بسم اللہ الرحمن الرحیم
فرانس کے حالیہ واقعات اور بعض دوسرے مغربی ممالک میں اس جیسے واقعات نے
مجھے اس بات پر قائل کیا کہ میں ان کے بارے میں براہ راست آپ سے بات اور
گفتگو کروں۔ میں آپ جوانوں کو اپنا مخاطب قراردیتا ہوں ؛ اس کی وجہ یہ نہیں
کہ میں آپ کے والدین کو نظر انداز کررہا ہوں ، بلکہ اس لئے کہ میں آپ کی
قوم اور آپ کے ملک کی زمام آپ کے ہاتھوں میں دیکھ رہا ہوں نیز حقیقت یابی
کی حس کو آپ کے دلوں کی گہرائی میں ہوشیار اور زندہ مشاہدہ کررہا ہوں ، اس
تحریر میں میرا خطاب آپ کے سیاستدانوں اور حکومتی ارکان سے نہیں ہے کیونکہ
میرا اس بات پر یقین ہے کہ انھوں نے مکمل طور پر آگاہی کے ساتھ سیاست کا
راستہ صداقت اور سچائی سے الگ کرلیا ہے۔
میری بات آپ کے ساتھ اسلام کے بارے میں ہے خاص طور پر اسلام کی اس شکل و
صورت اور تصویرکے بارے میں ہے جو آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ گذشتہ دو
عشروں سے ادھر یعنی تقریبا سویت یونین کے انحلال کے بعد بہت زیادہ تلاش و
کوشش کی گئی ہے تاکہ اس عظیم دین کو خوفناک دشمن کی جگہ پیش کیا جائے۔
افسوس ہے کہ مغربی سیاسی تاریخ میں طویل عرصہ سے رعب و نفرت کے احساس کو
بھڑکانے اور اس سے استفادہ کی پالیسی جاری ہے۔ میں یہاں مغربی قوموں کے
سامنے مختلف اور گوناگوں قسم کےخوف و ہراس کی تفصیل پیش نہیں کرنا چاہتا
ہوں آپ خود تاریخ کے بارے میں حالیہ تنقیدی مطالعہ کا مختصر جائزہ لینے کے
بعد مشاہدہ کریں گے کہ جدید تاریخ نگاری میں دنیا کی دیگر قوموں اور
ثقافتوں کے ساتھ مغربی حکومتوں کی غلط اور غیر صادقانہ و مکارانہ رفتار کی
مذمت کی گئی ہے۔ یورپ اور امریکہ کی تاریخ ،غلامی کے سلسلے میں شرما رہی ہے
، استعمار کے دور کی وجہ سے اس کا سرجھکا ہوا ہے، رنگین فاموں اور غیر
عیسائيوں پر ظلم و ستم سے وہ شرمندہ ہے؛ کتھولیک اور پروٹسٹان کے درمیان
مذہب کے نام پر خونریزی یا پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں نسل اور قومیت
کے نام پر خونریزی کی وجہ سے آپ کے مؤرخین اور محققین کے سرشرم سے جھکے
ہوئے ہیں۔
یہ بات بذات خود ایک اچھی اور قابل تحسین بات ہے اور میرا مقصد اس طویل
فہرست سے تاریخ کی سرزنش اور مذمت نہیں ہےبلکہ میں آپ سے چاہتا ہوں کہ آپ
اپنے روشنفکر افراد سے سوال کریں کہ مغرب میں لوگوں کا ذہن اور وجدان دسیوں
یا سیکڑوں سال کی تاخیر کے بعد کیوں بیدار ہوتا ہے؟ جمعی وجدان میں ماضی
بعید کے بجائے روز مرہ کے مسائل کے بارے میں تجدید نظر کیوں نہیں ہوتی؟
اسلامی فکر و ثقافت جیسے اہم مسائل کے فروغ میں رکاوٹ کیوں پیدا کی جاتی
ہے؟
آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تحقیر، نفرت اور دوسروں کے بارے میں خیالی خوف و
ہراس ،ظالموں اور ستمگروں کے مفادات کی مشترکہ راہ رہی ہے۔
اب میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے آپ سے سوال کریں کہ اس مرتبہ غیر معمولی شدت
کے ساتھ خوف پیدا کرنے اور نفرت پھیلانے کی پرانی اور قدیمی سیاست نے اسلام
اور مسلمانوں کو کیوں نشانہ بنا رکھا ہے؟ اور کیوں آج کی دنیاوی طاقتیں
اسلام کو حاشیہ کی طرف دھکیلنا اور غیر فعال بنانا چاہتی ہیں؟ اسلام کی
کونسی قدریں اور مفاہیم ان بڑی طاقتوں کے منصوبوں کے لئے خطرہ ہیں اور
اسلام کی غلط شکل و صورت پیش کرنے میں ان کے کون سے مفادات کو تحفظ فراہم
ہوگا؟ لہذا میرا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ آپ اسلام کے خلاف وسیع پروپیگنڈے کے
محرکات کے بارے میں ریسرچ اور جستجو کریں۔
میرا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ اسلام کے خلاف منفی قضاوت اور پروپیگنڈوں کے
ہجوم کے رد عمل میں آپ اسلام کے بارے میں براہ راست اور مستقیم شناخت حاصل
کریں تاکہ آپ کم سے کم یہ جان لیں کہ وہ چیز جس سے آپ کو ڈراتے ہیں وہ کیا
ہے اور اس کی حقیقت اور ماہیت کیا ہے۔ میں اس بات پر اصرار نہیں کرتا کہ
اسلام کے بارے میں جو میرا نقطہ نظر ہے آپ اسی کو قبول کرلیں بلکہ میں یہ
کہتا ہوں کہ آپ کسی کو اجازت نہ دیں کہ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ مؤثر
حقیقت کو آلودہ اغراض و مقاصد کے تحت آپ کے سامنے غلط بنا کر پیش کیا
جائے۔آپ اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ اپنے نوکر دہشت گردوں کو اسلام کا
نمائندہ بنا کر پیش کریں ۔ آپ اسلام کو اس کے اصلی مآخذ اور مدارک کے ذریعہ
پہچاننے کی کوشش کریں ، اسلام کو قرآن مجید کے ذریعہ اور پیغمبر اسلام (
صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی حیات طیبہ کے ذریعہ پہچاننے کی کوشش کریں،
میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ نے آج تک مسلمانوں کے قرآن کی طرف براہ
راست رجوع کیا ہے؟ کیا آپ نے پیغمبر اسلام ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی
تعلیمات اور ان کی زندگی کے اخلاقی اور انسانی پہلوؤں کا مطالعہ کیا ہے؟
کیا آپ نے میڈيا کے علاوہ اسلام کے پیغام کو کسی دوسرے مآخذ سے حاصل کیا
ہے؟ کیا کبھی آپ نے اپنے آپ سے سوال کیا ہے کہ اسی اسلام نے طویل برسوں کے
دوران کونسے اقدار کی بنیاد پر دنیا کے علمی اور فکری تمدن کو فروغ دیا اور
اعلی ترین دانشوروں اور مفکرین کی تربیت کی؟
میں آپ سے چاہتا ہوں کہ آپ اجازت نہ دیں کہ وہ سست و غلط باتوں کے ذریعہ آپ
کے اندر ایسا احساس و جذبہ پیدا کریں اوراس طرح آپ سے غیر منصفانہ قضاوت کی
صلاحیت کو سلب کرلیں۔ آج ارتباطاتی وسائل نے جغرافیائی سرحدوں کو توڑ دیا
ہے، آپ اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کو ذہنی اور ساختگی سرحدوں میں بند کردیں اگر
چہ کوئی شخص انفرادی طور پر ایجاد شدہ شگاف کو پر نہیں کرسکتا لیکن آپ
جوانوں میں سے ہر ایک اپنے ارد گرد کے ماحول میں آگاہی کی غرض سے اس شگاف
کے اوپر فکر و انصاف کا پل بنا سکتا ہے۔ اگر چہ یہ چیلنج، اسلام اور آپ
جوانوں کے درمیان پہلے سے طے شدہ منصوبہ کے تحت ناگوار ہے لیکن آپ کے
متلاشی اورمتجسس ذہن میں نئے سوالات پیدا کرسکتا ہے اور آپ کے پاس ان
سوالات کے جوابات تلاش کرنے کا غنیمت موقع ہے جس میں آپ کے سامنے حقائق
نمایاں ہوجائيں گے۔ لہذا اسلام کے بارے میں صحیح فہم و ادراک کے سلسلے میں
اس موقع سے بھر پور استفادہ کیجئے تاکہ آپ کے اس ذمہ دارانہ احساس کی بدولت
آئندہ آنے والی نسلیں اسلام اور مغرب کے بارے میں آسودہ خاطر ہوں۔
سید علی خامنہ ای
21/01/2015
|