ملعون فرانسیسی جریدے پرحملہ
موساد کی کارستانی ہے
ملعون فرانسیسی جریدے ”چارلی ایبڈو“کے دفتر پربدھ کے روزہونے والا
خونریزحملہ بدنام زمانہ اسرائیلی ایجنسی (موساد)کی فرانس کے خلاف انتقامی
کی کارروائی ہے۔ 30دسمبر2014ءکو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں
آزادفلسطینی ریاست کے حق میں اردن کی جانب سے پیش کی جانے والی قراردادکے
حق میں ووٹ دینے کے بعدیورپی سطح پراسرائیل مخالف جذبات میں اضافہ ہواہے جس
پرمشتعل ہوکراسرائیلی ایجنسی نے فرانس سمیت فلسطین کی حمایت کرنے والے
یورپی ملکوںکونشانہ بنانے کاپلان بنالیاہے ۔ فرانس میں بسنے والی مسلم
کمیونٹی اور حکومت کے درمیان خونریز کارروائیاںبڑھکا نے کے لیے موسادنے
انتہائی چالاکی کے ساتھ ایک ایسے جریدے کے دفترکونشانہ بنالیاہے جوشان
رسالت میں گستاخی کی مذموم جسارت کے باعث عالمی سطح پرمسلمانوںکے ناپسندیدہ
اخبارہونے کی شہرت رکھتا ہے۔
عرب ویب سائٹ وطن نیوز نے امریکی ویب سائٹ” انٹرنیشنل بزنس ٹائمز“کے حوالے
سے لکھاہے کہ فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں بدھ کوملعون جریدے چارلی
ایبڈوکے دفترپرحملے کے نتیجے میں گستاخ کارٹونسٹوںاورچیف ایڈیٹرسمیت
12افرادکی ہلاکت کی ذمہ دارموسادکو قراردیاہے۔رپورٹ کے مطابق موسادنے فرانس
میںنسلی ومذہبی تعصب اورامتیازی سلوک کانشانہ بننے پرمسلمان بالخصوص عرب
نواجوانوںکے اشتعال کافائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اپنے مذموم مقاصدکے لیے
استعمال کیاہے ۔فرانس سمیت تمام یورپی ممالک میں مسلمانوں کی شہرت کوخراب
کرنے کے لیے موسادمسلمان نوجوانوں کومختلف لالچیں دے کرتیارکررہی ہے ۔ویب
سائٹ کے مطابق چارلی ایبڈوکے دفترپرحملے میںموسادملوث ہے۔گستاخ جریدے کے
دفترپرحملے کے لیے صہیونی ایجنسی نے اپنے پیشہ ورقاتلوںکواستعمال کیاہے
۔رپورٹ کے مطابق عرب میڈیااورفرانسیسی مسلم کمیونٹی نے اس کارروائی کو یورپ
میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف سازش سے تعبیرکرتے ہوئے ان کے مستقبل کے
لیے انتہائی خطرناک قراردیاہے۔ ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق حملے کی انٹیلی
جنس اطلاعات ہونے کے باوجود خودکاررائفلوںسے لیس مسلح ملزمان کا ہائی
سیکورٹی زون میں داخل ہونااورفائرنگ کرکے صحافیوںاورپولیس اہلکارسمیت
12افرادکو ہلاک اور13کوزخمی کرکے فرارہونے کے بعدکامیابی سے فرارہوناسوالیہ
امرہے جس پر فرانس کی مسلم کمیونٹی نے تشویش ظاہرکی ہے۔
ادھر الجزائر سے شائع ہونے والے جریدے الشروق نے لکھاہے کہ مقتول
ایڈیٹرکوفرانسیسی صدرکی خصوصی ہدایت حاصل تھی اوراس شان رسالت میں گستاخانہ
کارٹون فرنچ صدرکی ایماءپرشائع کیے تھے۔ گستاخانہ خاکوںکی اشاعت کے
بعدجریدے کومقبولیت ملنے لگی تھی جس کی وجہ سے اس نے 2011ءمیں ایک مرتبہ
پھر گستاخانہ خاکے شائع کروانے کی ناپاک جسارت کرلی تھی جس کے نتیجے میںاس
کے دفترپردستی بموںسے حملہ ہواتھاچونکہ چارلی ایبڈویورپ کے
اسکینڈینیویاممالک سے باہرگستاخانہ خاکے شائع کرنے والاواحدجریدہ
تھا۔1969ءسے شائع ہونے والاچارلی ایبڈوکی پبلشنگ انتہائی محدودتھی۔مالی
مشکلات کے باعث اس میں کام کرنے والے اکثرصحافی اسے چھوڑچکے تھے۔ایک قلاش
جریدے کے لیے حکومت کی جانب سے سیکورٹی کی ضمانت کے بغیر اتنی بڑی جرآت
ممکن نہ تھا اس وجہ سے کے دفترپر حملے کے بعد ملعون چیف ایڈیٹرکوتسلی دینے
کی خاطرخودفرانسیسی وزیرداخلہ نیکولاسارکوزی آئے تھے ۔اوراسے پوری سیکورٹی
دے دی تھی ۔وزیرداخلہ کے علاوہ پیرس کے میئر نے بھی جریدے کواپنے تمام
ترتعاون کایقین دلایاتھا۔چونکہ فرانس میں بسنے والے مسلمانوںمیںاکثریتی
طبقہ الجزائر کے عرب مسلمانوںکاہے۔الجزایری جریدے الشروق نے لکھاہے کہ
چارلی ایبڈوکادفترہائی سیکورٹی وزن میں تھادفترکے اطراف میںہروقت سادہ وردی
میںپولیس اور انٹیلی جنس اہلکارہرتعینات رہتے تھے اس وجہ سے وہاں کسی عام
شخص کاجاناانتہائی مشکل بلکہ محال امرہے۔اس کے برعکس دفترپرہونے والے حملے
کے عینی شاہدین کاکہناہے کہ کارروائی ہرگزکسی اجنبی شخص کی نہیں تھی کیونکہ
حملہ آور وںکی نقل وحرکت سے معلوم ہورہاتھاکہ وہ ایک سیکنڈکی منصوبہ بندی
کرکے آئے تھے۔ واقعے کے منظرعام پرآنے والی ویڈیوکلبس میں حملہ آوروںکو جس
پھرتی کے ساتھ کارروائی کرتے ہوئے دکھایاگیاہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ حملہ
آورپیشہ ورانہ تربیت یافتہ تھے۔عینی شاہدین نے بتایاہے کہ حملہ آورصاف فرنچ
بول رہے تھے جبکہ کارروائی کے وقت انہوںنے تکبیر کے نعرے بلند کرنے کے ساتھ
شان رسالت کاانتقام لینے کابھی اعلان کیاہے ۔ویب سائٹ کے مطابق حالیہ
کارروائی ماضی میںموسادکے ہاتھوں فلسطینی کازکی اہم شخصیات کے قتل سے مختلف
نہ تھی ۔موسادکسی بڑے ٹارگٹ کے لیے اکثرکلاشنکوف کااستعمال کرتی ہے۔چارلی
ایبڈوکی کارروائی 1988ءمیں تیونس میں یاسرعرفات کے نائب ابوجہادکو تیونس
میں قتل کرنے کے لیے استعمال ہونے والی کارروائی سے ملتی جلتی ہے۔اس
کارروائی کامقصد فرانس سے فلسطینی حمایت کا انتقام لینے کے ساتھ مسلمانوںکے
خلاف معاندانہ مہم کو مزید گرماناہے۔رپورٹ کے مطابق جریدے کے دفترپرحملے کے
بعد فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک میں بھی مساجد پرحملے شروع ہوگئے
ہیں۔فرانسیسی حکومت نے حملے کی ذمہ داری مسلمانوں پرڈال کر تحقیقات
کاآغازکردیاہے ۔ حمید مرادنامی ایک اٹھارہ سالہ نوجوان نے خودکورضاکارانہ
طورپرپولیس کے حوالے کیاہے جبکہ سیکورٹی اداروںنے باقی دوافرادکو مشکوک
قراردے کر تلاشی شروع کرلی ہے ۔حکام نے دوسگے بھائیوں 32سالہ شریف خواشی
اور34 سالہ سعیدخواشی پرحملوںمیں ملوث ہونے کاالزام عاید کیاہے جن کی تلاش
کے لیے پولیس کی کاچھاپہ مارکارروائیاں جاری ہیں ۔بغیرکسی ثبوت کے واقعے کی
کڑیوںکو مسلمانوں سے ملانے پر فرانس کی مسلم کمیونٹی نے حکومت سے مطالبہ
کیاہے کہ واقعے میں ملوث افرادکی مکمل تحقیقات کی جائیںکیونکہ یہ واقعہ
مسلمانوںکے خلاف سازش کاحصہ معلوم ہوتاہے ۔وطن نیوز کے مطابق یورپ میں
فلسطینی ریاست کے حق میں قراردادوںکی منظوری کے بعد موساد نے عرب نوجوانوں
کو ایجنٹ بنانے کے لیے باقاعدہ اشتہاری مہم چلائی تھی ۔
واضح رہے کہ سال 2014ءکے آخرمیںاقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اردن کی
سربراہی میں عرب ملکوںنے فلسطینی ریاست کے حق میں قراردادپیش کی تھی اس
قرارددادکے حق میں صرف8ووٹ آسکے تھے جبکہ اس کی منظوری کے لیے 9ووٹ
درکارتھے۔امریکااورآسٹریلیانے اس قراردادکی زبردست مخالفت کی تھی برطانیہ
نے خاموشی اختیارکرلی تھی جبکہ چین اورروس کے ساتھ فرانس وہ ویٹوپاورکاحامل
وہ تیسراملک تھاجس نے سلامتی کونسل میں امریکی اوراسرائیلی شدیدمخالفت کے
باوجودفلسطین کے حق میںاپناووٹ استعمال کیاتھا۔سلامتی کونسل میں فلسطین کی
حمایت سے قبل 2 دسمبرکو فرانسیسی پارلیمان نے آزادفلسطینی ریاست کے حق
میںایک قراردادمنظورکی تھی ۔فرانسیسی پارلیمان میںمنظورہونے والی اس
قراردادکے حق میں 339ووٹ آئے تھے جبکہ مخالفت میں صرف 151ووٹ ڈالے گئے تھے
۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں سلامتی کونسل میں فلسطین کے حق میں پیش کی جانے
والی قراردادکی روسے اسرائیل سے 2017ءتک تمام فلسطینی علاقوںسے قبضہ ختم
کرنے کامطالبہ کیاگیاتھا۔رپورٹ کے مطابق موسادکی جانب سے فرانس کی طرح
جرمنی،سویڈن،ارجنٹائن،چلی اور فلسطین کے حامی دیگریورپی اورغیریورپی
ملکوںکو بھی اس نوعیت کے حملوںکانشانہ بنانے کاخدشہ ہے۔ معتبر عرب جریدے نے
گزشتہ ماہ انکشاف کیاتھاکہ جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ مظاہروںکے
پیچھے بھی موساد سرگرم ہے۔ ایک تیرسے دوشکار کھیلنے کے مصداق موساد ایک
جانب مسلمان نوجوانوں کواستعمال کرکے فلسطینی حمایت کابدلہ لینے کے لیے
یورپی ملکوں کے امن وامان میں نقب ڈال رہی ہے اوراس کے ساتھ مسلمانوں کو
دہشت گردباور کراکے یورپی معاشرے میں ان کے بڑھتے ہوئے مثبت اثرات کوپھیلنے
سے روک رہی ہے۔امریکاکے سیاسی تجزیہ کار”بل ماہر“سمیت مطابق امریکی
اوریورپی میڈیاسے وابستہ متعددمتعصب صحافیوںنے مطالبہ کیاہے کہ فرانس سمیت
یورپ اورامریکا میں بسنے والے مسلمانوںکو اس وقت تک دہشت گردی کے الزام
میںمشکوک قراردینے سے بری نہ کیاجائے جب تک وہ دین اسلام اور(نعوذباللہ
)بنی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تحریری وتقریری گستاخی کو
جائزتسلیم کرنے کامعاہدہ نہیں کرتے ۔
عرب میڈیاکے مطابق حملے کے بعدمغربی میڈیااورسوشل اداروںنے چارلی ایبڈوکے
ساتھ بھرپوراظہارہمدردی کیاہے ۔جریدے کے ادارتی بورڈنے آئندہ ہفتے 10لاکھ
نسخوںکی پبلشنگ کااعلان کیاہے ۔گوگل کی کمپنی نے جریدے کواڑھائی لاکھ
ڈالررقم دینے کااعلان کیاہے جبکہ فرانس کے تمام ذرائع ابلاغ اداروںنے جریدے
کو بھاری مالی فنڈنگ کی فراہمی کایقین دلایاہے۔
|