صرف پرویز مشرف کے مجرمان کیوں

اب تک جتنے مجرمان کو پھانسی کی سزادی گئی ان میں دو ایک کو چھوڑ کر باقی سب وہ ملزمان ہیں جنھیں پرویز مشرف پر حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اس میں تقریباَ سارے وہ لوگ ہیں جنھوں نے کسی کو قتل تو کیا زخمی تک نہیں کیا تھا ایک مجرم کو تو رات نو بجے پھانسی دی گئی جب کہ اس کی درخواست اعلیٰ عدلیہ میں داخل کی جا چکی تھی ۔پاکستان کے عوام نے اس فیصلے کا بڑی خوشدلی سے خیر مقدم کیا تھا کہ قتل کے ان تمام مجرمان کو جنھیں موت کی سزائیں سنائی جا چکی ہیں انھیں پھانسی پر لٹکا دیا جائے اس لیے کہ پچھلے سات سال سے بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ مدت سے ہمارے ملک میں موت کی سزاؤں پر عملدرآمد نہیں ہو رہا تھا ۔اس کے نتیجے میں قتل و غارت گری کی وارداتیں بڑھتی رہیں جو معصوم لوگ اس میں اپنی جان سے گئے ان کے قاتل صرف وہی لوگ نہیں ہیں جنھوں نے انھیں قتل کیا بلکہ ان معصوم جانوں کے قتل میں ہمارے وہ حکمراں بھی شریک ہیں جنھوں نے موت کی سزاؤں پر عملدرآمد کو روکا ہوا تھا ۔

لیکن اب جن لوگوں کو پھانسیاں دی جارہی ہیں اور جنھیں نہیں دی جارہی ہیں ۔اس تفریق سے عوام میں مایوسی پھیل رہی ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف صرف سازش کرنے والوں اور اس میں شریک ہونے والوں کو تو دھڑا دھڑ تختہ دار پر لٹکایا جا رہا ہے اور جنھوں نے پچاس سے زائد قتل کا خود اعتراف کیا اور ایک قتل کے جرم میں انھیں پھانسی کی سزا ہوئی اور یہ سزا بھی کسی فوجی عدالت سے نہیں بلکہ عام سول عدالتوں سے ہوئی تھی جہاں برسوں کیس چلا مجرم کو اپنی صفائی کا پورا موقعہ دیا گیا دونوں طرف کے وکلاء باقاعدہ جرح کی گواہان پیش کیے گئے ان کے کیس کو اب دوبارہ اوپن کیا جا رہا ہے ۔

اس لیے عوام کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ پرویز مشرف نے جو دو مرتبہ آئین کو توڑا پوری عدلیہ کو یرغمال بنایا ججوں کو گرفتار کیا پھر 12مئی2007کو کراچی میں اپنی لے پالک تنظیم کے ذریعے چیف جسٹس کا راستہ روکا انھیں ائیر پورٹ سے باہر نہیں نکلنے دیا گیا اور اس دن 50سے زائد لوگوں کا خون ناحق کراچی کی سڑکوں پر بہایا گیا ان کے قاتلوں کو پکڑنا تو درکنار جب سندھ ہائی کورٹ میں اس مقدمے کا آغاز ہوا تو کراچی کی ایک لسانی تنظیم نے جس پر پورے ملک سے انگلیاں اٹھائی جارہی تھیں کہ کراچی کے سانحے میں اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ یہ اس وقت نہ صرف اقتدار میں تھی بلکہ سندھ کی وزارت داخلہ بھی اس کے پاس تھی جس کا کام امن و امان قائم رکھنا اور عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنا ہوتا ہے اس تنظیم نے اس دن جب عدالت میں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اپنے ہزاروں کارکنوں کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ کی عمارت کا گھیراؤ کروایا ،ججوں سمیت ہائی کورٹ کا پورا عملہ سہم گیا اور اس دن کے بعد سے اس کیس کی دوبارہ سماعت نہیں ہوئی ۔
ہماری پارلیمنٹ نے جو اکیسویں ترمیم آئین میں منظور کی ہے اس میں دہشت گردی کو مذہب سے جوڑ کر پوری دنیا کو ایک طرح سے یہ سند جاری کی ہے ہم بھی آپ کی طرح یعنی مغرب کی سوچ یا یہود و ہنود کی سوچ کے مطابق اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ہمارے ملک میں جتنی دہشت گردی ہورہی ہے وہ صرف مذہب کی وجہ سے ہو رہی ہے ۔اس ترمیم سے وہ لوگ پاک وصاف ہو گئے جنھوں نے لسانی علاقائی بنیادوں پر دہشت گردانہ کارروائی کی ہے ،ایک زمانے میں اسی شہر میں یہ تماشہ بھی ہو چکا ہے کہ تکبیر کے ایڈیٹر جناب صلاح الدین مرحوم کے گھر پر کچھ لوگوں نے ایک مذہبی بات کی بنیاد پر ہری پگڑی پہن کر ان کے گھر پر حملہ کیا تھا ۔بعد میں یہ راز کھل گیا کہ کس نے یہ کارروائی کی تھی ۔اب بھی یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی شخص پگڑی باندھ کر ڈارھی بڑھا کر کوئی بھی دہشت گردی کرسکتا ہے اور الزام کسی مذہبی تنظیم پر لگایا جاسکتا ہے ۔یہ اور طرح کے بہت سارے خدشات ہیں جس نے اس ترمیم کی افادیت کو غیر موثر کردیا ہے -

قتل کے مجرموں کو پھانسی دینے کے سلسلے میں جو ترجیحات طے کی گئیں ہیں وہ بھی معلوم کس نے کن بنیادی اصولوں پر طے کیا ایک بات تو یہ سامنے آئی ہے کہ دہشت گردانہ کارروائیوں میں جنھیں سزائیں ہوئی ہیں انھیں پہلے لٹکایا جائے یہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کے علاوہ ان سزاؤں پر عمل FIFOکے قانون کے تحت دی جائیں اس کا مطلب ہوتا ہے کہ First in Fiarst out جو پہلے آئے پہلے جائے یعنی جس کو بہت پہلے سزا سنائی جاچکی ہے اس کی سزا پر پہلے عمل کیا جائے ،اور عوام کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ ان سزاؤں پر تیزی سے عمل کیا جائے ۔

پرویز مشرف کے مجرمان کو تیزی سے اپنے منطقی انجام تک پہنچانے سے ایک شبہ یہ بھی تقویت پا رہا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے یہ کسی لانگ ٹرم پلاننگ کا حصہ ہو کہ اگر کوئی طالع آزما ساری بساط کو لپیٹ کر جس میں ہو سکتا ہے کہ آئین کا بھی بوریا بسترا گول کر دیا جائے اور وہ اقتدار پر قبضہ کرلے تو پھر کوئی فرد بھی اس طالع آزما کے خلاف کوئی کارروائی تو دور کی بات کچھ سوچ بھی نہیں سکتا ورنہ اس کو اسی وقت موت کی سزا دی جا سکتی ہے ،خدا کرے کے ایسا نہ ہو اور ہمارے یہاں سب کچھ ٹھیک طریقے سے چلتا رہے ۔لیکن یہ بھی ایک بات ہے کہ اب ہر وقت دل کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ خدا نہ خواستہ کہیں کچھ ہو نہ جائے ۔
 
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 41224 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.