بنیادی سہولیات کی عام آدمی تک
فراہمی حکومت کی اولین ذمہ داری اور عوام کا بنیادی جمہوری حق ہے جو دنیا
بھر کے مہذب ممالک میں رائج ہے ۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات پر مصر ہیں
کہ ہر حال میں معاشرہ کو عدم توازن اور بگاڑ سے بچانے کیلئے انسانی حقوق کی
پاسداری کی جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ جن ممالک میں جمہوریت یا جمہوری ادارے
مضبوط ہیں واہاں انسانی حقوق کو ترجیح دی گئی ہے گوکہ یہ نہایت مشکل امر ہے
کہ ہر فرد تک اس کی ضروریات کے مطابق سہولیات کی فراہمی کی جائے تاکہ وہ
معاشرے کی ترقی و خوشحالی کا باعث بننے میں کردار ادا کرے لہٰذا اس مسئلہ
کا واحد، بہترین اور موثر حل یہ نکالا گیا ہے کہ ہر ملک اپنے ہاں مردم
شماری کروائے اور لوکل گورنمنٹ کی تشکیل کیلئے اقدامات کرے تاکہ مسائل اور
سہولیات کی فراہمی مقامی سطح پر بروقت کردی جائے ۔ مردم شماری بنیادی طور
کسی بھی ملک کیلئے منصوبہ بندی کیلئے معاون اور مددگار ثابت ہوتی ہے تاکہ
ملکی ضروریات کادرست انداز میں ادراک ہوتا ہے اور ملکی معاشی پالیسیوں پر
ضرورت کے مطابق نظر ثانی بھی کرنے میں آسانی ملتی ہے ۔ دنیا بھر میں مردم
شماری کیلئے10سال کا وقفہ دیا جاتا ہے جس سے ملک میں آبادی کی درست تعداد
سے آگاہی حاصل کی جاتی ہے اور اسی بنیاد پر مستقبل کی ضروریا ت مثال کے طور
پررہائشی سہولیات ،خوراک، صحت ، تعلیم، روزگار ، توانائی سمیت دیگر اہم
معاملات کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے ۔ پاکستان میں مردم شماری کو
اس انداز سے اہمیت نہیں دی گئی جس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ۔ ملک میں
آخری بار 1998ء میں مردم شماری کی گئی جو کہ کسی حد تک اعدادو شمار اکٹھے
کرسکی۔ 2008ء میں جمہوری حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے 7سال کاعرصہ
گذرگیا لیکن اس جانب جمہوریت کے دعویداروں نے زحمت ہی گوارہ نہیں کی ۔ وفاق
اور صوبائی سطح پر موثر اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں تمام تر شعبوں
میں بحرانی کیفیت ہے جبکہ مقامی سطح پر انتظامی ادارے ناپید ہونے سے عوامی
مسائل کے انبار لگ گئے ہیں ۔موجودہ حکومت نے بلدیاتی نظام کو فعال کرنے کا
اعلان کیا، دوسال کے قریب کا عرصہ ہورہا ہے لیکن کوئی مثبت پیش رفت نہیں
ہوپارہی جس کی بنیادی وجہ انتخابی اصلاحات کا نہ ہونا ہے ، یہ اصلاحات اس
وقت تک ممکن نہیں جب تک آبادی کا درست تعین اور مستند اعداد و شمار نہ
دستیان ہوجائیں ۔ وفاقی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن مسلسل اصرار پر جواز
پیش کردیا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں دہشت گردی کیخلاف آپریشن جاری ہے ،
سندھ کے حالات بہتر نہیں جبکہ ملک کے دیگر حصوں میں سیاسی مسائل کے باعث
فوری طور پر مردم شماری کرنا ممکن نہیں حالانکہ سال 2013 کے آخر میں ملک کے
سب سے شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کا آغاز کیا گیا جو
ناصرف خوش آئند اقدام ہے بلکہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ حالات کا مقابلہ
کرنے کیلئے پرعزم ہونا بہت ضروری ہے ۔
پاکستان میں مردم شماری کے حوالے سے طریقہ کار کا مشکل اور غیر سنجیدہ
منصوبہ بندی بھی ہے ، اس عمل میں عملے اور معاونت کاروں کو کئی بنیادی
سہولیات کی عدم فراہمی کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور و آگاہی کا فقدان بھی
رکاوٹ کا باعث ہے ۔ گزشتہ برس پاکستان نے چین کے تعاون سے ملک بھر میں
الیکٹرونک سسٹم کے ذریعہ مردم شماری کا فیصلہ کیا ، الیکٹرونک سافٹ وئیر
اور مشینری کی فراہمی کیلئے معاہدہ بھی ہوا لیکن ناگزیر وجوہات کے باعث
مزید پیش رفت نہ ہوسکی ۔
یہ ایک المیہ ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح کا درست تعین نہیں کیا
جارہا حالانکہ نادرا کے تحت پیدائش ، اموات اور قومی شناختی کارڈ
کمپوٹرائزڈنظام راج ہے ۔ اس حوالے سے محکمہ نادرا کے ذرائع کا کہنا ہے کہ
سہولیات کی فراہمی کے باوجود عوام اس اہم معاملہ میں غیر سنجیدہ ہیں اور
پیدائش و اموات کی رجسٹریشن اس طرح سے نہیں کرائی جارہی جس کی وجہ سے اعداد
وشمار کا صحیح اندراج نہیں ہوپارہا۔ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے ہیں کہ ملک
میں روانہ کی بنیاد پر کتنے بچے پیدا ہورہے ہیں ، کتنی اوموات ہورہی ہیں یا
کتنے لوگ رشتہ ازدواج سے منسلک ہورہے ہیں۔ اگر حکومتی سطح اقدامات کئے
جارہے ہیں تو وہ محض اندازوں کے تحت ہورہے ہیں جس سے ممکنہ طور پر ہر فرد
مستفید نہیں ہورہا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں کوئی شہر ، ٹاؤں ، ضلع ،
تحصیل، گلی ، محلہ یا بازار شاید ہی ابتر صورتحال سے دوچار نہیں ہوگا ۔
پانی ، بجلی ، گیس سمیت کئی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی نے عوام کو ذہنی
اذیت میں مبتلا کررکھا ہے جبکہ ہسپتال سے لیکر بنیادی صحت کے مراکز کی حالت
یہ ہے کہ طبی سہولیات تقریباً ناپید ہوچکی ہیں ۔ شہروں میں جگہ کی کمی کی
وجہ سے رہائشی مسائل نے سر اٹھا رکھا ہے جس نے لوگوں کو بلڈنگیں تعمیر کرنے
پر مجبور کردیا ہے جبکہ سڑکوں پر بے ہنگم ٹریفک کے باعث صبح سے رات گئے تک
سڑکیں جام رہنا معمول بن گیا ہے ، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی مفلوج سی
ہوگئی ہے ۔بازاروں اور مارکیٹوں کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے ۔ تجاوزات کی
بھر مار نے ایک طرف بازاروں کا حسن تباہ کردیا ہے تو دوسری جانب خریداروں
بالخصوص دکانداروں کو مشکلات میں ڈال دیا ہے جو کسی بھی لحاظ سے خطرہ سے
خالی نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں ندی ، نالوں اور عام گزر گاہوں پر کاروباری
مراکز کی تعمیر نے ایک نئے وبال کو جنم دیدیا ہے ۔ کراچی میں درسی و دیگر
کتب کا مرکز اردو بازار ایک نالے پر تعمیر کیا گیا ہے جو چند برس قبل اسی
مقام پر نالے میں گیس جمع ہونے کے بعد دھماکا ہوچکا ہے اور کئی دکانداروں
کو نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اسی نالے پر انتظامیہ کی ملی بھگت
سے دوبارہ بازار تعمیر ہوچکا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ شہر کراچی سمیت
ملک بھر میں ایمرجنسی کی صورت حال سے نمٹنے کیلئے میٹروپولیٹن کارپوریشنوں
کے پاس فوری اقدامات کیلئے کسی قسم کی سہولت موجود نہیں ہے ۔گزشتہ ماہ
کراچی کی ٹمبر مارکیٹ میں رات گئے آگ لگی ۔ فائر بر یگیڈ کے پاس انتظامات
کم تھے ۔ معجزانہ طور پر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا البتہ کروڑوں کا نقصان
ہوا جس نے دکانداروں کو سڑک پر پہنچادیا۔ ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا ہے
کہ شہر کی اتنے بڑی آبادی کیلئے چار مقامات پر واٹر باؤنڈرز موجود ہیں جو
جائے وقوعہ سے کافی فاصلے پر ہیں اور وہاں پانی کی قلت سب سے بڑا مسئلہ ہے
جس کی وجہ سے بروقت اور موثر اقدامات نہ ہوسکے ۔30دسمبر 2014 ء کو لاہور
میں انارکلی بازار پلازہ آگ کی نذر ہوا۔ اس حاد ثہ میں خاتون اور بچے سمیت
13 افراد لقمہ اجل بنے ۔ کہا جاتا ہے کہ پلازہ چار منزلہ تھا جس میں دم
گھٹنے اور جھلسنے کے باعث ہلاکتیں ہوئیں ۔ ریسکیو 1122، فائربر یگیڈ ،
ایمبولینسز اور دیگر امدادی ادارے بڑی تعداد میں بر وقت جائے وقوعہ پر
پہنچے تاہم رش اور تجاوزات کی بھر مار نے ٹیموں کو حادثے کی جگہ پر پہنچنے
میں شدید دشواری کا سامنا رہا ۔ کراچی کی ٹمبر مارکیٹ اور لا ہور میں
انارکلی میں یکے بعد دیگرے آتشزدگی کے واقعات نے کئی قسم کے شکوک و شبہات
پیدا کردئے ہیں ۔ دونوں واقعات میں کروڑوں روپوں کا مال اسباب راکھ ڈھیر بن
گیا اور جانوں کا ضیاع ہوا ۔ بدقسمتی دیکھیں کہ جن اداروں کو ہنگامی
صورتحال سے نمٹنے کیلئے ذمہ داریاں دین گئی ہیں ان کے پاس اول تو سہولیات
ہی سرے سے ناپید ہیں دوسری جانب کئی ملازمین ڈیوٹی پر ہی موجود نہیں ہوتے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں کس کی نااہلی ہے ۔ کیا یہ ناتجربہ کا ری
یاناقص کارکردگی کا نتیجہ ہے یا پھر سیاسی مداخلت ہے جن کی وجہ سے ادارے
سفید ہاتھی بنے ہوئے ہیں حالانکہ حکومت سے یہ ادارے اربوں روپے کے فنڈز
باقاعدہ وصول کرتے ہیں ۔
عدالت عظمیٰ گزشتہ برس سے بلدیاتی نظام کی ملک میں بحالی اور حد بندیوں
سمیت تمام تر لوازمات مکمل کرنے کیلئے احکامات جاری کررہی ہے جو حکومت کسی
نہ کسی وجہ سے ٹال رہی ہے ۔اب عدلیہ کی جانب سے سندھ اور پنجاب کی طرف سے
پیش کردہ رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صوبوں کو
بلدیاتی انتخابات منعقد کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ الیکشن کمیشن کے وکیل
اکرم شیخ نے موقف اختیار کیا ہے کہ حکومت پنجاب اور سندھ نے تاحال مکمل
تفصیلات فراہم نہیں کیں ، پنجاب نے پانچ اضلاع کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں
دی جبکہ اکتیس اضلاع میں آبادی اور یونین کونسل کی مکمل تفصیلات بھی فراہم
نہیں کی گئیں ۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات
کا انعقاد نہیں چاہتیں جب تک عدالت براہ راست دونوں حکومتوں کو حکم نہیں دے
گی اس وقت تک وہ انتخابات کیلئے تیار نہیں ہوں گی ۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس
نے اس حوالے سے واضح کردیا ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق بلدیاتی انتخابات
کرانا حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ دار ی ہے لہٰذا وہ اپنی ذمہ داریاں
پوری کی جائیں ، اب تک کافی وقت دیا چکا ہے لیکن ابھی تک معاملہ کسی کروٹ
بیٹھ نہیں رہا ۔ہمیں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کیلئے ایک ماہ کے اندر
تاریخ دی جائے۔ یہ بہت اہم حکم نامہ ہے جو سپریم کورٹ کی جانب سے صادر کیا
گیا ہے لیکن ہمارے یہاں ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ شعور و آگاہی کے نام پر بڑے
بڑے ہوٹلوں میں سمینار منعقد کئے جاتے ہیں ، تقریریں بھی کی جاتے ہیں مگر
کارکردگی لفاظی سے آگے نہیں بڑھ پاتی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سے پہلے
ملک بھر میں مردم شماری کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں اور پھر اسی مناسبت
سے حلقہ بندیاں کرتے ہوئے بلدیاتی نظام کی بحالی یقینی بنائی جائے کیونکہ
موٹر ویز سمیت بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں سے عام آدمی کو اس وقت ہی ہوسکتا ہے
جب اس کی بنیادی ضروریات پوری ہوں اور اس کی پسماندگی کا خاتمہ کیا جائے
وگرنہ یہ تمام تر اقدامات لاحاصل اور لا یعنی ہیں ۔ |