عوام کو پتہ ہے

عوام کو پتہ ہے امریکا سُنتا اور مانتا کم ہے، اور منواتا زیادہ ہے ...
پاکستان کی التجا ڈرون حملے روکے جائیں، امریکا کا انکار ڈرون حملے نہیں روک سکتے؟
امریکا جیسے سیاہ دل کالے کے کاٹے کا منتر نہیں...........امریکا جیسے کالے کے آگے کسی کا چراغ نہیں جلتا

لوگ کہتے ہیں کہ اقتدار ہے ہی ایک ایسی چیز کا نام کہ جِسے یہ نہ ملے تو وہ اِس کے حصول کے لئے مرا جاتا ہے اور جِسے بائی لک قسمت سے یہ مل جائے تو وہ اِس کو طول دینے اور اِس کی دیوی کو خوش کرنے کے لئے اپنے ہی عوام کی جانوں کا چڑھاوا چڑھاتا ہے اور یوں وہ عوام کے کٹے ہوئے سروں سے بنے ہوئے مینار پر اپنے قدم رکھتے ہوئے اپنے اقتدار کی اُونچی اور بہت اُونچی منزلیں طے کرتا ہوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور وہ اُس وقت تک اقتدار کی دیوی کے چرنوں سے چمٹا رہتا ہے کہ جب تک وہ مر نہ جائے اور اِس طرح کم اَز کم وہ اپنی زندگی میں تو اِس کو چھوڑنے کا نام نہیں لیتا.. کہ جب تک روح اِس کے جسم کو نہ چھوڑ جائے...

اور ایسا ہی کچھ اِن دنوں ہمارے ملک کے موجودہ حکمران بھی کررہے ہیں کہ اِن کی حکومت میں اندرونی اور بیرونی طور پر حالات ایسے سنگین ہوگئے ہیں کہ ہر طرف انسانی لاشیں بکھری پڑی ہیں اور اِن حالات میں اب موجودہ حکمرانوں کو خود ہی سوچنا چاہئے کہ اُنہیں اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے اِن حالات اور لمحات میں کیا کرنا چاہئے کہ ملک میں روز افزوں بگڑتے ہوئے حالات ٹھیک ہوجائیں اور صوبہ سندہ کے کپیٹل کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کنٹرول اور ختم ہوجائیں توعوام کو سُکھ کا سانس نصیب ہو۔

بہرحال! میرے خیال سے کم از کم پاکستان کی63سالہ تاریخ میں تو ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ جنہوں نے چور دروازے سے اقتدار کی کرسی پر اپنا قبضہ جمایا اور وہ اِس کرسی پر ایسے قابض ہوئے کہ اُنہوں نے اپنے اقتدار کے نشے میں پاکستان کی آزادی و خودمختاری اور اِس کی سالمیت اور استحکام کو بھی داؤ پر لگا دیا اور اِس مملکت خداداد میں ایسا بھی ہوا ہے کہ اِن ہی اقتدار کے پوجاریوں میں سے بہت سوں نے اپنے قتدار کے لئے اغیار (امریکا اور دیگر ممالک )کے ہاتھوں پوری پاکستانی قوم کا بھی گھاٹِ کاایسا سودا کر ڈالا کہ تب سے ہی پاکستانی قوم اپنے سابقہ حکمرانوں کے اعمالِ بد کا خمیازہ امریکی ایجنٹوں اور مسلمانوں کا روپ دھارے امریکی، بھارتی اور اسرائیلی آلہ کاروں اور انتہاپسندوں کے ہاتھوں کہیں خودکش بم دھماکوں تو کہیں بم حملوں کی نظر ہو کر اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر بھگت رہی ہے اور اِس صورتِ حال میں کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ پاکستان کی یہ ساڑھے سولہ کروڑ معصوم اور نہتی عوام آخر کب تک امریکا اور اِس جیسے دوسرے عیار اور مکار ممالک کے ہاتھوں یوں ہی مرتی اور سسکتی رہے گی اور غلاموں سے بھی بدتر اپنی زندگیاں گزارتی رہے گی....؟

یہ بات درست ہے کہ اپنے یہاں نائن الیون کے واقع کے بعد امریکا جو دنیا بھر سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خاتمے کا ٹھیکیدار بنا پھر رہا ہے اور اُس نے اِس بنا پر ہی اپنے کاندھوں پر دنیا اور بالخصوص پاکستان سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کو قلع قمع کرنے کا بھی بیڑا اٹھا رکھا ہے اور میرے نزدیک اِس کے اِس عزم اور مفاد کے برعکس یہ بات بھی کسی حد تک حقیقت پر مبنی ہو کہ امریکا نے اِس بابت کسی کی کچھ نہ سننے کے لئے اپنے کانوں میں سیسہ پگھلا کر اُنڈیل لیا ہے اِس بات کا اندازہ اِس سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ دنوں جب سابق امریکی صدارتی اُمیدوار اور امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے مسلح افواج کے رکن جان مکین پاکستان دورے پر آئے ہوئے تھے تو اِس دوران حکومت پاکستان نے اِن سے جب یہ التجا کی کہ سرکار پاکستان میں ڈرون حملے روکے جائیں تو اِس کے برعکس جان مکین نے تلملا کر کہا کہ امریکا کو افغانستان میں اپنی کامیابی کے لئے پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہر صورت میں کرنا ہے کیوں کہ جنوبی و شمالی وزیر ستان کے دہشت گرد مل گئے ہیں اور امریکا نے اِس بنا پر یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ پاکستان سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لئے اِس کے سرحدی علاقوں میں زمینی حملے ہرگز نہیں کرے گا اور اِس امریکی موقف کے بعد اَب پاکستانیوں کو اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہئے کہ امریکا کو پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ڈرون حملے کرنے ہوں گے اور اِس بنا پر امریکا پاکستان میں ڈرون حملے نہیں روک سکتا اور یوں پاکستان کی جانب ڈرون حملوں کو روکنے کی التجا پر امریکا کے صاف انکار کے بعد ہمارے پاکستانی حکمران کسی کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتے اور اپنی ہی بغلوں میں منہ چھپاتے نظر آئے اور اِسی طرح ایک اور لاچار کا مظاہرہ اُس وقت سامنے آیا کہ جب گزشتہ دنوں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنی پارٹی کے مرکزی ترجمان مولانا محمد امجد خان سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے معصومانہ لہجے میں انتہائی لاچارگی اور بےکسی اور مجبوری کے عالم میں جب اِس طرح کہا کہ حکومت یاد رکھے کہ امریکا سنتا اور مانتا کم ہے وہ سُناتا اور منواتا زیادہ ہے“ میرے خیال سے مولانا کے بھی اِس بے کس اور مجبور جملے کے بعد اَب کیا رہ جاتا ہے کہ عوام حکمرانوں سے یہ اُمید رکھیں کہ اِن کے موجودہ حکمران اِنہیں امریکی ڈرون حملوں کے قہر وغضب سے بھی کیا نجات دلوا سکیں گے....؟جب ہمارے ہی ملک میں آکر امریکی بڑی ڈھٹائی سے یہ کہہ کر ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا منہ بند کر جاتے ہیں کہ افغانستان میں امریکا کو اپنی کامیابی کے لئے پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے ڈرون حملے جاری رکھنا ضروری ہیں تو پھر کیا چارہ رہ جاتا ہے کہ پاکستان پر ڈرون حملے نہ ہوں اور ہمارے حکمران امریکا کے اِس انسانیت سوز مظالم کے بعد بھی اِس کے سامنے ہاتھ جوڑے اور مجسمہ بنے رہیں تو پھر یہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔

اور اِس کے ساتھ ہی میں اپنے آج کے کالم کا اختتام اپنے اِس پیراگراف کے ساتھ کرنا چاہوں گا کہ دنیا کی تاریخ کے اوراق آج بھی اُن لوگوں سے بھرے پڑے ہیں کہ جن سے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اُن کی زندگی میں ایسے بہت سے مواقع آئے جب حالات اِن کے خلاف ہوگئے اور اُن مواقع پر بھی وہ ہمت نہیں ہارے اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ اگر وہ ہمت ہار گئے تو وہ ڈوب جائیں گے اور اِس بنا پر وہ اُن کٹھن حالات میں بھی پُر عزم رہے اور آخر کار اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کامیابی نے اُن کے قدم چومے....اور یوں آج تاریخ کا حصہ بن کر وہ لوگ رہتی دنیا تک امر ہوگئے اِسی طرح نپولین کا ایک بڑا مشہور قول ہے کہ ” ہمت سے زندگی ہے، اور بزدلی سے موت“اَب ہمارے حکمرانوں کو بھی یہ چاہئے کہ امریکا جیسے شیش ناگ جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ”کالے کے کاٹے کا منتر نہیں“ تو اَب اَنہیں اِس کالے کے کاٹے کا منتر بھی خود ہی تخلیق کرنا پڑے گا اور اِس کالے کو بھی مارناپڑے گا جو برسوں سے ہم پر اپنی مرضی چلا رہا ہے اور ہماری ایک نہیں سُن رہا ہے اور اِس طرح وہ ہمیں پنپنے بھی نہیں دے رہا ہے اور جس سے متعلق ہمارے یہاں یہ بھی مشہور ہے کہ امریکا ہمارے لئے ایسا کالا ثابت ہوا ہے کہ اِس کالے کے آگے ہمارا کوئی چراغ نہیں جلتا۔ اَب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا جیسا کالا ناگ آخر کب تک ہم پر اپنا پھن پھولائے بیٹھا رہے گا؟ آخر کون اِسے مارے گا؟ اور کیا ہمیشہ ہم یوں ہی اِس زہریلے ناگ سے خود کو ڈسواتے رہیں گے؟اور کیا آج میرے اِن سوالات کے جوابات ہمارے حکمرانوں کے پاس ہیں؟ یا یہ امریکا سے محض ڈالروں کی شکل میں ملنے والی امداد اور بھیک کے عوض پوری پاکستانی قوم کوامریکا جیسے شیش ناگ سے ڈسواتے رہیں گے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 900307 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.