پٹرول کون پی گیا؟

 لوگ ایک ایک روٹی کو ترس رہے تھے لیکن میرے ان عزیزوں کے گھر میں آٹے کے کم از کم چالیس توڑے ایک کونے میں رکھے ہوئے تھے۔وہ متمول لوگ تھے اور بظاہر کافی معقول بھی۔آٹے کا یہ سٹاک ان کی معقولیت کا پول کھولنے کو بہت تھا اور تمول کا بھی کہ یہ وہ آٹا تھا جو وزیر اعلیٰ پنجاب نے خصوصی طور پہ غریب طبقے کے لئے رعائتی نرخوں پر ملوں سے جاری کروایا تھا۔میں نے ازراہ تفنن گھر کے ایک نوجوان سے کہا کہ آٹے کی اس نایابی کے دور میں آپ نے تو اگلے ایک سال کے لئے بھی آٹے کا ذخیرہ کر لیا ہے تو اس نے بتایا کہ آٹے کے ٹرک سیاسی لوگوں کے ڈیرے پہ آتے ہیں اور وہاں سے یہ آٹا لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ہم چونکہ اپنے علاقے کے سابقہ کونسلر کے گروپ سے ہیں اس لئے ہمارے حصے کا آٹا خود ہی ہمارے گھر پہنچ جاتا ہے۔ہمارے ہاں یہ آٹا کھاتا کوئی نہیں کہ ہم تو اپنی زمینوں کی گندم کا آٹا پسوا کے کھاتے ہیں۔یہ ہم بعض اوقات بھینسوں کے چارے میں استعمال کر لیتے ہیں۔چھوڑ اس لئے نہیں سکتے کہ کل کوئی دوسری چیز جس کی واقعی ہمیں ضرورت ہوگی اگر اس کونسلر کے پاس آئی تو پھر وہ بھی ہمیں نہیں ملے گی۔

اس واقعہ کے بعد میں نے عوام کے روئیے پہ غور شروع کیا تو پتہ چلا کہ ہر امیر وغریب اس کوشش میں ہے کہ ہر قیمت پہ زیادہ سے زیادہ آٹا خرید کے سٹاک کر لیا جائے۔کل خدا جانے ملے نہ ملے۔اس سوچ نے آٹے کی قیمتوں کو آسمان پہ پہنچا دیا۔اسلام ایثار کا حکم دیتا ہے۔نبی اکرم ﷺ اور آپ کی آل اور اصحاب رضوان اﷲ تعالیٰ علیھم اجمعین کی ایثار کی مثالوں سے کتب بھری پڑی ہیں۔یہانتکہ کہ آپ کی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنھا اور ان کا خاندان تین دن تک بھوکا رہا اور تیسرے دن جب کہیں سے ایک روٹی کا آٹا میسر آیا تو گوندھتے ہی سائل نے صدا دی ۔حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنھا نے وہ روٹی بھی اس سائل کو دے دی۔آقائے دوجہاں ﷺ نے فرمایا کہ گوشت پکاؤ تو اس میں ایک پیالہ پانی زیادہ ڈال لو کہ ہمسائے کو بھی دے سکو اور اگر اس کی توفیق نہ ہو تو گوشت اس وقت پکاؤ جب ہمسائے کے بچے سو جائیں تا کہ تمہارے گھر سے اٹھنے والی خوشبو سے ان کے بچوں کو محرومی کا احساس نہ ہو۔ہم نبی رحمت ﷺ کی غلامی کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن ان کی تعلیمات سے ہمارا دور کا بھی واسطہ نہیں۔

شریف خاندان کی حکومت میں ہر شے نایاب ہے اور بلاشبہ یہ ان کی ذاتی لالچ اور نا اہلی کا نتیجہ ہے اور اسکا دفاع کرنا سرِ بازارجوتے کھانے کے مترادف ہے ۔کسی بھی شے کی کمی یا قحط کوئی انہونی نہیں ۔کمی ہو جایا کرتی ہے لیکن حکمران اس کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔اس کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشکل کی گھڑیوں میں اس چیز کو جس کی قلت ہو اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں لیکن ہمارے حکمران عوام کو بجلی نہیں دیتے لیکن ان کے اپنے، ان کے عزیزوں رشتہ داروں کے گھراوران کے کتوں اور موروں کے پنجرے بقعہ نور بنے ہوتے ہیں ۔ہمارے ہاں گیس کی اس قدر قلت ہے کہ لوگوں کے چار چار سال کے معصوم بچے صبح ناشتہ کئے بغیر بھوکے پیٹ سکول جاتے ہیں لیکن رائے ونڈ میں چھیاسی چھیاسی ڈشیں پکتی ہیں ۔جاتی امراء کے قلعے سے بھلے ان کی خوشبو باہر نہ آتی ہو لیکن کہانیاں ضرور باہر آ کے عوام کے سینے پہ مونگ دلتی ہیں۔سی این جی کی قلت عوام کو سی این پمپس کا مجاور بنا دیتی ہے لیکن حکمرانوں کے کانوں پہ جوں کیسے رینگے کہ ان کے تو سروں پہ بال ہی نہیں اور بے بال سروں پہ جوئیں رینگنے کی کوشش کریں تو پھسل پھسل جاتی ہیں۔سی این جی والی گاڑی تو غریب کی مجبوری ہے۔حکمرانوں کی گاڑیوں میں تو عام پٹرول بھی نہیں ڈلتا۔ہائی اوکٹین ڈلتا ہے اور اس کی ملک میں کوئی قلت نہیں۔اگر ان کی گاڑیاں عام پٹرول پہ چلتی ہوتیں اگر یہ لوگ عام راستوں سے سفر کرتے ہوتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ عوام کا پٹرول کی تلاش میں کیا حشر ہو رہا ہے۔

ان کی نا اہلی کا اتنا ہی نوحہ بہت ہے لیکن آج ہمیں اپنے رویوں پہ بھی تھوڑا غور کرنا ہے۔ ہم کیا قوم ہیں کہ کوئی جنس دو روپے مہنگی ہو جائے تو ہم آسمان سر پہ اٹھا لیتے ہیں لیکن جب وہی جنس نیایاب ہو جائے تو ہم اسے ڈبل قیمت پہ بھی خریدنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ ہماری دہائی کے الفاظ بدل جاتے ہیں ۔پھر ہماری فریاد ہوتی ہے کہ بھائی مہنگے سستے کو گولی مارو کم از مہیا تو کرو ہم منہ مانگے دام دیں گے۔ہم اپنی ضرورت سے زیادہ سٹاک کرتے ہیں۔ دوسروں پہ رعب ڈالنے کے لئے ہم تنگی کے ان دنوں میں اس مفقود شے کا استعمال بڑھا دیتے ہیں۔پٹرول کے لئے پہلے مارے مارے پھرتے ہیں۔ اس کے لئے منت ترلہ کرتے ہیں۔اسے بلیک میں خریدتے ہیں ۔جب مل جائے تو ہم لانگ ڈرائیو پہ نکل جاتے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ دوسروں کے لئے مزید تکلیف کا باعث بنتا ہے لیکن ہم پھر بھی باز نہیں آتے۔آپ ایک دن میڈیا پہ خبر چلوا دیں کہ اگلے ہفتے آکسیجن میں کمی آ جائے گی آپ دیکھیں گے کہ لوگ بغیر سوچے سمجھے اور جانے آکسیجن کے سلنڈر بھروا کے گھروں میں رکھ لیں گے۔ہمارے اسی روئیے کے باعث بلیک مارکیٹ مافیا لمبا مال بناتا ہے اور ہم جانتے بوجھتے ان کے ہاتھوں لٹتے رہتے ہیں۔

حکومت بری ہے اور اس کے عمال بھی۔لیکن کیا وقت نہیں آیا کہ اچھی اور مہذب اقوام کی طرح ہم بھی دوسروں کا خیال اور ان کے لئے ایثار کر کے جینا سیکھیں ۔یقین کریں اگر ہم اپنی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھال لیں۔قربانی ایثار اور ہمدردی کا جذبہ اپنے اندر پیدا کر لیں تو شاید ہی ہمارے ہاں کبھی کسی شے کی کمی واقع ہو اور اگر ہو بھی تو اس میں ہماری ذلت ورسوائی کا یہ عالم نہ ہو جو اب ہے۔اگر آپ حکمرانوں سے یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ کسی مشکل گھڑی میں وہ آپ کو اس مشکل سے نکلنے کا کوئی منصوبہ دیں گے تو یہ آپ کی بھول ہے۔جو حکمران لوگوں کو شہر میں داخلے کا آسان منصوبہ نہ دے سکیں اور انہیں گھنٹوں ناکوں پہ ذلیل کریں وہ قحظ سے عہدہ برا ہونے کا طریقہ کیابتائیں گے۔اس سے نکلنے کے لئے مجھے اور آپ کو خود ہی سیکھنا ہو گا اور پھر محبت ایثار قربانی اور ہمدردی کا یہ سبق آگے اپنی اولاد کو بھی سکھانا ہوگا تا کہ ہم نہ سہی ہماری آنے والی نسلیں ہی کچھ بہتر زندگی گذار سکیں۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 267847 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More