پاکستان: انسانی اسمگلنگ کی تشویشناک صورتحال
(عابد محمود عزام, karachi)
بہتر ذریعہ معاش کے متلاشی غریب
نوجوانوں اور جنسی تجارت کے لیے زیادہ تر خواتین و بچوں کی اسمگلنگ میں
ملوث گروہوں کے لیے پاکستان بدستور ایک منزل مقصود، راہداری اور منبع مانا
جاتا ہے۔ انسانی اسمگلنگ سے مراد بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے
ہوئے پیسے لے کر خفیہ طور پر یا دھوکا دہی کے ذریعے کسی شخص کو دوسرے ملک
کی سرحد عبور کراتے ہوئے اس ملک میں داخل کرانا ہے۔ انسانی اسمگلنگ کی دیگر
اقسام کے مقابلے میں پاکستان میں زیادہ تر ایسے افراد کی اسمگلنگ کے واقعات
پیش آتے ہیں، جو بہتر روزگار کی تلاش میں غیر قانونی طریقوں سے یورپ، مشرق
وسطیٰ اور دیگر ممالک کا سفر کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم
پاکستانی اگرچہ 17 ارب ڈالر کے لگ بھگ ماہانہ زرمبادلہ ملک کو ارسال کرتے
ہیں اور پاکستانی معیشت کو سہارا دیے ہوئے ہیں، لیکن یہ بھی ایک بڑا المیہ
ہے کہ افرادی قوت کی غیر قانونی اسمگلنگ بھی وطن عزیزکا ایک بہت بڑا مسئلہ
بن چکی ہے۔ بے روزگاری، غربت و افلاس اور بدامنی کے باعث غیرقانونی طور پر
بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے،
لیکن حکومت کی طرف سے نہ تو اس انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے مضبوط
اقدامات کیے جارہے ہیں اور نہ ہی انسانی اسمگلنگ کے اسباب کا سدباب کیا
جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستانیوں کے غیر قانونی
طریقے سے بیرون ملک جانے کے معاملے کا نوٹس لے کر ایف آئی اے سے تفصیلات
طلب کرتے ہوئے کہا کہ ”پاکستان میں لوگوں کے لیے رہنا ناممکن ہوگیا ہے۔ ملک
میں روزگار بھی نہیں، اس لیے لوگوں میں باہر جانے کا تصور فروغ پا رہا ہے۔
ملک کے ایماندار اور قابل لوگ مایوس ہو کر روزگار کے لیے بیرون ملک جانے کو
ترجیح دے رہے ہیں۔ بے روزگاری، افراتفری اور گڈ گورننس کا فقدان ہو تا ہے
تو مایوس شخص مجبور ہو کر بیرون ملک لے جانے والی غیر قانونی لانچ پر چڑ ھ
جا تا ہے۔“ یہ حقیقت ہے کہ غیر قانونی طریقے سے دوسرے ملک میں داخل ہونا
انتہائی مشکل اور ایک بہت اذیت ناک سفر ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ دوسرے ممالک کی
سرحد عبور کرتے ہوئے مختلف طرح سے اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ غیر قانونی
سرحد عبور کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد راستے میں ہی یا تو گرفتار ہوجاتی
ہے یا پھر سرحدی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتی ہے۔ کچھ لوگ مختلف
ممالک میں صحرائی علاقوں سے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن طویل صحرا
میں پانی اور کھانے کی اشیاءکے ختم ہوجانے اور مسلسل چلنے کی وجہ سے راستے
میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ بہت سے افراد بحری جہازوں کے تہہ خانوں میں دم
گھٹنے سے یا پھر پکڑے جانے کے خوف سے ایجنٹس کے ہی ہاتھوں سمندر برد کردیے
جانے سے مرجاتے ہیں۔ ماضی میں ایسے بیسویں واقعات پیش آتے رہے ہیں، جن میں
بہت سے پاکستانی دوسرے ممالک میں داخل ہونے کی کوشش میں بھوکے پیاسے رہنے،
دم گھٹنے اور دیگر کئی طریقوں سے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔
گزشتہ سال اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے
بڑھتے رجحان پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی
غربت، بے روزگاری اورعدم تحفظ کے باعث انسانی اسمگلنگ کی صورتحال سنگین
ہوتی جا رہی ہے۔ صورت حال میں تبدیلی نہ آئی، توخدشہ ہے کہ پاکستان کوملنے
والی بین الاقوامی امداد میں کٹوتی کاسامنا کرنا پڑے گا۔ ان پڑھ و غریب
عوام کنبے کی کفالت اور بہتر مستقبل کے لیے آئے دن انسانی اسمگلرز کا شکار
بن کرنہ صرف اپنی عمر بھر کی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، بلکہ دیار
غیر میں صعوبتیں بھی برداشت کرتے ہیں۔ جبکہ گزشتہ ماہ امریکی محکمہ خارجہ
نے اندرونی اور بیرونی انسانی اسمگلنگ اورٹریفکنگ میں ملوث افراد اور
گروہوں کے خلاف حکومتی کارکردگی پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان
کو ٹیئرٹو کیٹیگری میں شامل کیا۔ اس سے قبل پاکستان کو 2009 میں ٹیئرٹو
کیٹیگری کی واچ لسٹ میں شامل کیا گیاتھا۔ تاہم ہیومن ٹریفکنگ کے خلاف
غیرموثر کارکردگی کے باعث ایک مرتبہ پھرپاکستان کوواچ لسٹ میں شامل کیا
گیا۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیاگیا کہ
انسانی اسمگلرنہ صرف پاکستانیوں کوہیومن ٹریفکنگ کانشانہ بناتے ہیں، بلکہ
دنیا کے دیگرممالک کے شہریوں کی ٹریفکنگ کے لیے پاکستان کو ٹرانزٹ کے طور
پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اندرون ملک خاص طورپر بچوںکو جبری مشقت اورجسم
فروشی کا نشانہ بنایاجاتا ہے، جبکہ عورتوںکومنظم نیٹ ورک کے ذریعے جسم
فروشی کی مارکیٹ میں پیش کیا جاتا ہے۔ عورتیں اور کم عمر لڑکیاں شادی کے
لیے فروخت کی جاتی ہیں۔ ان کے شوہرانھیں افغانستان اورایران میں جسم فروشی
پرمجبور کرتے ہیں۔ بڑی تعداد میں پاکستانی مرداور عورتیں رضاکارانہ طورپر
عرب ممالک، ایران، ترکی، جنوبی افریقا، یوگنڈا، مالدیپ، آسٹریلیا، یونان،
اسپین اوردیگر یورپی ممالک میں غیر ہنرمند ملازمتوں کے لیے اسمگل کیے جاتے
ہیں۔ پاکستانی مردوں سے عرب ممالک میں جبری مشقت، عورتوں اور کم عمر لڑکیوں
کومتحدہ عرب امارات میں جسم فروشی پرمجبور کیاجاتا ہے۔ اس کے عوض غیرقانونی
ریکروٹمنٹ ایجنٹ اور سب ایجنٹوں کو پاکستان کے لائسنس یافتہ ریکروٹنگ ایجنٹ
بھاری رقم کی ادائیگی کرتے ہیں۔ پاکستانی بچوں کو ایران اورپاکستان کے
سرحدی علاقوںمیں جسم فروشی پر مجبورکیا جاتا ہے اور معذورافراد سے ایران
میں زبردستی گداگری کرائی جاتی ہے اوربعض اوقات انھیں دانستہ معذورکیا جاتا
ہے۔ امریکی رپورٹ میں حکومت پاکستان پر شدیدتنقید کرتے ہوئے کہاگیا کہ
حکومت پاکستان ہیومن ٹریفکنگ کے خلاف کم از کم موثرکارکردگی دکھانے میں
ناکام رہی ہے اورتاحال ہیومن اسمگلنگ اور ٹریفکنگ کوایک ہی مسئلے کے طورپر
دیکھ رہی ہے، جبکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت علیحدہ قسم کے جرائم ہیں۔
پاکستان حکومت مجوزہ اینٹی ٹریفکنگ بل کوقانون سازاسمبلی میں پیش کرنے
اورپکڑے جانے والے افرادکو سزائیں دلوانے میںبھی تاحال ناکام ہیں۔ حکومت کی
جانب سے جسم فروشی اورجبری مشقت کے متاثرہ افراد کی مدد اور اس منظم جرائم
میں ملوث افراد کی سرکوبی کے لیے کی جانے والی کوششیں جامع کرپشن کا نظام
زائل کردیتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر اسمگلنگ ایک منظم اور بھیانک جرم ہے، اس جرم سے کسی
قسم کا فائدہ حاصل کرنا یا کسی قسم کی معاونت کرنا بھی جرم ہے۔ یہ ایک منظم
جرم اور بڑا منافع بخش کاروبار اور پیسہ کمانے کا آسان طریقہ ہے، جس میں
ایجنٹس کے پورے پورے نیٹ ورکس ملوث ہوتے ہیں۔ بہتر معاشی مستقبل، غربت کی
وجہ سے اکثر لوگ بیرون ملک جانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ایجنٹس نیٹ ورکس ان کو
قانونی طریقے سے باہر لے جانے کی بجائے غیر قانونی طریقوں سے سرحد عبور
کرانے کا انتظام کرتے ہیں اور اس انتظام کرنے پر بھاری رقوم بھی حاصل کرتے
ہیں۔ ملک کے تمام بڑے شہروں میں ایسے ایجنٹ موجود ہیں جو لوگوں کو غیر
قانونی طور پر باہر بھیجتے ہیں یا جعلی دستاویزات کے ذریعے ان سے بھاری
رقوم بٹور کر انہیں روانہ کر دیتے ہیں، چنانچہ دوسرے ملکوں میں ان کا غیر
قانونی داخلہ ان کے لیے عذاب بن جاتاہے۔ وہ جیلوں اور تھانوں میں مصائب
برداشت کرتے ہیں اور ایجنٹوں کے پاس اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی لٹانے کے
بعد ان کے پاس ان ملکوں میں اپنے قانونی دفاع کے لیے بھی کچھ نہیں بچتا، یہ
غیر قانونی دھندا اس لیے بھی مسلسل فروغ پارہاہے کہ ان ایجنٹوں کے بااثر
شخصیات اور متعلقہ اداروں سے موثر رابطے ہوتے ہیں اور ان میں بیشتر قانون
کی گرفت سے محفوظ رہتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے وفاقی تحقیقاتی
ادارے میں امیگریشن ڈائریکٹر ظفر اقبال اعوان کہتے ہیں کہ انسانی اسمگلنگ
ایک عالمی مسئلہ، منظم جرم اور بڑا منافع بخش کاروبار اور پیسہ کمانے کا
آسان طریقہ ہے، جس میں ایجنٹوں کے پورے پورے نیٹ ورک ملوث ہیں۔ بہتر معاشی
مستقبل، غربت اور امن وامان کی خراب صورتحال کی وجہ سے اکثر لوگ بیرون ملک
جانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ایجنٹ اور نیٹ ورک بجائے ان کو قانونی طریقے سے
باہر لے جائیں، ان کو غیر قانونی طریقوں پر لگا دیتے ہیں اور اس سارے عمل
میں بہت سارے پیسے ملوث ہوتے ہیں۔ ایران کے ساتھ پاکستان کی سرحد 900
کلومیٹر طویل ہے، جہاں سے انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورک کی سرگرمیاں سب
سے زیادہ ہیں، کیونکہ صرف تافتان کے مقام پر دونوں ملکوں کے درمیان
امیگریشن مرکز ہے اور وہ بھی سہولتوں کے فقدان کا شکار ہے۔ یہ حالات انسانی
اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کے لیے خاصی کشش کا باعث ہیں۔
پاکستان میں بلوچستان سے ایران پھر ترکی اور پھر وہاں سے یونان یہ ایک
روایتی راستہ رہا ہے اور جب اسمگل کیے جانے والے افراد وہاں پہنچ جاتے ہیں،
بشمول یورپی ملکوں میں تو وہاں موجود ایجنٹ انھیں ان کی مرضی کی منزلوں پر
بھیج دیتے ہیں۔ ہمسایہ ملک افغانستان میں بھی اقتصادی بدحالی اور امن وامان
کی خراب صورت حال سے پریشان وہاں کے باشندوں کو مغربی اور خلیجی ممالک کی
طرف اسمگل کرنے کے لیے پاکستان کو راہداری کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے،
کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان 2400 کلومیٹر طویل سرحد پر صرف چمن اور طورخم
کے مقام پر دو امیگریشن پوسٹیں ہیں اور محض 5 فیصد افراد بین الاقوامی
مسافر ہوتے ہیں۔ ایران سے سالانہ تقریباً 15 ہزار، جبکہ عمان سے لگ بھگ 7
ہزار پاکستانیوں کو گرفتاری کے بعد ملک بدر کرکے پاکستانی حکام کے حوالے
کیا جاتا ہے۔ تاہم انسانی اسمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کی سالانہ
مجموعی تعداد بتانا مشکل ہے۔ ملک میں انسانی اسمگلنگ کے مطلوب خطرناک
ملزمان کی تعداد 4 سال میں 89 سے بڑھ کر 141 تک جاپہنچی ہے، جن کے تقریباً
8ہزار ایجنٹ ہیں۔ 2009سے 2014 تک 61200 افراد کو بیرون ملک جانے کی کوشش پر
پاک ایران اور پاک افغان سرحد پر گرفتار کیا گیا، جبکہ یہ لوگ 8ہزار سے
زاید افراد کو مشرق وسطی، یورپی اورافریقی ممالک اسمگل کرچکے ہیں۔ انسانی
اسمگلر عموماً گلستان،چمن، نوشکی، چاغی، مندبلو، پنج گور، تافتان اور تربت
کے راستے استعمال کرتے ہیں۔ ایف آئی اے بعض انتہائی مطلوب انسانی اسمگلروں
کے ریڈ وارنٹ جاری کرچکاہے۔ ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ یہ ایجنٹ
لوگوں کو انتہائی تھوڑی رقم میں دوسرے ممالک میں بھیجنے کا جھانسا دیتے ہیں
اور ان سے پیسے لے کر انہیں کسی دوسرے ایجنٹ کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں۔
محتاط اندازوں کے مطابق پاکستان میں سرگرم عمل انسانی اسمگلر اس غیرقانونی
کاروبار سے تقریباً15 کروڑ ڈالر سالانہ کماتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں
کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے
رجحان کی وجوہات کا سدباب کرے، انسانی اسمگلروں کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ
ملک سے بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ کرے، تاکہ غریب عوام کسی دھوکے باز کے
ہاتھوں اپنا مال اور جان نہ گنوا بیٹھے۔ انسانی اسمگلنگ سے ایک طرف جہاں
بین الاقوامی سطح پر ملک کی بدنامی ہوتی ہے، وہیں غیر قانونی طور پر بیرون
ملک جانے والے پاکستانی یا تو پکڑے جاتے ہیں یا پھر اپنی جان سے ہاتھ دھو
بیٹھتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف 2 فیصد افراد ہی اپنی منزل تک پہنچنے
میں کامیاب ہوپاتے ہیں۔ سمندر میں ڈوب کر مرنے والے اور کنٹینرز میں دم
گھٹنے سے ہلاک ہونے والے افراد اپنے بعد انتہائی المناک داستانیں چھوڑ جاتے
ہیں، مگر اس کے باوجود حکومتی اداروں کی خاموشی معنی خیز ہے۔ انسانی
اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹ ملک بھر میں دندناتے پھر رہے ہیں اور معصوم
نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسارہے ہیں۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نہ
صرف انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے بھرپور اقدامات کرے، بلکہ اس
گھناﺅنے کام میں ملوث افراد کو بھی عبرت ناک سزا دی جائے، تاکہ آئندہ وہ
پیسے کے لالچ میں لوگوں کی زندگیوں سے نہ کھیل سکیں۔ |
|