گستاخانہ خاکے اور پٹرول کا بحران
(Muhammad Siddiqui, Layyah)
عشق اور ایمان کہتے ہیں کہ
گستاخانہ خاکوں کی مذمت میں لکھوجبکہ عقل کہتی ہے کہ پٹرول کے بحران
پرلکھو۔عشق اورایمان کہتے ہیں کہ ناموس رسالت پرایک بارپھرحملہ ہوا ہے۔ اس
لیے اس سے بڑاموضوع نہیں ہوسکتا۔ عقل کہتی ہے کہ عوام خوارہورہی ہے اس لیے
پٹرول بحران پرلکھناموزوں عنوان ہے۔اسلام دشمنوں کی طرف سے یہ پہلا حملہ
نہیں بلکہ یہ مسلسل کیے جارہے ہیں۔باربارمسلمانوں کے ایمانی جذبات کوٹھیس
پہنچائی جارہی ہے۔ اس سے پہلے ڈنمارک ، ناروے اوردیگرممالک نے بھی گستاخانہ
خاکے شائع کیے۔ جس پردنیابھرکے مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ اب پھر فرانس کے
جریدے نے توہین آمیزخاکے شائع کردیے ہیں۔ یہ جریدہ اس سے پہلے سال
دوہزارگیارہ اورتیرہ میں بھی یہ مذموم حرکت کرچکاہے۔ اس اخبارکے دفترپرحملہ
ہواجس سے بارہ افرادواصل جہنم اوردس زخمی ہوگئے۔اس سے پہلے بھی ا س پر حملے
ہوچکے ہیں۔اس حملے کے بعدپیرس میں کم وبیش چونتیس لاکھ افرادنے جریدے کے
ساتھ اظہاریکجہتی کے طورپرمارچ کیا۔ جس میں چالیس عالمی راہنماؤں نے بھی
شرکت کی۔فرانسیسی صدر، برطانوی، اطالوی وزرائے اعظم، جرمن چانسلر،فلسطینی
صدر، اردن کے شاہ اورملکہ سمیت کئی عالمی راہنماشریک ہوئے ۔ مارچ کوکامیاب
بنانے کے لیے عوام کومفت ٹرانسپورٹ کی سہولت دی گئی۔اس توہین رسالت کے
مرتکب فرانسیسی جریدے کے ساتھ اظہاریکجہتی کرکے عالمی طاقتوں نے بتادیا ہے
کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ایک ہیں۔ اوروہ ایک دوسرے کادفاع کرتے رہیں
گے۔گستاخانہ خاکوں،ان کے شائع کرنے والوں، ان کے بنانے والوں اوران کے ساتھ
ہمدردی کرنے والوں کے خلاف دنیابھرمیں مسلمانوں کا احتجاج جاری ہے۔ عالمی
قوتوں کی دوغلی پالیسی دیکھیے کہ جب اس جریدے نے توہین آمیزخاکے شائع کیے ۔
اس وقت توسب خاموش رہے ۔ اب جب اس پرحملہ ہواہے تواس کے ساتھ اظہاریکجہتی
کیاگیا۔ایک طرف دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑی جارہی ہے۔ تودوسری طرف ایسی
حرکتیں کرکے مسلمانوں کواشتعال دلایاجاتاہے۔ایسی حرکتیں مسلمانوں کوہی دہشت
گردثابت کرنے کے لیے کی جارہی ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں خواجہ سعدرفیق
کی پیش کردہ قراردادکوتمام اراکین پارلیمنٹ نے متفقہ طورپرمنظورکرلیا۔ اس
قراردادمذمت میں اقوام متحدہ اوریورپی یونین سے مطالبہ کیاگیاہے کہ آزادی
اظہارکے نام پرتوہین آمیزخاکوں کی اشاعت کاسلسلہ روکاجائے۔ان خاکوں کی
اشاعت سے پاکستان سمیت پوری دنیاکے مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے گئے
ہیں۔قراردادمیں کہاگیا کہ یہ ایوان فرانس کے ایک میگزین اوردیگرمغربی
اوریورپی اخبارات میں توہین رسالت پرمبنی خاکوں کی اشاعت کی پرزورمذمت
کرتاہے۔ایوان کی متفقہ رائے ہے کہ آزادی اظہارکے حق کاغلط استعمال نہیں
ہوناچاہیے۔آزادی اظہارکامطلب دوسرے مذاہب کے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح
کرنانہیں۔اس حوالے سے اقوام متحدہ کے چارٹراوردیگرعالمی قوانین کااحترام
کیاجاناچاہیے۔حضورصلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی حرمت اوردیگرانبیاء کرام کے
تقدس پرحملے مسلمانوں کے جذبات کوٹھیس پہنچانے اورجذبات کومشتعل کرنے
کاباعث بنتے ہیں۔یہ ایوان اس حوالے سے ہونے والے پرتشددواقعات کی بھی مذمت
کرتاہے۔ اورقراردیتاہے کہ اسلام امن کادین ہے۔اورتمام مذاہب اورمقدس ہستیوں
کے احترام کادرس دیتاہے۔اس سے پہلے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اراکین اسمبلی
نے اپنے اپنے الفاظ میں توہین آمیزخاکوں کی مذمت کی۔ مذہبی تنظیموں، کلاء،
سول سوسائٹی کی طرف سے بھی گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف احتجاج سلسلہ
جاری ہے۔ صدرممنون حسین کہتے ہیں کہ آزادی اظہارکامطلب مقدس شعائرکی توہین
نہیں۔شہبازشریف کہتے ہیں کہ خاکوں کی اشاعت قابل مذمت ہے۔ مسلمانوں کی دل
آزاری ہوئی۔حافظ سعیدکاکہناہے کہ حرمت رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی حفاظت
ہمارے دین کاحصہ مسلم حکمران فرانسیسی سفیروں کوملک بدرکریں۔ ملک سے دہشت
گردی، قتل وغارت کے خاتمے کے لیے گستاخانہ خاکوں کے خلاف عالمی سطح پرقانون
سازی کے لیے آوازاٹھائی جائے۔حافظ سعید اپنی اصلاح کرلیں کہ تحفظ ناموس
رسالت ہمارے ایمان کاحصہ نہیں بلکہ عین ایمان ہے۔ مذہبی ،سیاسی جماعتوں کے
راہنماؤں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیاہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی
توہین جرم قراردی جائے۔اورمسلمانوں سے فراسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کامطالبہ
کیاہے۔اسلامی تعاون کی تنظیم اوآئی سی نے توہین آمیزخاکوں کی اشاعت پرسخت
برہمی کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ میگزین کے خلاف قانونی کارروائی کے لیے
غورکیاجارہاہے۔ اظہاررائے کی آزادی کی آڑمیں نفرت پھیلانے اورلوگوں کے
عقائدکومجروح کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔اوآئی سی کے سیکرٹری جنرل
عیادمدنی نے یہ باتیں ایک اخبارکوانٹرویومیں کہی ہیں۔سراج الحق کہتے ہیں کہ
عالمی برادری پرواضح ہوناچاہیے کہ مسلمان کسی صورت پیغمبرصلی اﷲ علیہ والہ
وسلم کی توہین برداشت نہیں کرسکتے۔پاکستان کے ساتھ ساتھ دیگراسلامی ممالک
میں بھی گستاخانہ خاکوں کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ یورپ کئی چرچ نذرآتش ہوچکے
ہیں۔کئی ممالک میں پولیس کواکیلے مارچ نہ کرنے کاحکم دیاگیا ہے۔ توہین
آمیزخاکوں کیخلاف چیچنیامیں ہزاروں افرادنے ریلی نکالی ۔ افغانستان
اورفلسطین میں بھی مظاہرے کیے گئے۔نائیجراوریمن میں بھی احتجاج
کیاگیا۔مغربی ممالک اورعالمی طاقتیں جس آزادی اظہارکی بات مسلمانوں کے
جذبات کوٹھیس پہنچاکرکرتے ہیں۔ وہ خودبھی برداشت نہیں کریں گے کہ ان کاکوئی
مذاق اڑائے۔ کیاوہ اپنے مذہبی لیڈرتورہے ایک طرف سیاسی لیڈروں کے خلاف ایسی
بات برداشت نہیں کریں گے۔ توہین رسالت قانون کے بارے میں تویہ پروپیگنڈہ
کیاجاتاہے کہ اس قانون کاغلط استعمال ہورہا ہے۔ درحقیقت وہ کہناچاہتے ہیں
کہ یہ قانون ختم ہوناچاہیے۔ہماراتمام عالمی طاقتوں، عالمی راہنماؤں،
دانشوروں، قانون کے رکھوالوں سے سوال ہے کہ باربارتوہین آمیزخاکے شائع
کرناکیایہ آزادی اظہارکے قانون کاغلط استعمال نہیں۔ دنیا کاہرمسلمان اس بات
سے اتفاق کرتاہے کہ یہ آزادی اظہارکے قانون کاغلط استعمال ہے۔مجھے تولگتا
ہے کہ یہ قانون بنایاہی اس لیے گیا ہے کہ ایسی حرکتیں آسانی سے کی
جاسکیں۔ہم وزیراعظم پاکستان نوازشریف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام اسلامی
ممالک کے سربراہان کوساتھ ملاکراقوام متحدہ اورعالمی عدالت میں یہ مسئلہ
اٹھائیں۔ اوراقوام متحدہ اورسلامتی کونسل میں یہ قانون منظورکرائیں جس میں
تمام انبیاء کرام علیہم السلام اورتمام مذاہب کی توہین عالمی جرم
قراردیاجائے۔ ان جرائم کاارتکاب کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی کامقدمہ درج
ہوناچاہیے۔اوآئی سی بھی اپنے اعلان پرجلدعمل کرے اورتمام مسلمان مل کراس
آزادی اظہارکے قانون کوہی چیلنج کردیں۔ پاکستان نے جس طرح اوآئی سی کوخط
لکھاہے اسی طرح کاخط اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کوبھی لکھاجائے۔
آئیے اب عقل کی بھی مان لیتے ہیں ۔ پٹرول سستاہویامہنگاعوام کے لیے مسئلہ
بن جاتاہے۔ مہنگاہورہاہوتوقیمتیں بڑھنے کے دن سے کئی روزپہلے پٹرول پمپوں
پرفروخت بندکردی جاتی ہے۔ تاکہ جوذخیرہ موجودہے اسی پربھی منافع
کمایاجاسکے۔اورجب سستاہوتویہ کہہ کرفرخت بندکردی جاتی ہے کہ ہمیں یہ قیمتیں
منظورنہیں۔جب یہ دونوں وجوہات نہ ہوں توپٹرول کی قلت پیداہوجاتی ہے۔ عوام
اسی طرح خوارہوتے ہیں۔ سولہ جنوری کے ایک قومی اخبارمیں ہے کہ خواجہ آصف
کہتے ہیں کہ جہازپہنچ رہے ہیں قلت چار،پانچ روزمیں ختم ہوجائے گی۔سترہ
جنوری کے ایک اورقومی اخبارکی خبرہے کہ پٹرول بحران سنگین پچانویں فیصدپمپ
بندشہری چوتھے روزبھی مارے مارے پھرتے رہے۔ایمبولینسز، ریسکیواورپولیس کی
گاڑیاں بھی متاثر۔پی ایس او نے سپلائی جاری رکھنے کے لیے حکومت سے مزیدپچاس
ارب مانگ لیے۔کئی جگہ بلیک میں دوسوروپے لٹرتک فروخت وزیرپٹرولیم نے کہا کہ
52ہزارٹن پٹرول کراچی پہنچ گیا۔ پانچ سے آٹھ روزمیں بحران ختم ہوجائے گا۔
ایک روزپہلے ایک وزیرنے کہا جہازپہنچ رہاہے۔ دوسرے دن دوسراوزیرکہتاہے کہ
پٹرول پہنچ گیا۔ ایک دن ایک وزیرنے کہا کہ بحران پانچ روزمیں ختم ہوجائے گا۔
دوسرے دن دوسرے وزیرنے کہا کہ بحران پانچ سے آٹھ روزمیں ختم ہوجائے گا۔جب
یہ سطورلکھی جارہی ہیں۔ خواجہ آصف نے پانچ روزپورے ہوگئے ہیں۔پٹرول بحران
پروزیراعظم نے سیکرٹری پٹرولیم سمیت چارافسرمعطل کردیے۔سعودی عرب سے واپسی
پروزیراعظم نے ائیرپورٹ پرہی ہنگامی اجلاس بلالیا۔صورتحال فوری بہتربنانے
کی ہدایت کی۔شاہدخاقان نے مستعقفی ہونے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ بحران
کاذمہ داراوگراہے۔پچاس ہزارمیٹرک ٹن تیل آج کراچی پہنچے گا۔ آٹھ روزمیں قلت
ختم ہوجائے گی۔ یہ بات ہے سترہ جنوری کی۔ شہبازشریف سے ملاقات میں نوازشریف
نے کہا کہ پٹرلیم بحران پیداکرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی
ہوگی۔وزیرپٹرولیم نے کہا کہ بحران ختم نہ ہواتواستعفیٰ دے دوں گا۔نوازشریف
نے اعتراف کیا کہ پٹرول بحران سے حکومت کی سبکی ہوئی۔پٹرول بحران
پروزیراعظم برہم ہوگئے۔وزیرپٹرولیم نے قوم سے معذرت کرتے ہوئے بحران رواں
ہفتے ختم کرانے کی یقین دہانی کرادی۔وزیراعظم نے بحران کے ذمہ داروں کے
تعین کے لیے کمیٹی بنادی۔شاہدخاقان عباسی نے پریس بریفنگ میں کہا کہ پٹرول
کی یومیہ سپلائی دگناکردی ہے۔صارفین زائدخریداری نہ کریں۔قلت سے متعلق سازش
کاعلم نہیں۔یکم فروری کوپٹرول کی قیمت میں پانچ روپے یااس سے زائدکی کمی کی
جائے گی۔وزیرپٹرولیم کی نصیحت پرغورکریں وہ کہتے ہیں کہ صارفین زائدخریداری
نہ کریں۔ ایک توپٹرول کا بحران ہے۔ مل ہی نہیں رہا۔ جہاں مل بھی رہا ہے۔
وہاں ڈیمانڈسے بھی کم مل رہا ہے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پٹرول پمپوں پرطویل
قطاروں میں لگے صارفین کواتناپٹرول ملتاہے جس سے وہ وہاں سے گھرتک ہی پہنچ
پاتے ہیں۔ اب وزیرموصوف کی طرف سے عوام کوایسی نصیحت کاکیامطلب
لیاجائے۔اسحاق ڈارکہتے ہیں کہ پٹرول بحران حکومت کے خلاف سازش ہے۔عمران خان
نے کہا کہ دھرنے جاری رہتے توپٹرول کی قلت ہوتی نہ بجلی پرسرچارج
لگتا۔حکومت پٹرول بحران میں پھنس گئی۔دہشت گردی کیسے ختم کرے گی۔
پٹرولیم بحران پروزراء کے بیانات میں واضح تضاد پایاجاتاہے۔پندرہ جنوری
کوخواجہ آصف نے کہا جہازپہنچ رہے ہیں قلت چار،پانچ روزمیں ختم ہوجائے
گی۔اسی روزوزیرپٹرلیم نے کہا کہ بحران نہیں کمی ہے ۔ صورتحال دس روزمیں
ٹھیک ہوجائے گی۔سترہ جنوری کووزیرپٹرولیم شاہدخاقان عباسی نے کہا کہ قلت
آٹھ روزمیں ختم ہوجائے گی۔ایک وزیرکہتاہے کہ سازش ہوئی۔ دوسراکہتاہے کہ
سازش کاکوئی علم نہیں۔ وزیراعظم کی بنائی گئی کمیٹی نے بھی اپنی رپورٹ میں
وزراء کوبری الذمہ قراردیتے ہوئے بحران کا ذمہ داراوگراکوٹھہرادیاہے۔وزراء
کہتے ہیں دگناسپلائی دی جارہی ہے۔ توپھرپٹرول کیوں نہیں مل رہا۔دنیا کے کسی
اورملک میں یہ بحران پیداہوتاتومتعلقہ وزراء یہ دیکھے بغیر وہ اس بحران کے
ذمہ دار ہیں یانہیں مستعفی ہوجاتے۔یہاں پاکستان میں عوام خوارہورہے
ہیں۔وزراء کے چہروں پرندامت کے آثار ہی نہیں ہیں۔ سیکرٹری پٹرولیم کے ساتھ
ساتھ وزیرپٹرولیم کوبھی برطرف کردیناچاہیے تھا۔ اس سے حکومت کی واہ واہ
ہوجاتی۔جب تک پٹرول کابحران حل نہیں ہوتا اس وقت تک وزیرپٹرولیم سمیت
دیگرمتعلقہ وزراء ، سیکرٹری دیگر افسران سے گاڑیاں واپس لے لی جائیں۔یہ سب
اپنے اپنے دفاتر اورجہاں بھی جائیں سائیکل پرجائیں۔ ان کوموٹرسائیکل بھی نہ
دی جائے۔ایسے سرکاری ملازمین جوگاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ اوران کا
گھردفترسے دوکلومیٹرتک ہے۔ وہ پٹرول کے بحران کے علاقوں میں بحران ختم ہونے
تک سائیکلوں پردفتروں میں جائیں ۔ یوں پٹرول کی بچت کرکے عوام کوریلیف
دیاجائے۔اس بحران کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے بھی جوڈیشل کمیشن بنایاجائے۔ |
|