گدھے اور بحران

پاکستان بحرانوں کی سر زمین ہے۔مذہبی اور مسلکی بحران ،سیاسی اورمعاشی بحران،معاشرتی ،لسانی اور ثقافتی بحران۔کمال یہ کہ پاکستان ہر بحران سے نکل آتا ہے اور پاکستانی یوں سینہ تان کے چلتے ہیں جیسے یہ بحران ان کے ملک میں نہیں بھارت یا امریکہ میں آیا ہو۔
نہ جانے کس کی دعائیں سنبھال لیتی ہیں
میں ڈوبنے لگتا ہوں سمندر اچھال دیتا ہے

پاکستان بنا تو ہم مالی بحران کا شکار تھے۔گاندھی بھارت سے ہمارے پیسے مانگتے جان سے گیا ۔بھارت کی پالنے ہی میں شدت پسندی ثابت ہوئی اور ہم مالی بحران سے نکل آئے۔اب ہم سیاسی بحران کا شکار تھے۔ایوب خان نے ہمیں اس بحران سے نکال کے ایک اور بحران میں مبتلا کر دیا۔یحییٰ خان اسی بحران کا تسلسل تھا۔آدھا ملک گنوا کے ہم اس بحران سے نکلے تو ہم بھٹو کے سول بحران کے ہتھے چڑھ گئے۔ تحریک نظام مصطفےٰ چلی۔سنا ہے اس تحریک کے دوران امریکی ڈالروں کی پاکستان میں اس قدر بہتات تھی کہ گدھے بھی انہیں نہیں کھاتے تھے۔ بھٹو کے بحران سے نکلے تو ضیائی بحران نے ہمیں گود لے لیا۔نوے دن کے وعدے کے ساتھ آنے والا اس بحران کا ذمہ دار تو دس سال بعد عالم بالا سے ہی عالمِ بالا کو روانہ ہو گیا لیکن اس بحران کی باقیات ابھی تک ہم بھگت رہے ہیں۔شدت پسندی کا بحران۔فرقہ وارانہ منافرت کا بحران،لسانیت اور صوبائی عصبیت کا بحران،منشیات اور ناجائز اسلحے کا بحران۔

ضیاء کا دور بحرانوں کی ماں تھا۔ ہر بحران سے ایک نیا برآمد ہوا اور آج تک پاکستان کی روح سے چمٹا ہوا ہے۔ضیاء کی زندگی ،اس کی حکومت اور اس کی موت سبھی کچھ بحرانی تھا۔ضیاء کی رخصتی کے بعد عوامی اور سیاسی بحران آیا۔نابالغ سیاسی حکمرانی کا دور۔یوں لگتا تھا کہ آپسی لڑائی میں پاکستان کا دھڑن تختہ اب ہوا کہ تب۔بے نظیر،نواز شریف پھر بے نظیر اور پھر نواز شریف۔مشرف کے بحران نے ان دونوں بحرانوں سے قوم کی جان چھڑائی۔ہر بحران کے بعد عوام امید باندھتے ہیں کہ اب ہمیں بحرانوں سے نجات مل جائے گی لیکن آنے والا بحران اس قدر شدید ہوتا ہے کہ عوام پچھلا بحران بھول جاتے ہیں۔مشرف کاایجنڈا دیکھ کے عوام سمجھے کہ آ گیا وہ شہکار جس کا مدت سے تھا انتظار اب اقرباء پروری رشوت سفارش کا ملک سے خاتمہ ہو گا۔ قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب ہوگا اور پاکستان ترقی کی راہ پہ گامزن ہو گا۔ کچھ عرصے بعد پاکستانیوں نے دیکھا کہ ماضی کے سارے چور لٹیرے قبضہ گروپ اسمبلیوں میں تھے یا حکومت میں اور مشرف صاحب صدارتیں مانڑ رہے تھے۔خدا خدا کر کے مشرف کا بحران رفع ہوا تو زرداری بحران نے قوم کو آ جکڑا۔امین فہیم جیسے ازکار رفتہ آدمی کے اکاؤنٹ سے بھی بے نامی چار چار کروڑ روپیہ برآمد ہونے لگا۔جو چلتے پرزے تھے ان کی آنے والی نسلیں تک اس بحران میں سنور گئیں۔

زرداری بحران کے خاتمے کے بعد قوم جس بحران سے دوچار ہوئی یہ دراصل ضیائی بحران کا بچہ ہے۔

نواز شریف ضیاء کے پروردہ ہیں اور انہی کے مشن کو آگے بڑھانے کا بارہا اعلان کر چکے۔ضیا کا مشن تھا معاشرے کی تقسیم۔مذہبی لسانی مسلکی اور معاشرتی بنیادوں پہ عوام کو بانٹنا۔نواز شریف اسی ایجنڈا کو آگے بڑھانا چاہ رہے تھے۔طالبان کے ساتھ مذاکرات اسی ایجنڈے کی تکمیل کی طرف پہلا قدم تھا لیکن حالات بدل چکے تھے۔اب کہ کارپردازان قدرت کچھ اور سوچ کے بیٹھے تھے۔عالمی ایجنڈا بدل گیا تھا۔پاکستان کے حالات بھی اس بات کے متقاضی تھے کہ اب قاتلوں کو مزید مہلت نہ دی جائے۔پشاور میں ایک سو چوالیس شہادتوں کے بعد ہم جذباتی بحران کا بھی شکار ہوئے۔حالانکہ مرگ انبوہ کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔اس واقعے نے یہ ثابت کیا کہ فوج کا ہاتھ عوام کی نبض پہ رہتا ہے۔وہ جب چاہیں عوام کے جذبات کو آسمان پہ پہنچا دیں اور جب چاہیں انہیں زمین کی تنگنائیوں میں دفن کر دیں۔ مدت بعد اس بحران سے جان چھڑانے کا صحیح فیصلہ کیا گیا۔سرطان اپنی آخری سٹیج پہ ہے۔اس کی جڑیں اب گلی گلی محلے محلے پھیلی ہیں۔دعا ہے کہ اﷲ کریم ہمیں اس بحران سے بھی اسی طرح نکالے جیسے پہلے بحرانوں سے ہم نکلتے آئے ہیں۔

رہا پٹرول کا بحران تو اس سے پاکستان کو کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔اس سے اسلام آباد کے گدھے البتہ بہت متائثر ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں گدھوں کی مانگ بڑھ گئی ہے۔چالیس لاکھ کا گدھا اب ایک لاکھ کا ہو گیا ہے۔ پٹرول کی بندش کی وجہ سے اسلام آباد میں اب ہر طرف گدھوں کی حکمرانی ہے۔باربرداری کی چھوٹی گاڑیاں پٹرول پہ چلتی ہیں۔ گدھوں کے مالک ایک ایک گدھے پہ ایک ایک ٹرک کا سامان لاد رہے ہیں۔ مالک کی جیب بھرتی جا رہی ہے جبکہ گدھوں کا کچومر نکل گیا ہے۔مدت سے بے اعتنائی کا شکار گدھے ایک دم وی آئی پی ہو گئے ہیں۔گو جان ضیق میں ہے لیکن اس کے باوجود خوش ہیں کہ مالک کی نظر میں ہیں۔اسلام آباد میں جدھر دیکھو گدھے ہی گدھے ہیں۔سبزیاں ڈھوتے،گھروں کا سامان اٹھاتے،پانی کے کنسترپہنچاتے،تھوک اور پرچون کے دوکانداروں کو سہولت بہم پہنچاتے یہ گدھے انسان کی خدمت میں یوں مصروف عمل ہیں کہ اگلے الیکشن میں کھڑے ہونے کی تیاری کر رہے ہیں۔ایک سیاسی گدھے نے مجھے کان میں بتایا کہ اگر حالات یہی رہے تو اگلے الیکشن میں ان کی جیت پکی ہے۔اس کا خیال تھا کہ موجودہ گدھوں اوہ معاف کیجئیے گا موجودہ حکمرانوں سے تو شاید گدھے بہتر طرزِ حکمرانی پیش کر سکیں گے۔ایک گدھا پیشن گوئی کر رہا تھا کہ پٹرول کا بحران تو کچھ بھی نہیں۔اصل بحران تو ابھی پائپ لائن میں ہے۔فرنس آئل کی عدم دستیابی کی وجہ سے بجلی کا بحران۔پاکستان میں گدھا بے وقوفی اور برداشت کا استعارہ ہے اور امریکہ میں عقل اور خدمت کا۔ امریکی ہمارے ملک میں اپنے کلچر کی بناء پہ چن چن کے گدھوں پہ سرمایہ کاری کرتے ہیں کہ وہ عقل کے ساتھ ان کی بھی خدمت کریں گے اور اپنے ملک کی بھی لیکن پاکستانی گدھے ۔۔۔۔۔۔وہ بالآخر پاکستانی ہیں اپنی وضع کیوں بدلیں؟

ویسے آپ کا کیا خیال ہے اگر گدھے واقعی اگلا الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیں تو جیت جائیں گے کیا؟ جناب گدھے تو گدھے ہی ہوتے ہیں انہیں کیا خبر کہ پاکستان کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ بحران جب حد سے بڑھتے ہیں تو پھر گدھے حکمران نہیں رہتے ان پہ سواری کرنے والے خود زمام اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں۔آخر یہ سمجھتے کیوں نہیں۔گدھے کہیں کے۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291931 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More