امن کی آشا ہے تو امن کی بھاشا کو عام کرنا ہوگا

دولت ،شہرت اور اقتدار کو ہضم کرنے کے لیے وسیع ظرف کی ضرورت ہوتی ہے اور جو لوگ اس سے محروم ہوتے ہیں ان کے رویوں میں منافقت ،لالچ ،سطحیت اور احساس برتری در آتا ہے ،لیکن اگر یہ رویے عام آدمی کے ہوں تو اس سے معاشرے میں مسائل پیدا ہوتے ہیں لیکن اگر یہ راہنما کے ہوں تو پوری قوم متاثر ہوتی ہے ،کیونکہ جو انسان ان رویوں کا عادی ہوگا وہ دور رس نتائج اور وقت کی ضرورت پر کبھی نگاہ نہیں رکھ سکتا ۔اور ہمیں یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ صرف وہ نگاہ دور رس اور دور بین ہوتی ہے جو ہر قسم کی ہوس سے پاک ہو اور جس دل میں حب الوطنی کا جزبہ اور خلوص نیت بھراہوا ہو ۔
سانحہ پشاور کو ایک ماہ ہونے کو ہے اورمقام افسوس یہ ہے کہ ہم ابھی تک پالیسیوں ، آئینی ترامیم ، مختلف قسم کے خود ساختہ اندیشوں اور ماضی کے عفریت میں گھرے ہوئے ہیں ۔سانحہ پشاور کے بعدیوں لگتا تھا جیسے تمام سیاستدان اور تمام قوم ایک ہی صف میں کھڑے ہیں اور یہ کسی حد تک سچ بھی تھا مگر آج مجھے یہ کہتے ہوئے دکھ ہورہا ہے میرے عوام سمیت تمام سیاستدان ہمیشہ کی طرح اس عالمگیرلرزہ خیزسانحہ کو فراموش کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور اپنی اپنی خود ساختہ یا روایتی جنگوں میں پھر سے برسرپیکار ہیں ۔وائے افسوس ہم سب نے پھر بھلا دیاہے کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں اور وقت کس چیز کا متقاضی ہے ۔ہم نفسانیت کو قومیت کے لبادھے میں چھپاتے ہیں چاہے کچھ بھی ہوجائے ہم مقاصد عالیہ کے لیے خود کو وقف کر ہی نہیں سکتے ۔کیونکہ وہ جذبہ ہی ناپید ہو چکا ہے جس کا شاخسانہ اسلاف کی عظمت و وقارکا تحفظ اور دھرتی ماں سے وفاداری تھا ۔دہشت گردی کا خاتمہ ،قومی ضروریات زندگی کی فراہمی اور معشیت کی بحالی یہ سب خالصتاً قومی ایجنڈا تھا جس کی تکمیل وفاقی حکومت کی آئینی ذمہ داری تھی ۔اور اس مقصد کے لیے آئین و قانون ہی صوبائی حکومتوں کو بھی پابند کرتا ہے کہ وہ ممکنہ تعاون فراہم کریں ۔لیکن یہ بات بھی ہمیں نہیں بھولنی چاہیئے کہ ملک کو غیر یقینی صورتحال سے نکالنے اور عوام میں قومی اور اخلاقی زندگی کو رواج دینے کی ذمہ داری خود عوام اور منتخب نمائندوں کی ہوتی ہے ۔یہ اس ملک کی بدنصیبی سمجھ لیں کہ جمہوریت کی بحالی کے باوجود اس سے مطلوب رفتار کا کوئی ایسا ارتقائی عمل شروع ہی نہیں ہوا جو اس ملک و قوم کو جملہ بحرانوں سے نکالتا اور ایک ایسا رخ اختیار کرتا جس سے رفتار ترقی میں اضافہ ہوتا بلکہ اس کی ناؤ جو طوفانوں کی زد میں تھی اسے کنار ہ بھی مل جاتا ۔جب کہ ہمیں انقلاب اور احتساب کے نہ صرف گیت سنائے گئے بلکہ یہ تمام سول قوتیں یہ اعتراف کرتی دکھائی دیں کہ
ہم نکھاریں گے رخ ِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے

مگر ۔۔وعدے ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور عزم دودھ کا اُبال ۔حالات نے مزحکہ خیز صورت اختیار کی اوردھرنا سیاست اور سٹریٹ پالیٹیکس نے رہی سہی کسر پوری کر دی ۔پھرپے در پے حادثات اور سانحات نے حالات کو اور گھمبیر بنا دیامگر ہم تو چند دن کا بھی سوگ نہ منا سکے ،وہی مزحکہ خیزی ،بیان بازی ،منافرت ،مفاد پرستی اور وہی فرقہ پسندی اور ذہنی پستی جس کا قلع قمع کرنے کا قوم کو یقین دلایا گیا تھا اورجس وقت ٹپاؤ لبادھے کو نذرِ آتش کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا اس کو سب دوبارہ اوڑھ چکے ہیں ۔کوئی ہنی مون کی تیاری میں مصروف ہے، کوئی آمریت کو پکار رہا ہے ، کوئی اس خوف میں مبتلا کہ اب کہ مڈٹرم الیکشن کا واویلا دوبارہ نہ مچ جائے ،کوئی اس زعم میں کہ وہ ہی اب کے انتخاب ہوگا اوراتحادی اور مذہبی جماعتیں اپنے اپنے غم و غصہ ،اندیشوں اور تفکرات میں مبتلا ہیں ۔الغرض جہاں سے ہم چلے تھے وہیں پر آگئے ہیں ۔

اس پر طرہ یہ کہ پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے بڑی تگ و دو اور دل شکستگی کے ساتھ جس اکیسویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیئے کیونکہ موجودہ حالات میں کوئی اور حل نظر نہیں آرہا تھا ۔اس کے بارے بھی کبھی صریحاً اور کبھی درپردہ موشگافیاں عروج پر ہیں۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر وفاق اور صوبوں میں حکومتیں بنانے والی سیاسی جماعتوں کا ہوم ورک مایوس کن نہ ہوتا تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ،مگر اب چونکہ سول قیادت اور ہمارے سیکیورٹی اداروں کی کپیسٹی ،عزم اور اقدامات گھمبیر قومی اور ملکی بحران کو سنبھالنے کے لیے ناکافی ہیں اور حریف’’ طاقت کی بھاشا ‘‘سے شناسا ہے اس لیے بھی اس ایکشن پلان کو ماننا سب کی مجبوری بن چکا ہے ۔مگر آج قابل ذکر امر یہ ہے کہ فوج کا کام جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور سیاست دانوں کا کام نظریاتی و تہذیبی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے ،فوج نے اپنا کام ہمیشہ ہی بطریق احسن نبھایا ہے اور جب بھی نفرتوں اور برے عزائم کے کالے بادل وطن عزیز پر چھائے اپنے لہو سے کشت سحر کو کھینچا ہے اس کے برعکس سیاست دانوں نے ہمیشہ سے ملک و قوم کی جیسے خدمت کی ہے اس سے ہر آدمی واقف ہی نہیں نالاں بھی ہے اور اب جبکہ سول قیادت فوجی قیادت کی مرہون منت نظر آرہی ہے تو ایسے میں اگر کسی ایک نے ہی دونوں کام اپنے ذمے لے لیے تو کیا وہ دونوں کام انجام دے سکے گا ۔اور اس صورت حال میں سیاستدانوں کا کام کیا رہ جائے گا ۔جبکہ وہ پہلے بھی اس سے نابلد ہیں کہ حکمرانوں کو کیا کرنا چاہیئے اور ان کی اس مدہوشی کی وجہ سے وطن عزیز’’مسائلستان ‘‘ بن چکا ہے اورمقام حیرت یہ بھی ہے کہ ہمارے ارباب اختیار جب بولتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ وسائل میسر نہیں مسائل کیسے حل ہوسکتے ہیں جبکہ تمام مسائل کے حل کے لیے وسائل درکار نہیں ہیں ۔بہترین اور پرخلوص حکمت عملیوں اور دانشمندی کی ضرورت ہے ۔آج جبکہ دہشت گردی کے عفریت کے قلع قمع کرنے کا پاک افواج عزم کر چکی ہیں اور کامیابی سے رات دن اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر اس ضمن میں کوشاں ہیں ایسے میں کچھ عفریت ایسے بھی ہیں جو حکومت وقت کی توجہ کے منتظر ہیں اور اس دھرتی کے اب یہ صدائیں ہیں کہ باہمی رنجشوں اور ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر وطن عزیز کی فلاح و بہبود کے لیے سب کمر بستہ ہو جائیں کیونکہ یہ ملک اب کسی حادثے یا سانحے کا متحمل نہیں ہوسکتا ،سرفہرست عصمتوں کی پامالی کرنے والوں کے لیے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے ایسے مجرموں کے لیے عبرت ناک سزائیں تجویز کی جائیں کیونکہ معصومیت کا قتل بھی ایک جان کے قتل کے برابر ہے ۔اس کے علاوہ بنیادی سہولیات زندگی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور معیشت کی بحالی کے لیے بھی مناسب حکمت عملیاں وضع کی جائیں ،قانون و انصاف کی عملداری جس کا ہمیشہ سے فقدان رہا اس کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں سنجیدگی سے غورو فکر کرنے اور دانشمندانہ حکمت عملیوں کو مرتب کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ بھی ایک تشویشناک امر ہے کہ آج بھی تمام تر منصوبہ بندیاں اورجو اقدامات کئے جا رہے ہیں ان سے استفادہ مراعات یافتہ طبقہ اور برسر اقتدار جماعتوں کے کارکن اور حامی ہی کر سکتے ہیں ۔اس لیے اب ارباب اختیار کو ایسی ٹیمیں بھی تشکیل دینا ہونگی جو قومی و ملکی مسائل پر کی جانے والی حکمت عملیوں اور منصوبوں کی نگرانی کریں تاکہ پندار وطن کو کنارہ مل سکے اور ہم جو اقوام عالم میں تماشا بن چکے ہیں اپنا کھویا ہوا مقام واپس پا سکیں اب کسی غلطی کی کوئی بھی گنجائش نہیں کیونکہ ہم نے اتنے سالوں سے اتنا پایا نہیں جتنا گنوا دیا ہے تمام لیڈران وطن اور تمام جماعتوں سے ایک ہی التجا ہے خدارا ۔۔ بس کر دیں کیونکہ درگزر میں ہی بڑائی اور مثبت سوچ ،فکر و عمل ،اتحاد و یگانگت اور نظریاتی اختلافات کے خاتمے میں ہی ملک و قوم کی سالمیت مظمر ہے ۔آج اگر ہم امن کی آشا کے خواہاں ہیں تو امن کی بھاشا کو عام کرنا ہوگا ۔
Ruqqaya Ghazal
About the Author: Ruqqaya Ghazal Read More Articles by Ruqqaya Ghazal: 50 Articles with 33988 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.