پیٹرول بحران .... سازش یا حکومتی نا اہلی؟
(عابد محمود عزام, karachi)
پنجاب بھر میں پیٹرول کا بحران
دوسرے ہفتے میں داخل ہوچکا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے شہری مسلسل پیٹرول کی
تلاش میں در بدر اور خوار ہو رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی پنجاب بھر میں 90 فیصد
پمپ پیٹرول بحران کی وجہ سے بند رہے۔ صرف دس فیصد پر سیل جاری رہی، لیکن
وہاں گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں اور پیدل افراد کی کئی کئی میل لمبی قطاریں
لگی رہیں۔ حکومت کے دعووﺅں کے باوجود بحران میں کسی طرح کی کمی نہیں آئی،
بلکہ بحران بدستور جاری ہے۔ لوگ سارے کام کاج چھوڑ کر پیٹرول کی تلا ش میں
پھرتے رہے۔ عوام کی اس تکلیف کا مداوا کب ہو پائے گا کسی کے پاس کوئی تسلی
بخش جواب نہیں ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کی بدولت حکومت
نے 2015 کے آغاز پر پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا سہرا اپنے سر
سجایا، مگر پنجاب کے عوام کو دو بوند پیٹرول کو بھی ترسادیا۔ پیٹرول کی قلت
کے باعث اسکولوں میں حاضری کی شرح انتہائی کم رہی، دفاتر میں بھی یہی صورت
حال نظر آئی۔ پیٹرول بحران کی وجہ سے کئی علاقوں میں حکومت کے خلاف احتجاج
کیا گیا، جبکہ کئی پمپوں پر صارفین اور پمپ ملازمین سے لڑائی کے کئی واقعات
ہوئے، جن کے دوران متعدد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں، بعض پمپوں پر لوگوں کو
کنٹرول کرنے کے لیے پولیس بھی طلب کی گئی۔ وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے
نوٹس لیے جانے کے باوجود صوبائی دارالحکومت سمیت پنجاب بھر میں پیٹرول کے
بحران کے جلدی ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے، بلکہ اب تو پیٹرول
بحران نے کراچی کا بھی رخ کرلیا ہے۔ گزشتہ روز کراچی کے تقریباً نصف پیٹرول
پمپ اچانک بند ہوگئے، جس کے بعد کھلے پیٹرول پمپوں پر گاڑیوں کی طویل
لائنیں لگ گئیں، پیٹرول بلیک میں بیچا جاتا رہا، جس سے شہریوں کو شدید
مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ایک ایسے وقت میں جب پیٹرول اور فرنس آئل کا
بحران ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے، جس کے پیش نظر وزیراعظم نواز
شریف نے اپنی توجہ اس بحران کے حل کی جانب مبذول کر دی ہے۔ وزیر اعظم کی
جانب سے ہفتے کو اہم افسران کی معطلی کے بعد حکومت نے پیٹرولیم سیکٹر کی
ذمے داریاں سنبھالنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے۔ جبکہ پاکستان
میں پیٹرول کے حالیہ بحران کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی کمیٹی نے اپنی
ابتدائی رپورٹ میں تیل اور گیس کے نگران ادارے ”اوگرا“ کو اس بحران کا ذمہ
دار ٹھہرایا ہے۔ صوبہ پنجاب کے علاوہ خیبر پختونخوا کے کچھ علاقوں میں
پیٹرول کا بحران گزشتہ ایک ہفتے سے جاری ہے اور اس دوران شہریوں کو شدید
مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ذرائع نے کہا کہ 580 ارب روپے سے متجاوز رقم
کی ریکوری کی غرض سے وزارت خزانہ نے وزارت پانی اور بجلی پر دباو ¿ بڑھانے
کے لیے فنڈز ادا نہیں کیے، نتیجتاً پاکستان نیشنل شپنگ کارپورشن کی جانب سے
معاملات تعطل کا شکار ہوئے اور بحران نے جنم لیا۔ منگل کے روز اجلاس کے
دوران کہا گیا کہ وزیراعظم نے ملک میں پیٹرولیم کی خریدوفروخت اور ترسیل کے
ڈھانچے میں تبدیلیوں کا حکم دیا، تاکہ مستقبل میں ایسی صورتحال دوبارہ پیدا
نہ ہو۔ اجلاس میں پیش کی گئی ابتدائی رپورٹ کے مطابق بطور نگران اوگرا کی
اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکامی پیٹرول کی قلت کی وجہ بنی۔
اگرچہ وزیر پیٹرولیم نے پیٹرول کا بحران اس ہفتے کے آخر تک ختم ہونے کی
پیشگوئی کی ہے، کیونکہ حکومت مسئلہ پر قابو پانے کے لیے ہنگامی اقدامات
کررہی ہے۔ تاہم حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ تمام حکومتی
اقدامات کے باوجود پیٹرول کا بحران آئندہ دس روز تک جاری رہے گا۔ پی ایس او
کے اعلیٰ ذرائع کے مطابق حکومت نے ہنگامی بنیادوں پر پیٹرول کا انتظام کرنا
شروع کردیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ملک کی سب سے
بڑی آئل مارکیٹنگ کمپنی (او ایم سی) خود کو مشکل سے نکالنے کے لیے چھوٹی
کمپنیوں سے بھیک مانگ رہی ہے، جبکہ ماضی میں پی ایس او بحران سے نکلنے میں
چھوٹی کمپنیوں کی مدد کرتی رہی ہے۔ ذارئع کا کہنا ہے کہ شیل کے 20000 میٹرک
ٹن تیل کے علاوہ پی ایس او نے بھی پیٹرول درآمد کیا ہے اور عمان ٹریڈنگ
انٹرنیشنل شپ 50 ہزار میٹرک ٹن تیل لائے گا، اس کا جہاز وی میاسٹروس عمان
کی سوہر بندرگاہ پر لوڈنگ کرنے جارہا ہے۔ یہ جہازتقریباً تمام مارکیٹنگ
کمپنیوں شیل، شیوران، ٹی پی پی ایل، پی ایس او وغیرہ کے لیے تیل لارہا ہے۔
اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو یہ ممکنہ طور پر 26 جنوری 2015 کو برتھ پر لگے گا
اور اس پیٹرول کو پنجاب پہنچنے میں مزید چار سے پانچ دن لگیں گے، جبکہ ایک
اور جہاز ریمبس حال ہی میں سنگاپور سے روانہ ہوا ہے، جس کو کراچی پہنچنے
میں کم از کم 12 دن لگیں گے۔ چنانچہ اس تیل کے دستیاب ہونے کی ممکنہ قریب
ترین تاریخ 30 جنوری یا 31 جنوری ہوگی، جس کا مطلب ہے بحران کم از کم دس دن
تک جاری رہے گا۔
حالیہ پیٹرول بحران پر جہاں تمام سیاسی جماعتوں سمیت دیگر حلقوں نے بحران
کی ذمے داری حکومت پر ڈالتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہے، وہیں ذرائع
کا کہنا ہے کہ پی ایس او کو اس حقیقت کا علم تھا کہ ملک بھر میں 29 آئل
ڈپوﺅں پر تقسیم زیادہ ہوتی ہے اور وہ کم خرچ والے ڈپوﺅں کو فراہم کم کرکے
ان بڑے ڈپوﺅں کو اضافہ تیل فراہم کرکے اس بحران سے بچ سکتی تھی۔وزارت
پیٹرولیم اور پی ایس او کے حکام بخوبی آگاہ تھے اور ممکنہ بحران کا انہیں
علم تھا، مگر انہوں نے آنکھیں بند کررکھی تھیں، اس بحران کے پس پشت باقاعدہ
فراہمی، تقسیم کی منصوبہ بندی نہ ہونا، مبینہ کرپشن اور بدانتظامی ہے۔ وزیر
خزانہ اسحاق دار کا کہنا ہے کہ پیٹرول بحران حکومت کے خلاف سازش ہے، جبکہ
تجزیہ کاروں کے مطابق تیل کا موجودہ بحران حکومت کی خراب طرز حکمرانی اور
واضح نا اہلی ہے، کیونکہ وزارت پٹرولیم کے سینئر ترین عہدیدار بھی عاقبت نا
اندیش ثابت ہوئے ہیں۔ ملکوں میں بحران آتے ہی ہیں لیکن ان پر قابو پانا اور
بحران سے نکلنا حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے، لیکن یہاں حکومت اپنی ذمے داری
سے جان چھڑانے کے لیے بحران کو اپنے خلاف سازش قرار دے رہی ہے۔ حالانکہ یہ
سازش نہیں بلکہ اس کو حکومت کی واضح نااہلی ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق پارکو
ریفائنری کا شٹ ڈاﺅن پنجاب میں پٹرول بحران کی اہم وجہ بنا۔ رواں ماہ کے
آغاز پر پارکو ریفائنری کو تکنیکی بنیادوں پر 5 روز کے لیے شٹ ڈاﺅن کیا
گیا، جس کے باعث وسطی اور بالائی پنجاب میں پیٹرول کا بحران پیدا ہوا، جبکہ
پیٹرول سستا ہونے کے امکان پر ریفائنریز اور مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے
بفر سٹاک نہ ہونے کے باعث یہ بحران سنگین صورتحال اختیار کر گیا۔ دوسری
جانب ملک پیٹرول بحران کے ساتھ ساتھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں بھی مزید اضافہ
ہوگیا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے شہریوں کی پریشانیاں مزید بڑھ گئی
ہیں، متعدد علاقوں میں شاٹ فال 7سے 8ہزار میگاواٹ تک جاپہنچا ہے۔ متعدد
شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 15گھنٹے تک پہنچ گیا ہے، جس کی وجہ سے عوام
پیٹرول بحران کے ساتھ بجلی لوڈشیڈنگ کے خلاف بھی سراپا احتجاج ہیں۔ ذرائع
کا کہنا ہے کہ پیٹرول بحران کی وجہ سے ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں مزید
اضافہ ہوسکتا ہے اور بجلی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 15گھنٹے سے بڑھ کر 20گھنٹے
تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ |
|