تیل کی دھار نہیں، قطار دیکھو

وطنِ عزیز میں عجیب عجیب تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں ،ہر ہفتہ نہیں تو ہر ماہ کو ئی نہ کو ئی تماشہ لگ جاتا ہے جس میں تماشہ لگانے والے اپنی کر تب دکھاتے ہیں اور عوام بے چارے رو تے رہتے ہیں ،کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ تماشہ ختم ہو تا ہے تو دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔دیکھئے نا ! کچھ عرصہ پہلے دھرنے تھے اور ہم تھے،اچانک سانحہ پشاور پیش آیا جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا۔ابھی ہم وہ غم نہیں بھو لے تھے کہ قوم کے رگوں میں دوڑنے والا خون کم پڑ گیا ۔تیل کی حیثیّت فی زمانہ کسی بھی قوم کی رگوں میں خون کی سی ہو تی ہے کیو نکہ تیل ہی کی بد ولت قوم کی معیشت ، مشینری، گا ڑیوں کا پہیہ چلتا ہے۔تیل نہ ہو تویوں لگتا ہے جیسے زند گی کا پہیہ ر ک گیا ہو،زندگی مفلوج ہو جاتی ہے، پبلک ٹرانسپورٹ بند ہو جاتی ہے،بچے سکولوں اور کالجوں کو نہیں جا سکتے،ایمبو لنس اور ریسکیو اپریشن متا ثر ہو جاتی ہے، شہر شہر ہنگامہ آرائی شروع ہو جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے جب پٹرول کی قلّت پیدا ہو ا تو پورے ملک میں خصوصا پنجاب میں پٹرول پمپوں پر قطاریں لگ گئیں لوگوں کو سخت پریشانی کا سامنا پڑ گیا بلکہ تا دمِ تحریر اسیرِ الجھن ہیں۔دوسری طرف ہماری حکو مت جوبِلا شک و شبہ پٹرول کی قلّت اور اس بحران کی مکمل ذمہ دار ہے ،کسی کو اس بحران اور غفلت کا ذمہّ دار ٹہرانے سے بھی قاصر ہے۔حکومت کے وزراء کے بیانات پڑ ھ کر ہنسی بھی آ تی ہے اور افسوس بھی، ایک ہی حکومت،ایک ہی پارٹی کے وزراء کیسے کیسے بیانات داغ رہے ہیں ، ذرّہ ملا حظہ فر مائیے۔وفاقی وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب فر ماتے ہیں ’’پٹرول بحران حکومت کے خلاف گہری ساز ش ہے‘‘پٹرولیم کے وفاقی وزیر جناب شاہد خاقان عباسی صاحب کہتے ہیں ’’کھپت میں اضافے کے باعث بحران پیدا ہوا ‘‘ جناب وزیرِ اعظم صاحب کا ارشاد ہے ’’ بحران نااہلی کا ثبوت ہے ،ذمہ دار سزا کے لئے تیا ر رہیں‘‘ تحقیقاتی کمیٹی بنتی ہے اور تحقیق کے بعد رپورٹ پیش کرتی ہے کہ کسی وزیر کا قصور نہیں، کسی نے غفلت نہیں برتی ،سب معصوم ہیں یوں وزیر اعظم صاحب تمام متعلقہ وزراء کو کلین چِٹ عنایت فر ماتے ہیں ۔تحقیقاتی کمیٹی کے رپورٹ میں اس بحران کی ذمہّ داری او گرا کے سر تھوپی جاتی ہے جبکہ اوگرا اس ذمہّ دارے کو قبول کرنے سے یکسر انکار کرتی ہے۔البتہ چار پانچ سرکاری افسران کو اس تماشہ کا بھینٹ چڑھا تے ہو ئے معطل کیا جاتا ہے۔

پوری دنیا میں یہ دستور ہے کہ کسی بھی ادارے کا سربراہ ادارے کے کا رکردگی کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔جو عموما وزیر ہی ہو تا ہے ،کسی ادارے کی وجہ سے ملک میں اتنا بڑا بحران پیدا ہو جائے تو متعلقہ وزیر نہ صرف یہ کہ استعفیٰ دے دیتا ہے بلکہ شرم کے مارے عوام سے منہ چھپائے پھرتا ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ وطنِ عزیز کے ڈھنگ ہی نرالے ہیں ۔سوال پیدا ہو تا ہے کہ ہمارے وزراء بہت بڑا بلنڈر کرنے کے باوجود استعفیٰ کیوں نہیں دیتے ؟ یا ان سے حکومت استعفیٰ کیوں طلب نہیں کرتی؟ دراصل اسی سوال کے پیچھے وہ درپردہ کہانی ہے جسے عوام کے سامنے لانے کی بجائے عوام کے آ نکھوں میں دھول ڈالنے کی کو شش کی جاتی ہے۔ایک عام فہم بات ہے ، اگر کسی جگہ چند افراد اکھٹے ہو کر گروہ کی صورت میں چوری یا ڈاکہ ڈالنا شروع کر دیں تو ایک دوسرے کی پردہ پوشی سب کی مجبوری ہو تی ہے ، اگر ان میں سے کسی ایک کو کسی خطا پر اس گروہ سے نکالا جا ئیگا تو وہ ایک فرد دوسروں کے تمام رازوں کو افشاء کرے گا، اس خوف کی وجہ سے اسے اپنے ساتھ رکھا جاتا ہے تاکہ کام چلتا رہے اور گلشن کا کاروبار چلے۔پیپلز پارٹی کے بڑے معروف راہنما جناب قمر زمان کائرہ صاحب نے گزشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے پٹرول بحران کا ذ مہّ دار وزیر اعظم میاں نواز شریف کو قرار دیا ۔اس لئے کہ وہ اس قسم کے وارداتوں سے بخوبی واقف ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اس قسم کے بحران کیوں اور کیسے پیدا کئے جاتے ہیں اور ان سے کون کس حد تک مستفید ہو تا ہے۔

الغرض اس بد قسمت ملک کے خوش قسمت سیاستدان اور حکمران عوام سے عجیب عجیب مذاق کرتے رہتے ہیں جسے دیکھ کر ہمیں افسوس بھی ہو تا ہے اور خو شی بھی، افسوس اس لئے کہ اپنا پیارا وطن ہمیں جان سے بھی زیا دہ عزیز ہے ، اسے جب کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو ہماری پریشانی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے ۔اور خوشی عوام کو قطاروں میں دیکھ کر ، حاصل ہو تی ہے کیونکہ بار بار ڈسنے کے با وجود ہماری عوام کو عقل نہیں آتی ،وہ بار بار ان لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جو ان کے آزمائے ہو ئے ہیں، آ زمائے ہووئں کو بار بار آزمانا کہاں کی دانشمندی ہے؟ اگر عوام اپنے ووٹ کا درست استعمال نہیں کریں گے تو نتیجہ یہی ہو گا۔عوام کی حالت تو تب بدلی گی جب یہ اپنی حالت بدلنے کی سعی کریں گے ورنہ یوں ہی خوار ہو تے رہیں گے کیونکہ ’’ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔نہ ہو خیال جس کو آپ اپنی حالت بدلنے کا ‘‘ البتہ ان کو بار بار بحران کا سامنا کرنا پڑے گا اور ایک دوسرے کو یہ کہنے کاموقعہ ضرور ملے گا کہ بجلی نہیں تو بجلی کے تار دیکھو،
’’ تیل کی دھار نہیں ، توقطا ر دیکھو ‘‘
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284877 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More