امریکہ انخلا ،پاکستان اور افغانستان پر اثرات

جیسے جیسے امریکہ کی جانب سے افغانستان کی انخلا ء کی اعلان کردہ تاریخ نزدیک آ رہی تھی ، امریکہ کی پریشانی میں متواتر اضافہ ہوتا جارہا تھاکہ افغان جنگ میں استعمال ہونے والا 50ارب ڈالر کا ساز و سامان۔ واپسی کے سبب امریکہ کیلئے وبال اور بھاری نقصان کا باعث بن رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق سامان کی واپسی کیلئے 6ارب ڈالر لاگت آئے گی، امریکی حکام اپنا سازو سامان افغانستان میں چھوڑنے کے حامی نہیں ہیں ۔ کیونکہ انھیں اس بات کا خدشہ ہے کہ امریکہ کی واپسی کے بعد طالبان افغانستان پر با آسانی غالب ہوجائیں گے اور ان کا تمام ساز و سامان طالبان کے زیر استعمال آجائے گا ۔افغان جنگ کے بارہ سال بعد امریکی حکام انخلا ء سے قبل فوجی ساز و سامان طالبان سے بچانے کیلئے مختلف آپشن پر غور کر رہے ہیں ، گو کہ پینٹاگون عندیہ دے چکا ہے کہ افغانستان میں مستقل امن کے قیام تک اُس کی مکمل فوج واپس نہیں جائے گی اس لئے ایک سال کی توسیع بھی کردی گئی اور امریکہ کی ماضی کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ اُس نے جس بھی ملک میں لشکر کشی کی ہے ، وہاں سے جنگ بندی کے بعد بھی امریکی فوجی اڈے اور فوجی موجود رہیں ہیں ، اس لئے یہ ناممکن ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر امریکہ کا کوئی فوجی نہیں ہوگا ، ابتدائی طور پر پینٹاگون کی جانب سے بیان میں پانچ ہزار فوجی افغانستان میں رہنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں تعداد کی ضرورت کی لحاظ سے مزید اضافے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا گیا۔تاہم امریکہ کی نقل و حرکت میں کمی ضرور واقع ہوجائے گی اور ان کیلئے دیگر مشکلات میں سب سے اہم مسئلہ جنگی گاڑیوں ، ڈائنگ روم ،جم اور کپڑے اور دیگر اشیا ء کو واپس لے جانا ہے۔ دسمبر2014ء تک 35ہزار فوجی گاڑیاں اور 95ہزار کنٹینرز امریکہ، فوجی وطن واپس لے جانا چاہتے تھے اور اس کی ترسیل کی لاگت کاتخمینہ6 ارب ڈالر کے قریب لگایا جارہا ہے۔ بھاری فوجی ساز سامان کی اس واپسی کو تاریخ کی سب بڑی فوجی سازو سامان کی ترسیل قرار دیا جا رہا ہے۔امریکی فوجی کیلئے مسئلہ اول یہی ہے کہ افغانستان میں کوئی بندرگاہ نہیں ، فضائی یا مشرق وسطی کا راستہ استعمال کرنے سے لاگت میں بے تحاشا اضافہ ہوجائے گا اس لئے ان کی تمام توجہ پاکستان کے راستے اپنے فوجی سامان کو لے جانے پر مرکوز ہے، جنھیں پاکستان میں کسٹم فیس ادا کرکے نکالا جاسکے گا۔افغان جنگ میں صرف کنٹینرز کو نکالنے کی لاگت 237ملین ڈالر لگائی جا رہی ہے ، جبکہ ایک ملین ڈالر سے زیادہ قیمت والے 2ہزار ٹرکوں کو افغانستان میں چھوڑنے پر غور کیا جارہا ہے ۔ذرائع کے مطابق ایسی چوبیس ہزار گاڑیاں پہلے ہی امریکی فوج کے استعمال میں ہیں۔8ٹن وزنی یہ ٹرک فوجیوں کو لانے جانے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں اور سڑک کے کنارے نصب بم ان پر اثر نہیں کرتے۔

امریکہ کا یہ ارادہ بھی ہے کہ انھیں لے جانے کے بجائے اسکریپ کردیا جائے اور اس کی نیلامی کرکے ان سازو سامان کو افغانستان اور پاکستان سمیت کسی ملک کے حوالے نہیں کیا جائے۔جنگی ساز و سامان کی فروخت اور نیلامی کیلئے ایک ویب سائٹ پر اشتہار دینے کا پروگرام پیش کیا جارہا ہے ۔ من پسند افراد اس سائٹ سے اپنی پسند کے جنگی ساز و سامان کو حاصل کررہے ہیں ا۔لیکن بھاری فوجی ساز و سامان کو فروخت سے قبل تباہ کردیا جائے گا تاکہ کسی کے استعمال میں اس کی ٹیکنالوجی نہ آسکے ، اس لئے لکڑی کے تختے سے ٹرک اور فائر انجن سے روٹی پکانے والی مشین تک ہر روز اس سائٹ پر نئے آئٹمز پیش کئے جارہے ہیں ، گو کہ امریکہ چاہتا ہے کہ فوجی ساز و سامان جو افغان جنگ میں استعمال ہوا ایسے واپس لا کر کیلی فورنیا میں قائم 35ہزار ایکڑ پر محیط ڈپو میں اسٹور کیا جائے۔یہاں پہلے ہی لاکھوں جنگی گاڑیاں اور ایک ارب ڈالر مالیت کے کپڑے موجود ہیں ، اٹلانٹک کونسل کے سنئیر فیلو جم ہاسک کے مطابق اتنا زیادہ ساز و سامان واپس لانے کے بجائے وہیں تباہ کردیا جائے گا۔امریکہ اپنے فوجی ساز و سامان کو پاکستان کے حوالے بھی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی واقع ہے لیکن امریکہ کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اگر پاکستان دفاعی ساز و سامان کے ساتھ مضبوط ہوگا تو شدت پسندون کے خلاف کاروائی کرنے میں دشواری کا کم سامنا کرنا ہوگا۔ اگر امریکہ نے افغانستان سے باقاعدہ انخلا ء شروع کردیا ہے تو قوی امکان یہی ہے کہ طالبان کے تمام گروپ اجتماعی طور پر مال غنیمت کو حاصل کرنے کیلئے امریکی قافلے پر دھاوا بولیں گے اور کابل سے لیکر کراچی تک امریکی قافلیکی باحفاظت واپسی کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔اس کیلئے امریکہ کو پاکستان کی فوجی امداد کے طور پر اپنا سازو سامان پاک فوج کے حوالے کرنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن برقرار رہ سکتا ہے اور افغان جنگ میں چالیس ہزار سے زائد معصوم پاکستانیوں کی ہلاکتیں ، صرف امریکی جارحیت کی بنا ء پر ردعمل کے طور پر ہوئیں ۔اصل حقائق یہی ہیں کہ پاک عسکری قوت کی قربانیوں کا کوئی مالی تعاون مدوا نہیں کرسکتا لیکن دنیا میں امن کے خاطر اور افغانستان کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان اپنے طویل ترین بارڈر پر در اندازوں کو روک سکنے کی اہلیت حاصل کرے ۔ گو کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مطالبات در مطالبات کی پالیسی اپنائی ، جس کے سبب پاکستانی عوام میں امریکہ کے خلاف اعتماد کی فضا پیدا نہیں ہوسکی ۔پاکستان کی تضیحک اور بھارت کی ہمنوائی کے ساتھ سی آئی اے کی جانب سے بلا روک ٹوک کاروائیوں اور ڈرون حملوں نے پاکستانی عوام کے جذبات کو شدید مشتعل کیا ، خاص کر امریکی فوج کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی اور امریکی پادری کی جانب سے قرآن پاک شہید کرنے کے واقعے سمیت متعدد ایسے مواقعے آئے جس میں امریکہ اگر انسانیت اور مذاہب کے احترام کے طور پر اپنا مڈبرانہ کردار ادا کرتا تو یقینی طور پر افغانستان سے ایسے ہزیمت اٹھا کر جانے کیلئے محفوظ راستے کی تلاش میں پریشانی اور اربوں ڈالر کا نقصان نہیں اٹھانا پڑتا ۔ طورخم بارڈر و باب دوستی سے لیکر کراچی کے ساحلوں تک طالبان نے اپنے نیٹ ورک کو اس قدر مضبوط بنا لیا ہے کہ عسکری قیادت ، سیاسی جماعتوں کی نا اتفاقیوں کی بنا ء پر ٹھوس حکمت عملی کرنے سے قاصر رہی اور طالبان کو اپنے قدم جمانے کا بھرپور موقع مل گیا ۔امریکہ اس زعم میں اگر ہے کہ طالبان کا باب ختم ہوگیا تو اس کی خام خیالی ہے کیونکہ طالبان ایک ایسی قوت کا نام ہے جس میں اپنی سر زمین کے خلاف لڑنے جذبہ اسلامی ٖغلبے کیوجہ سے مستحکم ومتفق ہے۔شواہد یہی بتاتے ہیں کہ پاکستان میں بد امنی کیلئے امریکہ کی جانب سے سی آئی اے ، اپنے زیر خریدایجنٹوں کے ساتھ مکروہ کردار ادا کر رہی ہے اور اس کے پاکستان توڑنے کے کئی منصوبے منظر عام پر آچکے ہیں ، پاکستانی حکمران بلا شبہ امریکی خوشنودی چاہتے ہیں لیکن پاکستانی اور افغانی عوام اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود امریکہ کے ہر عمل کو شک و شبے کی روشنی سے دیکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود پولیو خاتمے کی مہم بُری طرح ناکام ہو رہی ہے اور شکیل آفریدی کی ایک عمل کی وجہ سے پورے ملک میں اس مہم کے خلاف شک و شبے کاا ظہار کیا جاتا ہے اور شدت پسند اب کبھی نہیں چائیں گے کہ این جی اوز کسی بھی بہانے سے ان کے علاقوں میں داخل ہوں ، اس لئے امریکی مفادات کے بجائے صحت عامہ کیلئے بھی کی جانے والی کوششیں امریکی طرز عمل کی وجہ سے ناکام ہو رہی ہیں اور بے قصور پولیو ورکر ، شدت پسندوں کا کھلم کھلا نشانہ بن رہے ہیں۔حکومت کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف واضح پالیسی نہ ہونے کے سبب مسلم لیگ (ن) جو طالبان کے نزدیک پسندیدہ جماعت تھی اب انھیں بھی اے این پی کی طرح سبق سیکھانے کا الٹی میٹم دیا جا رہا ہے جو ایک خطرناک رجحان کی نشان دہی کررہا ہے۔امریکہ ، اگر پاکستان میں اپنے لئے ہمدردی حاصل کرنے کیلئے مخلص ہے تو ایسے اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگا ۔افغانستان سے انخلا ء کیلئے پاکستان کو دفاعی لحاط سے مضبوط کرنا خود امریکہ کے مفاد میں ہے ، جدید ترین ساز وسامان کو اسکریپ کرنے کے بجائے پاک عسکری قوت کو دینے سے مستقبل میں پاکستانی سرحدوں کی حفاظت ، دراصل پورے عالمی خطے کی حفاظت کیلئے ہوگی۔چند ارب ڈالرکیلئے کھربوں ڈالر کی دوبارہ مہم جوئی امریکی کی رہی سہی معیشت کو تباہ کردے گا۔ افغانستان کو پاکستان کے بغیر کوئی دوسرا ملک اس لئے کنٹرول نہیں کرسکتا کیونکہ ان کی جغرافیائی و ثقافتی راویات ایک جیسی ہیں اس لئے پاکستان کو افغانستان کی جانب سے در اندزیوں اور غیر ملکی شدت پسندوں کی روک تھام اور ان کے خلاف بھرپور کاروائی کیلئے عسکری مضبوطی ناگزیر ہے ، ملک کی مشرقی سرحدیں پر بھارتی جنگی جنونی مہم جوئی کا مسلسل اثر پورے پاکستان پر ہو رہا ہے اسی طرح پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے عناصر اپنی اس روش سے یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کمزور ہوجائے گا تو ان کے مقاصد پورے میں کامیابی کا تناسب بڑھ جائے گا تو یقینی طور پر یہ ایک غلط فیصلہ ہوگا۔پاکستان ، اپنی دفاعی قوت کے حوالے سے دنیا میں مضبوط ترین عسکری قوت تسلیم کی جاتی ہے ، امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد افغانی افواج کی جانب سے مہم جوئی کا شوق ، اور مشرقی حصوں پر بھارتی جنونیت کا مقابلہ تو پاکستان جیسے تیسے کر لے گا لیکن امریکہ اگر یہ سمجھتا ہے کہ پرویز مشروف کی طرح ایک فون کی دہمکی پر پاکستان ایک بار پھرگھٹنے دوبارہ ٹیک دے گا تو یہ غلط فہمی ہوگی اور اسکا ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔امریکہ عالمی امن و امان کیلئے اپنے طرز عمل میں گنجائش پیدا کرے جو خطے کیلئے بہتری کا مثبت قدم ہوگا۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744460 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.