکون گزرے دنوں کی یادیں بن گئے۔ مذہبی جلسوں اور اجتماعات پر حملے ہونے لگے۔شدت پسند تنظیمیں وجودمیں آئیں۔ایک دن ایک مذہبی تنظیم کے جلسہ پرفائرنگ ہوئی جس سے کئی علماء اور عام شہری جاں بحق ہوگئے۔ تواسی دن ،دسرے دن یااس کے چند دنوں بعد اس مذہبی تنظیم کی مخالف مذہبی تنظیم کے جلسہ پربھی فائرنگ ہوگئی۔ اس حملہ میں بھی کئی علماء اور عام شہری جاں بحق ہوگئے۔ یہ سلسلہ کئی سالوں تک جاری رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان تنظیموں کے زیراہتمام قائم مساجد میں بھی آئے روزنمازیوں پرنمازپڑھتے ہوئے فائرنگ کی جاتی رہی۔ اﷲ کے امن والے گھر مساجدمیں نمازپڑھتے ہوئے نمازیوں پرگولیاں برسائی جاتی رہیں۔ مساجدکو انسانی خون سے رنگین کیاجاتارہا۔فرقہ وارانہ تقاریراوراشتعال انگیزنعروں نے اس آگ کو اوربھڑکایا۔کافرکافرکے نعرے لگائے جاتے رہے۔مذہبی پرگرامووں کوبدعت کہہ کرمسلمانوں کوان سے دورکرنے کی کوشش اب بھی جاری ہے۔مذہبی جلسوں اورمساجدپرحملوں سے عوام کوعلماء اور مساجدسے دورکرنے کی سازش کی گئی۔ عوام مذہبی جلسوں میں جانے سے پرہیزکرنے لگے۔ حکومت پاکستان نے فرقہ واریت کو ختم کرنے کاایک نسخہ یہ تلاش کیاکہ اس نے لاؤڈسپیکرپرپابندی لگادی۔اب اس پابندی کواوربھی سخت کردیا گیا ہے۔اس سے اتنا فائدہ توہواکہ فرقہ وارانہ تقریروں میں کمی آئی۔فرقہ واریت کی وجہ سے مساجدمیں نمازیوں کی تعدادبھی کم ہوتی گئی۔ وہ اس ڈرسے مسجدنہیں آتے کہ کہیں حملہ نہ ہوجائے۔ جمعہ کے روز نمازجمعہ کے وقت جب لاؤڈسپیکرپرعلماء کاخطاب شروع ہوتا تھا تومسلمان یہ سمجھ جاتے تھے کہ نمازکاوقت قریب ہے اس لیے وہ تیارہوکرمساجدمیں آکرنمازجمعہ اداکرلیاکرتے تھے۔ جب سے سپیکربندہوئے ہیں۔ ساتھ والے گھرکوبھی پتہ نہیں چلتاکہ مسجدمیں اس وقت کیا ہورہاہے۔ اب موبائل تواکثرمسلمانوں کے پاس موجودہے۔تاہم اتنی ہمت توہرکسی کے پاس نہیں ہوتی کہ وہ اس پرٹائم دیکھ لے کہ نمازکاوقت ہونے والا ہے یانہیں۔یہی وجہ ہے کہ مساجدمیں نمازیوں کی تعدادکم ہوتی جارہی ہے۔ اور وجوہات بھی ہیں تاہم ایک وجہ یہ بھی ہے۔ملک میں تشدد،اغواء، گینگ ریپ کے جرائم کوعام کرنے کے لیے ماردھاڑاورایسے جرائم سے بھرپور فلمیں مارکیٹ میں پھیلائی گئیں۔ جس زمانے میں وی سی آرکرائے پرلے کرشہردیہات میں فلمیں دیکھی جاتی تھیں ۔اورجب سینماہال فلمیں دیکھنے والوں سے کھچاکھچ بھرے ہوا کرتے تھے۔ اس دورمیں جوکچھ سکرین پردکھایاجاتاتھا اب وہی کچھ زمین پرہورہاہے۔حکومت نے فرقہ واریت پرتوتوجہ دی۔ اس طرف نہیں۔ کسی کواندازہ ہی نہیں تھا کہ اس کے کیانتائج نکلیں گے۔ ملک میں دہشت گردی پھیلانے میں ماردھاڑاورفحاشی کی فلموں کابھی عمل دخل ہے۔مارکیٹ میں ایسی فلمیں پھیلاناپاکستان کوعدم استحکام کاشکارکرنے کاحصہ تھا۔یہ الگ بات ہے کہ اس بات کاادراک یہ فلمیں لکھنے اوربنانے والوں کوبھی نہیں تھا۔اب بھی سکرین کوکنٹرول کرلیاجائے تومستقبل کوبھی کنٹرول کیا جاسکتاہے۔فرقہ واریت کے بعد چندسال کی خاموشی کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کوجھونک دیاگیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دینے کافیصلہ اگرچہ پرویزمشرف کاملک کوبچانے کے لیے ہی تھا۔ تاہم اس سے ملک کوبہت ساجانی ومالی نقصان اٹھاناپڑا۔ ایک طرف ڈرون حملوں سے ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کوقتل کیاگیا۔ تودوسری طرف خودکش حملوں اوربم دھماکوں سے بھی ہزاروں بے گناہ پاکستانی قتل ہوئے۔سرکاری املاک، پبلک مقامات، تعلیمی اداروں، ائیرپورٹ، جی ایچ کیو، فوجی قافلے،جنازے، قل خوانیاں ہرجگہ دھماکے کیے گئے۔عوام کوان اداروں، جنازوں اورقل خوانیوں سے دورکرنے کی سازش کی جارہی ہے۔دہشت گردوں کے خلاف کئی آپریشن ہوئے اب آپریشن ضرب عضب جاری ہے۔دہشت گردی کے یہ واقعات جاری تھے کہ ملک میں عام انتخابات آگئے۔ عام انتخابات میں سیاستدانوں اورسیاسی جلسوں پر حملے کیے گئے۔ کئی سیاستدان ان حملوں میں مارے گئے۔عوام کوسیاسی عمل سے بھی دورکرنے کی سازش کی گئی۔اگر فرقہ وارانہ واقعات میں مولویوں کاہاتھ تھاتوکیایہ کہاجاسکتاہے کہ سیاستدانوں پرحملوں میں سیاستدانوں کاہی ہاتھ تھا؟سب کا جواب نفی میں ہے۔ گرجاگھروں پربھی حملے ہوئے۔ ہزارہ برادری کے لوگوں کوبسوں سے اتارکرماراگیا۔عام انتخابات ہوگئے۔ حکومت نے دہشت گردوں سے مذاکرات کرکے ملک میں امن قائم کرنے کی کوشش کی اس دوران اندوہناک واقعہ سامنے آگیا۔ جس کے بعد سیاستدانوں سمیت قوم کایہی مطالبہ تھا کہ اب ان دہشت گردوں کے خلاف طاقت کااستعمال کیاجائے۔اس کے بعد آپریشن عضب شروع کردیاگیا جوتاحال جاری ہے۔دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ۔ قوم نے ذراسااطمینان کاسانس لیاہی تھاکہ دہشت گردوں نے آرمی پبلک سکول پشاورمیں معصوم طلبہ اوران کے اساتذہ پرحملے کرکے ان بدمعاشوں نے قوم کاتھوڑاسا اطمینان بھی چھین لیا۔پہلے قوم کومذہب اور مساجد سے دورکیا گیا اب تعلیمی اداروں سے دور کیا جارہا ہے۔ یہ سب پروگرام ، یہ سب واقعات نفرت پھیلاؤمہم کاحصہ ہیں۔ کہ پاکستانی قوم کو مساجد، مدارس، مذہبی، سیاسی ، جماعتوں، محکموں اورتعلیمی اداروں سے نفرت پیداکرکے ملک کوعدم استحکام کاشکاربنانے کی پالیسی کاتسلسل ہیں۔یہ ہماری روایت ہے کہ ہمیں چوٹ لگنے اور بہت نقصان برداشت کرنے کے بعد سمجھ آتی ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہورہاہے اورہم ابھی تک کیا سمجھ رہے تھے۔ دشمن ہرمرتبہ نئے روپ اورنئے اندازمیں ہم پرحملہ آورہوتاہے۔پشاورمیں آرمی پبلک سکول میں جودہشت گردمارے گئے۔ ایک اخبارکی رپورٹ کے مطابق ان کے ختنے بھی نہیں ہوئے تھے۔اگریہ سچ ہے تواس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دہشت گردمسلمان نہیں تھے۔دین سے دورکرنے کے بعداب علم سے بھی دورکیاجارہاہے کہ نہ پاکستانیوں کے بچے سکول جائیں گے نہ علم حاصل کریں گے اورنہ ہی یہ ترقی کریں گے۔نفرت پھیلاؤمہم کے تحت کالاباغ ڈیم نہیں بننے دیاجارہا۔پاکستان ایران گیس پائپ لائن پرعملدرآمدنہیں کرنے دیاجارہا۔سری لنکاکی کرکٹ ٹیم پرحملہ کرکے پاکستان کودہشت گردملک ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ اس کایہ اثرہواکہ اس کے بعد کوئی غیرملکی ٹیم پاکستان میں کھیلنے نہیں آئی۔ ان تمام مسائل اورالجھنوں کے حل کے لیے جوکرناچاہیے تھا وہ نہیں کیا۔ اورجونہیں کرناچاہیے تھا وہ کرلیا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں سمجھنے میں غلط فہمی ہوگئی۔ پہلے ملک میں امن کے قیام کے لیے لاؤڈسپیکرکے استعمال پرپابندی لگی۔ اب تعلیمی اداروں ، اساتذہ اورطلبہ طالبات کے تحفظ کے لیے تعلیمی ادارے بندپڑے ہیں۔یہ حالات کاتقاضا اورضرورت تھی کہ عمران خان نے سیاسی بصیرت کامظاہرہ کرتے ہوئے دھرناختم کردیا۔ اورملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے حکومت کاساتھ دینے کااعلان کیا۔سانحہ پشاورکے بعد ایک اور تبدیلی بھی آئی کہ جوسیاستدان دہشت گردوں کی کبھی بھی مذمت نہیں کیاکرتے تھے۔ اب وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ان بدمعاشوں کوپھانسی دی جائے۔دہشت گردوں کے خلاف پہلے بھی آپریشن ہوتے رہے ۔ جب بھی ان بدمعاشوں کے خلاف آپریشن کیاجاتاملک میں بم دھماکوں اورخودکش حملوں کی لہرچل پڑتی۔شہر،شہر دھماکے اورخودکش حملے کیے جاتے۔ اس وقت کہاجاتارہاکہ طالبان پر ظلم ہورہاہے۔ ان سے بات کی جائے ۔ ان کی بات سنی جائے۔ اب جب نوازشریف کی موجودہ حکومت نے طالبان سے مذاکرات کیے۔طالبان نے چندددنوں کے لیے جنگ بندی توکردی۔ پھراندوہناک واقعہ پیش آگیا۔ جس کے بعد سب کاایک ہی مطالبہ تھا کہ ان دہشت گردوں کے خلاف طاقت کاآپشن استعمال کیاجائے۔ اب جب سے آپریشن ضرب عضب شروع ہواہے۔ کسی نے بھی نہیں کہا کہ ان سے بات کی جائے۔حکومت اورعسکری حکام کی بہترحکمت عملی کی بدولت پہلے کی نسبت بہت کم بم دھماکے ہوئے۔ تاہم یہ خطرہ اپنی جگہ موجودتھاکہ دہشت گردکسی بھی وقت کسی بھی جگہ حملہ کرکے امن کوتہہ وبالاکرسکتے ہیں۔ دہشت گردوں نے چندہفتوں کے وقفہ کے بعد ایسا شدید حملہ کیا کہ پوری قوم رورہی تھی۔ حکومت پاکستان نے اس وقت جوغیرمعمولی اقدامات کیے ہیں۔ وہ پہلے کرلیے جاتے توبہترتھا۔اب بھی ان کے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔دہشت گردوں کوپھانسی دینے کاسلسلہ آخری دہشت گردکے لٹکنے تک جاری رکھاجائے۔دشمن کوپہچاناجائے ۔ بیرون ملک سے آنے والوں کی اچھی طرح چیکنگ کی جائے۔ ہماری دورے ملکوں میں تلاشی لی جاتی ہے۔ اب حکومت پاکستان بھی بیرون ملک سے آنے والوں کی اسی طرح تلاشی لی جائے۔دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے الیکشن اصلاحات کی طرح تجاویزمانگی جائیں ۔ پھر ازسرنوحکمت عملی بناکراس پرعمل کیاجائے۔قوم اب ہرصورت دہشت گردی اوردہشت گردوں کاخاتمہ چاہتی ہے۔اب اس نفرت پھیلاؤپالیسی کومحبتیں بانٹوپالیسی میں تبدیل کرناہوگا۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350985 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.