ڈاکٹر ایم اعجاز علی
سابق ایم پی
بانی وسرپرست آل انڈیایونائٹیڈمسلم مورچہ
جمہوریت نافذ ہوئے 64سال گذر گئے ۔ اپنے آئین پر نہ صرف سارے ہندوستانیوں
کو فخر ہے بلکہ ساری دنیا کے لئے یہ ایک سبق آموز قانون کا ذخیرہ ہے ، جس
نے ایک ایسے وسیع ملک کو ایک دھاگے میں باندھ کر رکھنے کا کام کیا جہاں
مختلف ذات ، نسل اور مذہب کے ماننے والے اپنی علاقائیت کا جذبہ رکھنے میں
ماہر ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ سب سے بڑی چیز جو آج دیکھنے کو مل رہی ہے وہ
یہ کہ سماج کا وہ حصہ یعنی دلت سماج جو ہزاروں ہزار برسوں سے بھید بھاؤ کا
شکار تھا محض 60-65سالوں کے عرصے میں آج ترقی کر ملک کے مین اسٹریم میں
شامل ہوچکا ہے اور جمہوریت کے ساتھ انصاف پر مبنی اس نظام میں وزیر اعظم کی
کرسی پر بیٹھنے کا خواب دیکھنا شروع کردیا ہے۔ ان کی اس ترقی سے ہم نالاں
نہیں تھے۔ اس بات کا افسوس ضرور ہے کہ اور سبھی کو ہونا بھی چاہئے کہ اسی
ملک کا دوسرا اکثریتی حصہ یعنی مسلم قوم آج سماجی دوڑ میں بھارتیہ سماج کے
سب سے نچلے پائیدان پر پہنچ گیا ہے، جسکی تائید سچر کمیٹی کی سرکاری رپورٹ
نے کی ہے۔ یہ بات بھی بڑے تعجب کی ہے کہ جس قوم کے نام پر 800برسوں تک
حکومت کی گئی ہو اس قوم کے لوگ آزادی کے محض 50سالوں میں دلتوں سے بھی
پیچھے چلے گئے۔ اس مضمون کے ذریعہ ہم یہی بتانا چاہتے ہیں کہ یہ ایسے نہیں
ہوا ہے ۔ ایک بہت بڑی شازش کا نتیجہ ہے جو آئین بنتے وقت رچی گئی تھی۔ ۔
ایک خفیہ سمجھوتا ہوا تھا جس میں بابری مسجد کی حفاظت کی خاطر مسلمانوں کے
حقوق میں آئینی کٹوتی کے لئے مسلم سربراہوں کو مجبور کی گئی تھی۔ بات یہ ہے
کہ جب ہندوستان آزادی کی طرف بڑھنے لگا اور جمہوری نظام کے تحت ملک کی
حکومت چلانے کی بات سامنے آنے لگی تو پھر سماج کے مختلف حصوں کے ذریعہ
اقتدار میں مناسب حصہ داری حاصل کرنے کی فضا بھی بننے لگی۔ 1932کے کامنل
اوارڈ (Communal Award) نے قومی سطح پر ریزرویشن حاصل کرنے کی ڈاکٹر ابیڈکر
کی مہم میں کامیابی ضرور دلائی لیکن انگریزوں نے جو ریزرویشن دیا اُس کا
دائرہ بڑا تھا اور مذہبی قید نہیں ہونے کی وجہ کر مسلمانوں کی بھی پیشہ ور
آبادیاں ( بڑی آبادی) اس ریزرویشن کے دائرے میں آتی تھیں۔ فرقہ پرست طاقتیں
ویسے بھی ریزرویشن برائے استحصال زدہ طبقات کی مخالفت شروع سے کرتی چلی
آرہی ہیں۔ مسلمانوں کی حصہ داری کی تو پیدائشی مخالف رہی ہیں۔ سب کچھ ان سے
برداشت ہوسکتا ہے لیکن مسلمان نہیں لہٰذا وہ نہیں چاہتی تھیں کہ آزاد
ہندوستان میں مسلمانوں کو کسی طرح کا آئینی حق ملے۔ انگریزی دور حکومت میں
تو ان کی چلی نہیں۔ لیکن آزادی کے بعد ہند پاک بٹوارے نے تو ان کے مزاج کو
اتنا سخت بنا دیا گویاملک پر صرف اُن کا ہی حق ہے۔ اول تو وہ آئین ہند کے
مجوزہ خاکہ میں ریزرویشن کو دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے لیکن 9 Nov. 1946
میں جب آئین سبھا نے اپنے سارے قرار داد پاس کیا تو گاندھی جی و ڈاکٹرامبیڈ
کر کی پہل پر ریزرویشن کو اس میں 6نمبر پر جگہ مل گئی ۔ پہلا جھٹکا کھانے
کے بعد بھی سنگھ پریوار والے مانے نہیں اور ڈرافٹنگ کمیٹی کو ریزرویشن پر
مذہبی قید لگا کر کم سے کم اقلیتوں کو اس سے خارج کرنے کا تحریری دباؤ
بنایا۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے سنگھ پریوار (ہندو مہاسبھا) کے اس مانگ کو قبول
کرنے سے انکار کرتے ہوئے 13؍فروری 1949 کو باضابطہ قرار داد پاس کر آئین
میں دیئے جانے والے کسی بھی زمرے کے ریزرویشن پر مذہبی قید لگانے پر ہمیشہ
کے لئے روک لگادی۔ سنگھ پریوار کو یہ دوسرا جھٹکا ملا جو ان کے امید کے
خلاف تھا۔ کیونکہ انہیں پوری امید تھی کہ ریزرویشن پالیسی پر مذہبی قید
لگوا کر کم سے کم مسلمانوں کو تو اس ملک میں پہلے ایسی حالت میں پہنچا
دینگے تاکہ وہ دلتوں سے بھی بدتر زندگی گذارنے پر مجبور ہوجائیں تاکہ بعد
میں ساورکر کے ’’ گھر واپسی‘‘ مشن کی کامیابی میں آسانی ہو۔ مسلمانوں کے
خلاف اپنی مشن فیل ہوتا دیکھ یہ تلملا گئے اور مذہبی قید کی شرط کو جبراً
شامل کروانے کی مہم میں تیزی سے لگ گئے تاکہ آئین ہند نافذ ہونے کے پہلے ان
کی مانگ( مشن) بھی اس میں شامل کرلی جائے۔ یاد کیجئے کہ جس طرح انگریزی
سرکار کے ذریعہ 1936میں ریزرویشن نافذ کرنے کے پہلے ایک سازش کے تحت 1934
میں بابری مسجد کے احاطے کی دیوارکو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ اسی طرح 1949
کے 22۔23دسمبر کو ان مسلم مخالف طاقتوں نے بابری مسجد کو پھر سے نشانہ
بنایا اور اس بار تو مسجد کے صحن میں رات کے اندھیرے میں رام للاکی مورتی
رکھ کر سویرے سے ہی باضابطہ درشن بھجن و کرتن شروع کروایا۔مسجد کی بے حرمتی
دیکھ فاروق نام کے ایک لوکل باشندے نے اس پر مضبوط تالا لگا دیا،جس کے خلاف
جنم بھومی حمایتی والے فوراً عدالت میں چلے گئے۔ لگے ہاتھ بابری مسجد او
رام جنم بھومی کے تنازعہ کو اس بار تیزی سے سارے ملک میں پھیلا کر دنگا
فساد کرانے کا ماحول بنانا شروع کیا۔ ملک کے ناگفتہ بہ ماحول کو دیکھتے
ہوئے فساد روکنے کے لئے ایڈمنٹریشن کی پہل پر دونوں فر قوں کے بیچ سمجھوتے
کی بات سامنے آئی تو مسلمان کے طرف سے یہی کہا گیا کہ عدالت کا فیصلہ آنے
تک اس پر تالہ لگارہے تاکہ مسجد کی حفاظت ہوسکے۔ تالہ کھولنے اور درشن کے
لئے بضد رام جنم بھومی حمایتی گروپ اسی شرط پر سمجھوتا کیلئے راضی ہوئے کہ
مسلمان کو ملک میں حصہ داری دینے (یعنی ریزرویشن والی دفعات 341&342) سے
خارج کیا جائے تاکہ آزاد ہند میں یہ دلتوں سے بھی نچلے پائیدان پر چلے
جائیں ۔ یہی نہیں بلکہ ان پر یہ بھی شرط نافذ کی جائے کہ دو بارہ ریزرویشن
پانے کے لئے انہیں پہلے ہندو ازم قبول کرنا پڑے گا۔ اﷲ کے گھر کی حفاظت کی
خاطر مسلم سربراہوں نے سمجھوتہ قبول کرلیا جسکے علاوہ ان کے پاس اور کوئی
راستہ بھی نہ تھا۔ آج محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ذریعہ رچی گئی یہ ایک بڑی
سازش تھی جو ساور کرنے’’ گھر واپسی‘‘ کے مشن کے تحت پہلے سے ہی تیار کررکھی
تھی۔ ورنہ 26؍جنوری کو آئین نافذ ہونے کے بعد جس قسم کا سرکاری آرڈر ( جسے
صدارتی حکم نامہ1950کہا جاتا ہے)، 10؍ اگست 1950 کو لاکر پہلے دفعہ 341پر
مذہبی قید لگائی گئی۔اور اس کے بعد تبدیلئی مذہب کی شرط ماننے کے بعد ہی
اقلیتوں کی دوبارہ دفعہ 341میں شامل کرنے کا دوسرا آڈر 23؍جولائی ، 1959 کو
لایاگیا۔ یہ دونوں آرڈر جبراً لایا گیا اور ایک مشن کے تحت زبردستی نافذ
کیاگیاتھا۔ ورنہ قابل احترام آئین ہند میں ان حکم ناموں کی گنجائش ہی نہیں
بنتی ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ 1949-50 کے اس خفیہ سمجھوتے کے پیچھے
چُھپی سازش کو مسلمانان ہند لمبے عرصے تک سمجھ ہی نہ سکے۔ ہماری آنکھیں تو
تب کھلی جب سچر کمیٹی کی رپورٹ آئی اور اسکے ساتھ ساتھ لبراہن کمیشن کی
رپورٹ بھی۔ ان دونوں کے بعد رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ آئی جس نے دفعہ
341سے مذہبی قید ہٹانے کی صلاح مخصوص طریقے سے الگ کر کے دی ہے۔ غور کیجئے
کہ مسلمانوں کی حالات (سچر کمیٹی)، بابری مسجد سانحہ ( لبراہن کمیشن رپورٹ)
اور دفعہ ؍341 میں ترمیم کا معاملہ ( رنگ ناتھ مشرا کمیشن) کا ایک ساتھ
سیاسی افق پر آنا اور اس کے ساتھ ہی ایک بڑے سیاسی بھونچال کے ساتھ سنگھ
پریوار کا اقتدار پر اکثریت کے ساتھ قابض ہوجانا ‘یہ سارے معاملات کل ملا
کر سنگھ پریوار کے اس مہم کی کامیابی کی نشاندہی کرتا ہے جو 1925 کے ارد
گرد ساور کر ، ہڈ گوار اور گولوالکر نے تیار کی تھی اور جس میں کامیاب ہونے
کے غرض سے خود ساختہ ایودھیا تنازعہ کے آڑ میں آئین کے معماروں اور مسلم
نمائندوں کے بیچ 1949-1950میں ایک ایساسمجھوتا کروادیا کہ آج مسجد بھی ہاتھ
سے نکل گئی اور مسلمانان ہند کی تعلیمی ، اقتصادی ، سماجی و سیاسی حالات
بھی دلتوں سے بھی خراب ہوگئی۔ سنگھ پریوار کے مانگ پر غریب مسلمانوں کے اس
آئینی حق کی قربانی اس جذبہ کے ساتھ دی گئی تھی کہ کسی طرح مسجد کی حفاظت و
بازیابی ہولیکن ہمارے سربراہ اس سمجھوتے کے پیچھے چھپی اس سازش کوبالکل بھی
نہیں سمجھ سکے تھے اور آج بھی سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کاش کہ انہیں یہ سمجھ
میں آجاتا کہ اتنے وسیع آئین میں سنگھ پریوار والوں نے دفعہ 341کو ہی کیوں
نشانہ بنایا اور یکے بعد دیگرے اس پر دو شرط کیوں لگائے؟ چاہے کوئی مانے یا
نہ مانے لیکن اس ایک سمجھوتے نے ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ اُلٹ کر
رکھ دی۔ اس بات کا بھی صاف اندازہ لگتا ہے کہ اپنی اس حکمت کے ذریعہ سنگھی
طاقتیں ہندوستان میں بھی کہیں اسپین کی روداد دُہرانے کی چال تو نہیں چل
رہے ہیں کیونکہ ہندو مہاسبھا کا تعلق اسپین سے شروع سے رہا ہے اور گھر
واپسی کا تکنیک وہی سے سیکھ کر یہاں نافذ کرنے کے فراق میں ہیں۔ |