آزادکشمیر حکومت کی کابینہ نے
دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے نیشنل ایکشن پلان کو آزادکشمیرمیں
نافذکرنے،کاؤنٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ کے قیام پاور فاؤنڈیشن آرڈیننس، الیکشن
(ترمیمی) آرڈیننس اور ہتک عزت قوانین کی باقاعدہ منظوری دی ہے جنہیں آئندہ
اجلاس میں قانون ساز اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔یاد رہے کہ
آزاد کشمیر اسمبلی کا اجلاس 20جنوری کو طلب کیا گیا ہے۔کابینہ نے ہتک عزت
کے قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت کسی کے خلاف تحریری یا زبانی بیان کے
دو ماہ کے اندر دعویٰ کیا جا سکے گا۔ دعویٰ دائر کرنے سے قبل 14دن کا نوٹس
دیا جائے گا اگر معافی یا تردید قابل قبول نہ ہو تو عزت ہتک کیس ضلعی
فوجداری عدالت میں چلایا جائے گا تاکہ فی الفور فیصلہ کیا جاسکے۔
آزاد کشمیر میں کوئی بھی قانون سازی کرتے ہوئے اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ
یہ خطہ پاکستان کا حصہ نہیں ہے اور اپنے قیام کے حوالے سے بھی تحریک آزادی
کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے مربوط منسلک اپنا الگ مقامی و ریاستی تشخص کا
حامل علاقہ ہے۔آزاد کشمیر کے خطے میں بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کی اچھی
صورتحال قائم کرنا صرف حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ کشمیر کاز
کے حوالے سے بھی یہ ناگزیر امور ہیں۔آزاد کشمیر کی پیپلز پارٹی حکومت رواں
حکومت نے آزاد کشمیر میں رشوت ،کرپشن،اقرباء پروری، برادری و علاقائی ازم
کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں اور اس دور حکومت میں خرابیاں اس قدر بڑھ چکی
ہیں کہ جس سے آزاد کشمیر کا تمام حکومتی،سرکاری،سیاسی اور سماجی طور پر
منفی انداز میں شدید متاثر ہو اہے۔نامعلوم کہ پیپلز پارٹی حکومت کو آزاد
کشمیر میں ہتک عزت کے قانون میں ایسی ترمیم کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ جس
کے ذریعے ہتک عزت کی کاروائی فوجداری عدالتوں میں کی جا سکے گی؟پیپلز پارٹی
کی حکومت کے اس اقدام سے آزادکشمیر کی چند لاکھ آبادی میں مخالفت اور دشمنی
کو ہوا ملے گی۔دوسری طرف دیکھا جا ئے تو ہتک عزت کا قانون اس لحاظ سے اہم
ہے کہ آزاد کشمیر میں ایک دوسرے کی عزت کو اچھالنا ایک رواج بنتا جا رہا ہے
اور اسی حوالے سے آزاد کشمیر کے اخبارات کا استعمال نمایاں نظر آتا ہے۔آزاد
کشمیر حکومت کی طرف سے ہتک عزت کا مسودہ قانون منظور کرنا آزاد کشمیر میں
آزادی اظہار اور میڈیا پر پابندی کا واضح تاثر لئے ہوئے ہے اور یہ معاملہ
تشویشناک ہے۔میڈیا کے لئے ضابطہ اخلاق تیار کئے بغیر اخبارات میں شائع
خبروں وغیرہ کی بنیاد پر فوجداری عدالتوں میں ہتک عزت کے مقدمات چلانے کی
بات نامناسب ہے۔ہتک عزت کے موجودہ مسودہ قانون کی کابینہ سے منظوری کا مطلب
یہی ہے کہ حکومت اخبارات اور صحافیوں کو فوجداری عدالتوں میں گھسیٹنے کا
بندو بست کرنے کی فکر میں ہے۔ ’’ ہتک عزت ‘‘ سے متعلق قانون بنانے سے پہلے
اس بارے میں مشاورت اور میڈیا کے لئے ضابطہ اخلاق کا تیار کیا جانا ضروری
ہے۔ اس بات کی ضرورت کئی بار بیان کی گئی ہے کہ آزاد کشمیر کے میڈیا کے لئے
ضابطہ اخلاق تیار کیا جائے تاہم میڈیا کے لئے ضابطہ اخلاق کی پہلی ذمہ داری
صحافتی تنظیموں کی ہے کہ وہ خود صحافتی اخلاقیات اور قانون کی روشنی میں
اپنا ضابطہ اخلاق تیار کریں۔اگر حکومت خود یہ کام کرنا چاہے تو اس کے لئے
صحافتی اداروں کے علاوہ ریاست کے معروف سینئر صحافیوں کی مشاورت لازمی
ہے۔آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے موجود دور حکومت میں اخبارات و جرائد پر
نت نئی پابندیوں کے قانون اور ضابطے بنائے گئے ہیں اور اس سے اخبارات و
جرائد پر حکومت کا سخت کنٹرول قائم ہے۔یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر کے میڈیا
میں بھی سیاست کی طرح چاپلوسی اور خوشامد کی صحافت کو حکومت کی طرف سے
پروان چڑہایا جا رہا ہے ۔بقول شاعر
ان کے مداح اس زمانے میں
جیسے کتے قصائی خانے میں
حکومت کو تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ میں آزادی اظہار پر پابندی کے لئے
اخبارات و جرائد کو نت نئے قوانین اور ضابطوں کا پابند نہیں بنانا چاہئے ۔اگر
حکومت نے ریاستی اخبارات و جرائد کی آزادی پر پابندی پر مبنی قوانین اسمبلی
سے منظور کئے تو اس کے خلاف مختلف حلقوں کی طرف سے آزادی اظہار پر پابندی
اور اخبارات و صحافیوں کو فوجداری مقدمات میں ملوث کرنے کا معاملہ مختلف
ملکی اور غیر ملکی پلیٹ فارم پر بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔’مناسب یہی ہے کہ
آزاد کشمیر حکومت اس معاملے میں ترامیم کے نکات پر عوامی مشاورت کا عمل
مکمل کرے اور اطلاعات تک رسائی کا قانون آزاد کشمیر میں اسمبلی سے منظور
کیا جائے۔آزاد کشمیر حکومت کو ہتک عزت کے مجوزہ قانون پر نظر ثانی کرنی
چاہئے اور اس معاملے پر ریاستی میڈیا کی تشویش دور کرنی چاہئے۔آزادکشمیر کی
اپوزیشن سیاسی جماعتوں کو بھی اس اہم معاملے پر اپنی آواز بلند کرنی چاہئے۔ |