کراچی کو فاٹا کی طرح جرائم کی آماجگاہ
بنانے کا سہرا مرد مومن ضیا الحق کے سر ہے، ان کے دور کی ایک بابرکت نشانی
سید غوث علی شاہ اپنے سرپرست کے کہنے پر بوئی جانے والی فصل کٹتے دیکھ رہے
ہیں، غوث علی شاہ کا دل و دماغ شائد پتھر کے ہوں گے، ورنہ انسانی سروں کی
فصل جس طرح غوث علی شاہ کے دور میں کٹتی رہی اور جس طرح آج کٹ رہی ہے، اس
کو کوئی ذی ہوش انسان برداشت نہیں کرسکتا۔ صدر زرداری نے بلوچوں سے کوئی
جرم نہیں کیا تھا۔ مگر انہوں نے بے نظیر شہید کی ماتمی صف پر بیٹھ کر
بلوچوں سے دست بستہ معافی مانگی، غوث علی شاہ بھی اپنے اور اپنے راہبر مرد
مومن کے کردہ گناہوں کی معافی مانگ لیں تو روز قیامت اللہ کے حضور پیش ہوتے
وقت انہیں کوئی ندامت شائد نہ ہو۔
کراچی قائد کا شہر تھا۔ یہ سید ہاشم رضا کا شہر تھا۔ یہ لیاقت علی خان کا
شہر تھا، یہ ابن انشاء کا شہر تھا، یہ روشنیوں اور رنگوں کا شہر تھا، اس
شہر کا ہر روز، روز عید اور ہر شب، شب برات تھی۔ یہ شہر پاکستان کا اقتصادی
اور ثقافتی مرکز تھا۔ یہاں ملک کی واحد بین الاقوامی بندرگاہ اور بین
الاقوامی ائیرپورٹ واقع تھا، کراچی کو پورے پاکستان کی سپلائی کے مرکز کی
حیثیت حاصل تھی، یہ صنعت و حرفت کا مرکز، علم و ادا کا مرکز، صحافت کا مرکز،
عقل و دانش کا مرکز تھا۔ کراچی میں بولی جانے والی زبان کوثر و تسنیم میں
دھلی ہوئی تھی اور لوگ اپنی شین قاف درست کرنے کیلئے کراچی کا رخ کرتے تھے۔
کراچی کے ساحل پر شوریدہ سر موجیں جذبات میں تلاطم پیدا کرتی تھیں۔ پھر
یکایک کراچی کو نظر لگ گئی۔ جنرل ضیا الحق نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت
کراچی میں تعصب کی آگ بھڑکائی، لسانی، گروہی، فرقہ ورانہ فسادات بھڑکائے،
ڈرگ مافیا اور لینڈ مافیا کو اقتدار کے ایوانوں سے شہ ملی اور کراچی دیکھتے
ہی دیکھتے تہذیب و تمدن کے گہوارے سے آگ اور خون کے جنم کی صورت اختیار کر
گیا۔ اردو بولنے والوں کو سندھی بولنے والوں سے ٹکرا دیا گیا، پشتو بولنے
والے کو پنجابی بولنے والے سے ٹکرا دیا گیا۔ شیعہ اور سنی کے فسادات کرائے
گئے۔ مساجد و امام بارگاہوں، مارکیٹوں اور سڑکوں پر خون کا سیلاب بہہ نکلا۔
کراچی کی بدنصیبی میں اضافہ کرنے کیلئے غیر ملکیوں نے بھی اپنا حصہ ڈال،
پوری دنیا کے بھگوڑے اور باغی کراچی کے آبادی کے جنگل میں گم ہوگئے، جس شخص
کو سری لنکا کی حکومت سے پرخاش تھی وہ بھی کراچی آگیا، جس شخص پر برمی
حکومت نے زندگی تنگ کردی تھی، وہ بھی کراچی میں پناہ گزیں ہوگیا۔ شاہ ایران
کے مظالم کے ستائے ہوئے بھی کراچی آئے اور انقلاب اسلامی سے بچنے والوں نے
بھی کراچی ہی کا رخ کیا، کرد بھی کراچی کے گنجان آباد علاقوں میں گم ہوئے
اور یمنی، سعودی، اردنی، شامی، فلسطینی، مصری شہری بھی اپنی اپنی حکومتوں
سے اختلافات کے باعث کراچی کے دامن میں آچھپے۔ پھر ایک شیطانی سلسلہ شروع
ہوا، ان لوگوں کا تعاقب کرنے والے بھی ان کے پیچھے آئے اور کراچی عالمی
تنازعات کے اکھاڑے میں تبدیل ہو کر رہ گیا، ایرانی، ایرانی کو مار رہا تھا،
برمی کو برمی مار رہا تھا، سعودی کے پیچھے سعودی لگا ہوا تھا اور کرد کی
پشت پر کرد ہی چھرا گھونپ رہا تھا۔ خون کے فوارے کراچی کی فلک بوس عمارتوں
سے بلند تر ہوتے جارہے تھے۔ دھول اس قدر اڑ رہی تھی کہ ہر چیز پر پردہ سا
محسوس ہوتا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ مرنے والا بدقسمت کون ہے اور
مارنے والا ظالم ہاتھ کس کا ہے۔ لیکن ہم لوگوں نے اپنی آسانی کی خاطر ایک
رٹ لگائی کہ یہ مہاجر اور اینٹی مہاجر کی لڑائی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ
عالمی قاتلوں کا ایک اکھاڑا بن چکا تھا اور برائی ہم اپنے سر لے رہے تھے۔
آج کراچی صرف ایک کاسمو پولیٹن شہر ہی نہیں بلکہ کئی ممالک سے دگنی آبادی
والا شہر ہے، یہاں تو ایک الگ گورنر اور ایک الگ چیف منسٹر اور ایک الگ آئی
جی ہونا چاہیے، لیکن میری ان باتوں کا مطلب غلط بھی اخذ کیا جاسکتا ہے۔ اگر
نیویارک میں نائن الیون ہونے کے بعد امریکیوں نے دوبارہ کوئی سانحہ نہیں
ہونے دیا تو ہمارے لئے کراچی کو سنبھالنا کیوں مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ لندن
میں سیون سیون کے سانحے کے بعد دوبارہ کسی کو پٹاخہ چھوڑنے کی ہمت نہیں
ہوئی، پیرس میں تو آج تک کسی نے شرلی بھی نہیں چھوڑی، دراصل ہمارے اندر ایک
عزم ہونا چاہیے۔ میں نے اس عزم کی ایک جھلک گزشتہ رات دیکھی۔ وزیر داخلہ
رحمان ملک، فاروق ستار، گورنر سندھ عشرت العبات، وزیراعلیٰ سندھ قائم علی
شاہ، ناظم کراچی مصطفیٰ کمال نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ شہر کراچی کو
شہر قائد میں تبدیل کر کے دکھائیں گے اس ضمن میں وہ کسی قسم کے ڈر و خوف کا
شکار نہیں ہونگے، وہ کسی سے رو رعایت نہیں کرینگے، وہ کسی کو عزیز نہیں
جانیں گے، وہ مفادات سے بالاتر ہو کر ایک آپریشن کلین اپ کریں گے، وہ لینڈ
مافیا کے سامنے نہیں جھکیں گے، وہ ڈرگ مافیا سے خوفزدہ نہیں ہوں گے، وہ
ٹارگٹ کلنگ کرنے والے عناصر کے سامنے بزدلی نہیں دکھائیں گے۔ مجھے اس وقت
جنرل نصیر اللہ بابر یاد آرہے ہیں، وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں
وزیر داخلہ تھے اور ان دنوں بوری بند لاشوں کا رواج چل نکلا تھا اور نصیر
اللہ بابر کو بھی دھمکیاں مل رہی تھیں کہ ان کا بھی وہی حشر کر دیا جائیگا۔
جنرل نصیر اللہ بابر نے جواب دیا تھا کہ ابھی تک ان کے سائز کی بوری ہی
نہیں بنی اور سازشی عناصر کو منہ کی کھانی پڑی۔ آج پھر پیپلز پارٹی کی
حکومت ہے، بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری صدر مملکت ہیں اور گزشتہ
روز وہ شام کے دورے سے کراچی آئے تو اس وقت تک ان کے وزیر داخلہ رحمان ملک
تمام گروپوں کے ساتھ مل کر اتفاق و اتحاد کا ایک اعلامیہ تیار کرچکے تھے۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی خوش قسمت ہیں کہ ان کو اس قدر چاق و چوبند وزیر
داخلہ ملا ہے جس نے حکومت کی ساری سر دردی اپنے سر لے رکھی ہے اور وہ
انسانیت کے دشمنوں کے سامنے سینہ تانے کھڑا نظر آتا ہے۔
کراچی میں آج مقامی جھگڑا نہیں، بلکہ اس شہر کو اب القاعدہ اور طالبان کے
دہشت گردوں نے نشانے پر لے لیا ہے ان کا خیال ہے کہ ماریں گے وہ اور نام
لگے گا مہاجر اور سندھی، پٹھان اور پنجابی کا۔ نہیں جناب ! پاکستانی اتنے
بھی بھولے نہیں کہ القاعدہ اور طالبان کی سازشوں کو نہ سمجھ سکیں نہ وہ ان
سازشوں میں الجھ کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوسکتے ہیں۔ اب سب مل کر
القاعدہ اور طالبان کے دہشتگردوں کا پیچھا کریں گے۔ اس وقت تک پیچھا کریں
گے۔ جب تک یہ دہشتگرد بحیرہ عرب کی موجوں کی نذر نہیں کردیئے جائے۔
جلتا کراچی ایک بار پھر ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ اسلئے کہ اصل دشمن کو شناخت کر
لیا گیا ہے اور وزیر داخلہ جناب رحمان ملک اس حوصلے اور عزم کے ساتھ کراچی
میں آپریشن کرڈالیں۔ جیسا کہ سوات سے مالاکنڈ اور جنوبی وزیرستان میں کیا
گیا تو کراچی کو جہنم بنانے کی سازش کرنے والوں کا سر کچلنا کچھ مشکل نا
ہوگا۔
بشکریہ
اور بی بی صاحبہ کی بات یاد رکھیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور جمہوریت
پسند لوگ ہی جمہوریت کے دشمنوں طالبان اور القائدہ سے لڑ کر انہیں بھگا
سکتے ہیں ۔ |