امریکی صدر براک اوبامہ کے استقبال کی تیاری دیکھ کر بے
ساختہ آوارہ فلم کا نغمہ یاد آتا ہے’’گھر آیا میرا پردیسی ‘‘ لیکن
موجودہ سیاسی صورتحال میں اس کا دوسرا مصرع معمولی ترمیم کا متقاضی ہے یعنی
’’پیاس بجھی ہے الیکشن کی‘‘۔ اوبامہ کی جس قدر ضرورت مودی جی کو فی الحال
ہے شاید پہلےکبھی نہیں تھی۔ دہلی انتخاب میں فی الحال بی جے پی کی نیاّ ڈول
رہی ۔ ٹائمز ناؤ کے پروگرام میں ارنب سے گفتگو کرتےہوئے کرن بیدی کی راہ
فرار نے انہیں Iron lady)) سے(I run lady)بنا دیا ہے۔ ویسے براک اوبامہ کے
سخت حفاظتی انتظامات نے مہنگائی میں بی جے پی کا آٹا گیلا کردیا ہے۔ ان کی
آمد کے سبب دہلی کے باشندوں کوجو زحمت اٹھانی پڑ رہی ہے اس کا خمیازہ بی
جے پی کو آئندہ انتخاب میں چکانا پڑ سکتا ہے۔
سنگھ پریوار جو ہندو راشٹر بنانا چاہتا ہے اس کے مطابق قدیم ہندوستانی
تہذیب میں انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کو چارچار حصوں میں تقسیم کیا
گیا تھا۔ ذات پات کا نظام توسماجی تقسیم کیلئے وضع کیا گیا تھا مگر انفرادی
زندگی کی تنظیم کیلئے اسے بھی چار حصوں میں بانٹا گیا تھا جسے آشرم کہا
جاتا تھا ۔ اس لفظ کی بابت اردو داں طبقہ یہ بھول جاتاہے کہ اس کا شرم و
حیا سےکوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ سنسکرت کے شرم سے آیا جس کے معنی کام کے
ہوتے ہیں۔ اس طرح گویا زندگی کے مختلف مراحل کو ان میں کئے جانے والے
افعالسے منسوب کرکےتقسیم کیا گیا ہے ۔ اس میں پہلا مرحلہ برہمہ چریہ ہے جسے
بال آشرم بھی کہتے ہیں۔
سنگھ پریواروالے بیچارے چونکہ زندگی بھر ذہنی طور پر سنِ بلوغ میں داخل
نہیں ہوپاتے اس لئے دوسرے آشرم یعنی گرہست آشرم سے اپنے آپ کو دور رکھتے
ہیں اور اگر کسی کے ماں باپ زور زبردستی کرکے اس کا بیاہ رچا دیں تو وہ گھر
سے بھاگ کر اپنے آپ کو مجرد بنا لیتا ہے ۔ اس کی زوجہ کو اپنے حقوق کی
حصولیابی کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں ۔ اس کی مثال جگ ظاہر ہے۔
اس کے بعد وان پرستھ آشرم ہے جس میں انسان دنیا کی دیگر ذمہ داریوں سے
سبکدوش ہونے لگتا ہے مگر اپنی ازدواجی زندگی جاری و ساری رکھتا ہے ۔ زندگی
آخری مرحلےیعنی سنیاس آشرم میں انسان مکمل رہبانیتاختیار کرکے جنگل
بیابان کی جانب نکل جاتا ہے۔ ہندو راشٹر کے مفکر اعظم سبرامنیم سوامی شاید
نہیں جانتے کہ امریکی صدر کی سیاسی زندگی کے مختلف مراحل میں اساساطیری
تقسیم کا عکس بہت واضح طورپرنظر آتا ہے۔
امریکی آئین کسی شخص دو سے زیادہ میقات کیلئے صدر بنے رہنے کی اجازت نہیں
دیتا اس لئے کوئی دو مرتبہ سے زیادہ انتخاب لڑنے کی سعادت نہیں حاصل
کرپاتا۔ پہلے انتخاب سے قبل امریکی صدارتی امیدوار گویا بال آشرم ہوتا ہے
اورعوام کے ساتھ فلاح بہبود کی بڑی بڑی باتیں کرتا ہے(مودی جی نے بھی یہی
کیا) ۔ کبھی لوگ اس کے جھانسے میں آتے ہیں کبھی نہیں آتے لیکن اگر وہ
کامیاب ہوجائے توگویا گرہستھ آشرم میں داخل ہوجاتا ہے جہاں اسے اپنا اور
اپنے بال بچوں کا مستقبل سنوارنا ہوتا ہے ۔ ایسا کرنے کیلئے امریکی صدر کو
اپنے عہدو پیمان بھلا کر عوام کے بجائے ان سرمایہ داروں کا بہی خواہ بن
جانا پڑتا ہے جن سے چندہ لے کر اس نے انتخاب لڑا تھا اور جن کے تعاون کے
بغیر وہ دوسری مرتبہ انتخاب نہیں جیت سکتا۔
مذکورہ بالامجبوری یا وعدہ خلافی کا نتیجہمیں وہ عوام کی توقعات پر پورا
اترنے میں ناکام رہتا ہے ۔ اس لئے دوسرا انتخاب عالمی دہشت گردی کے خلاف
صلیبی جنگ کی نذر ہوجاتا ہے ۔ اس جنگ میں دشمن بدلتا رہتا ہے۔ کبھی سوویت
یونین ، کبھی عراق، کبھی ایران یاکبھی اسامہ وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح ایک اور
مرتبہ عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں بھی کبھی
کامیابی ہاتھ آتی ہے تو کبھی ناکامی۔ کامیاب ہوجانے کے بعد امریکی صدر جان
جاتا ہے اب قصر ابیض کے اندر اس کے قیام کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ عوام
کی دولت پر عیش و طرب کا یہ آخری موقع ہے۔ اس لئے امریکی صدر کی دوسری
میقات امن و امان ، چین و سکون اور عیش و عشرت کی نذر ہونے لگتی ہے اور اس
کی سیاسی زندگی وان پرستھ آشرم کی جانب رواں دواں ہوجاتی ہے جہاں وہ اپنے
آپ کو سبکدوشی کیلئے تیار کرنے میں جٹ جاتا ہے۔ امریکی صدرکی دو میقاتی
صدارتی زندگی کا خلاصہ علامہ اقبال کے اس شعر میں دیکھا جاسکتا ہے(ترمیم کی
معذرت کے ساتھ)؎
آتجھ کو بتاوں میں تقدیر ’صدر‘ کیا ہے
شمشیر سناں اول طاؤس و رباب آخر
براک اوبامہ فی الحال اپنے طاؤس و رباب والے آخری دور سے لطف اندوز ہورہے
ہیں ۔ ہندوستان کا حالیہ دورہ بھی ہے اسی کاایک حصہ ہے۔ قصر ابیض کے
اندرمارٹن لوتھر کنگ (ثانی)کو پرنام کرنے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی جب
صدر اوبامہ کے ساتھ لوٹ رہے تھے تو انہوں نے بڑے افسوس کے ساتھ اپنی ایک
دیرینہ حسرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے فرمایا میری بیٹیوں کو مجھ سے شکایت ہے
کہ دوران صدارت میں نے انہیں ساری دنیا کی سیر کرائی لیکن ہندوستان نہیں
دکھلایا۔ اب کیا تھا مودی جی نے فوراً انہیں مع اہل و عیال ہندوستان آنے
کی دعوت دے ڈالی اس لئے کہ ویسے بھی جس وقت مودی جی اوبامہ کے گھر گئے تھے
ان کے اہل خانہ کہیں اور نکل گئے تھے۔ اس لئے کہ ان میں کوئی بھی مودی جی
سے ملنے کا مشتاق نہیں تھا۔ اوبامہ نے اس دعوت پر بصد شوق لبیک کہا اس لئے
کہ انہیں پتہ ہے سنیاس آشرم میں داخل ہونے کے بعد انہیں نہ تو کوئی امریکہ
میں پوچھے گا اور نہ ہندوستان میں ۔ اگر وہ ہندوستان اپنے ذاتی خرچ پر بھی
تشریف لائیں گےتب بھی مودی جی تو دور کوئی معمولی سیاستداں بھی ان کو منہ
نہیں لگائے گا۔ یہ حفاظتی انتظامات اور ٹھاٹ باٹ کا تو تصور بھی محال ہوگا۔
یہ کوئی مفروضہ نہیں ہے بلکہ جارج ڈبلیوبش کے سبکدوش ہونے کے بعد اس کے
بھارتی دورہ اس کی زندہ مثال ہے۔
براک اوبامہ کے بارے میں پہلے تو یہ خبر اڑی کی اوبامہ کو وارانسی لے جایا
جائیگا تاکہ وہاں کے رائے دہندگان کو احساس دلایا جاسکے کہ انہوں نے ایک
ایسے شخص کو منتخب کرکے پارلیمان میں بھیجا جس نے انہیں شہشاگہ عالم کے
درشن کرواکر سارا احسان اتار دیا۔ پھر بعد میں کسی نےمودی جی کو یاد دلایا
کہ اوبامہ نےشاہجہاں کے تعمیرکردہ تاج محل کو دیکھنے میں دلچسپی کا اظہار
کیاہے۔ان کی بنارس کے بسیّ گھاٹ پر جانے کی کوئی خواہش نہیں ہے جسےمودی جی
نے خود اپنے ہاتھ میں پھاوڑا لے کر صاف کیا ہے ۔ اس کے بعد اوبامہ نے اپنے
انتظامات کا معائنہ کرنے کیلئے اپنے دست راست جان کیری کو بھیجا تو مودی جی
انہیں احمدآباد لے گئے۔ احمد آباد میں کیری کو متاثر کرنے کیلئے مودی جی
نے فراٹے کے ساتھ انگریزی میں خطبہ ارشاد فرمادیا۔ یہ عجب حماقت ہے امریکہ
میں جاکر ہندی میں خطاب کیا جائے اور احمدآباد کے اندر انگریزی جھاڑی
جائے۔ بعد میں انکشاف ہوا کہدرحقیقت مودی جی تقریر نہیں کررہے تھے بلکہ
تحریر شدہ بیان پڑھ رہے تھے اس لئے اس کے قابلِ تعریف تھا ہونے کا کریڈٹ
لکھنے والے کو جاتا ہے۔
دہلی اور آگرہ کے لوگ اول تو اوبامہ کی آمد سے بہت خوش ہوئے لیکن جب
حفاظتی دستوں نے اپنا پنجہ کسنا شروع کیا تو لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا۔
مختلف راستوں کو بند کردیا گیا۔ تاج محل کے آس پاس سے عوام کو دور رکھنے
کے فرمان جاری کردئیے گئے ۔ امریکی حفاظتی ماہرین نے یوم جمہوریہ کی
تقریبات کے دوران اسے نو فلائی زون میں تبدیل کرنےکا مطالبہ بھی کیا
گویایوم جمہوریہ کے دن سر زمین ہند پرآسمان تک امریکہ کا بول بالا ہوگیا۔
فوجی سربراہان نے نو فلائی زون کی پابندی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا
لیکن دیش بھکت سرکار شاشٹانگ نمسکار کرتے ہوئے اس فیصلے کے آگے بھی نتمستک
(سرتسلیم خم)ہو گئی۔
صدر اوبامہ کی حفاظت میں ۵۰ ہزار اہلکار اور ۱۵ ہزار کیمرے نصب کئے گئے۔
میرا بھاٹیہ نربے۔ عصمت دری معاملےکے بعددہلی شہر کو خواتین کیلئے محفوظ
بنانے کیلئے سرکار کی جانب سےذمہ دار بنائی گئی ہیں۔ جب انہوں نے عدالت کو
آگاہ کیا کہ اوبامہ کی آمد کے پیش نظر ہزار اضافی ۱۵ ہزار کیمرے نصب کئے
جائیں گے تو جج صاحبان بدر دریز احمد اور سنجیو سچدیو نے اس پر حیرت کا
اظہار کیا۔ انہوں نے کہا یہ آپ ہندوستانی شہریوں کیلئے نہیں بلکہ ایک غیر
ملکی صدر کیلئےکررہی ہیں۔ اگر ہم یہی انتظام ہندوستانیوں کے لئے کرنے کا
حکم دیں تو اس پر عملدرآمد میں مہینے بلکہ سالہا سال لگ جائیں لیکن (غیروں
کیلئے) کیلئے آنا ً فانا ًہتوتں کے اندر یہ کام ہوجاتا ہے ۔ یوم جمہوریہ
کے موقع پر جس غلامانہ ذہنیت کا مظاہرہ مرکزی حکومت نے کیا ہے اس نے تقریب
کے وقار پر پانی پھیر دیا۔
اس دورے کے موقع پر مودی جی نےقوم کے ساتاپنے پریوار کو بھی نظر انداز کیا۔
جس وقت اوبامہ بھارت کیلئے پرتول رہے تھے امریکہ میں انسانی حقوق کیلئے
جدوجہد کرنے والی سکھوں کی ایک تنظیم نے آرایس ایس اور اس کی تمام ذیلی
تنظیموں کو ’’غیر ملکی دہشت گردتنظیم‘‘ کے زمرے میں شامل کرنے کا مطالبہ
کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس دہشت گرد تنظیم کو
امریکہ کے لوگ مالی امداد کرتے ہیں جس پر پابندی لگنی چاہئے۔ اس مقدمہ کے
پیش نظر عدالت نے سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری کو ۶۰ دن کے اندر جواب دینے
کا حکم جاری کیا ہے۔ اگر مودی جی میں عزت نفس کی رمق ہوتی تو وہ صدر اوبامہ
سے مقدمہ خارج کروانے کا مطالبہ کرتے ورنہ دورہ رد کرنے کی دھمکی دیتے یا
کم از کم سنگھ پریوار یہ مطالبہ کردیتا لیکن ایسا لگتا ہے اس پورے پریوار
کو سانپ سونگھ گیا ہے اور وہ اپنی ساری ہتک بھلا کر سرخ قالین بچھانے میں
مصروف ہے۔ مودی جی جس وقت واشنگٹن گئے تھے تو ان کا استقبال کرنےکیلئے
اوبامہ نے ایک معمولی افسر کو بھیجا دیا تھا جبکہ اوبامہ کا خیرمقدم
کرنےکیلئے مودی جی خود ہوائی اڈہ پہنچ گئے اور جس جوہری معاہدے کے چرچے ہیں
وہ منموہن سنگھ اور جارج بش کے درمیان ۲۰۰۶ میں طے پا چکا ہے۔
دنیا کا سب سے بہادراور بے خوف آدمی کون ہے اس سوال پرتو اختلاف ممکن ہے
لیکن امریکی صدر کیلئے کئے جانے والےحفاظتی انتظامات کو دیکھ کر یہ فیصلہ
کرنا نہایت سہل ہوجاتا ہے کہ دنیا سب سے زیادہ بزدل اور غیر محفوظ انسان
کون ہے؟ اس واقعہ میں اہل بصیرت کیلئے عبرت کا اور بھی سامان ہے ۔لوگ یہ
سمجھتے ہیں امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے اور اس صدر دنیا کا سب سے
بارسوخ انسان ہے۔ وہ جو چاہے کرسکتا ہے حالانکہ وہ بیچارہ اپنے بال بچوں کے
ساتھ تاج محل کی سیرتک نہیں کرسکا جبکہ ایسا کرناآگرہ میں رہنے والےہر
فقیر و مسکین کیلئے ممکن ہے۔ اس بار لاکھ اہتمام کے ساتھ آگرہ کا منصوبہ
بنایا گیا لیکن مشیت کو یہ منظور نہیں تھا ۔ دورے سے قبل شاہ عبداللہ کا
انتقال ہوگیا۔ اوبامہ کیلئے ممکن تھا دورہ مکمل کرکے جاتے ہوئے ریاض ہوتے
ہوئے جاتےلیکن اگر تقدیر میں محرومی لکھی ہو تو اسے کون بدل سکتا ہے؟ بقول
غالب ؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے |